پاکستان میں امت مسلمہ کو متحرک کرنے کی صلاحیت موجود

عبدالرافع رسول
مسئلہ کشمیر پرمسلم دنیاکے حکمرانوں اور او آئی سی کے پھسپھسی کردار پر دل گرفتہ ہونے کے باوجودپاکستان کوغم امہ ستارہاہے ۔اس کی تازہ اورزندہ مثال غزہ پراسرائیلی جارحیت کے حوالے سے پاکستان کا امت مسلمہ کو متحرک کرنے اوراس دیرینہ مسئلے پرعالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے میں کلیدی کردار اد اکیا جاناہے۔غزہ پراسرائیلی جارحیت کے حوالے سے پاکستان نے ایک بارپھریہ ثابت کردیاکہ اگرمسلم ممالک کے خوابیدہ اورمخمور حکمران اس کاساتھ دیں تووہ انکے اشتراک سے امت مسلمہ کو درپیش مسائل سے نکالنے کیلئے قائدانہ کرداراداکرسکتاہے۔10مئی سے 21مئی 2021تک فلسطین پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف پاکستان نے جس طرح کادوٹوک اورجاندارموقف سامنے لایاہے اسے یہ امرمبرہن ہوجاتاہے کہ وہ نہ صرف مسلم ممالک کی قیادت کرسکتاہے بلکہ خطے میں امریکی چوہدراہٹ کے خاتمے کے لئے بھی وہ چین ،روس،ترکی اور ایران پر مشتمل ایک کثیر الجہتی اتحاد تشکیل دینے کے حوالے سے بھی کامیاب ہوسکتا ہے۔
حالیہ ایام میں پاکستان نے یہ بھی ثابت کردیاکہ وہ عرب ممالک اورایران کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے ، عرب وعجم کے مسلم ممالک میں مشترکہ حکمت عملی اپنانے اوراو آئی سی کے پلیٹ فارم کوفعال بنانے کے لئے کرداراداکرسکتاہے، جبکہ کشمیراورفلسطین کے دیرینہ مسائل حل کرانے اورافغانستان میںپائیدار امن کا قیام کے لئے کثیر الجہتی اتحاد کے باضابطہ قیام کے ذریعے سے ایک لائحہ عمل ترتیب دے سکتاہے ۔اگرچہ یہ کام کوئی آسان بھی نہیں ہے لیکن ناممکنات میں سے بھی نہیں۔مسلم دنیاکے سرمایہ دار اور اہم عرب ممالک پاکستان کے دوش بدوش کھڑے ہوجائیں تویقینابات بن سکتی ہے وگرنہ یہ ذمہ داری نبھاناپاکستان کے لئے چٹان سے جوئے شیرلانے کے مترادف ہے ۔عرب ممالک پر مسلط حکمران شراب وشباب کی مستی اورزن مریدی چھوڑیں امہ کے غم کواپنے سینوں میں جگہ دیںتویہ کام پھر ممکن ہے وگرنہ درپردہ سازشوں کوصرف نظر نہیں کیاجاسکتا۔
مسلم دنیاکے حوالے سے پاکستان کی قائدانہ اہلیت کااندازہ ایک بارپھراس وقت سامنے آیا کہ جب اس نے نہتے فلسطینیوں پر اسرائیلی ظلم و ستم اور بربریت کیخلاف ترکی کے ساتھ مشترکہ طور پر آواز اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔اس پس منظرمیں پاکستان کے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے16مئی 2021اتوارکو اپنے ترک ہم منصب سے ملاقات کی اور دونوں نے فلسطین کی ابترصورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔ شاہ محمود قریشی اورترک وزیر خارجہ میولوت چاوش اولو نے او آئی سی کی ایگزیکٹو کمیٹی کے وزرائے خارجہ اجلاس میںکے خطاب کیااور مظلوم فلسطینیوں کی مسلسل اور بھرپور حمایت کابھرملااظہارکیا۔دونوں وزرائے خارجہ نے نہتے فلسطینیوں پر اسرائیلی جارحیت اور فلسطینیوں کی جبراً بے دخلی کی پر زور مذمت کی اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف اقوام متحدہ میں مل کر آواز اٹھانے کا فیصلہ کیا۔وزیر خارجہ نے کہا کہ فلسطینی بھائیوں کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے فلسطین کے معاملے پر حکومت پاکستان کے ٹھوس اور واضح موقف کااظہارکرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں پراسرائیل کی بہیمانہ بمباری کے تسلسل سے پوری امت مسلمہ دل گرفتہ ہے۔پاکستان کی پارلیمان سے ایک مشترکہ قرارداد پاس کی جواسرائیلی جارحیت کے خلاف اورفلسطینیوں کے حق میں تھی ۔جبکہ پاکستان میں 21 مئی کو فلسطینی بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے یوم یکجہتی فلسطین کے طور پر منا یا۔
پاکستان فلسطین کے حوالے سے جس بے کلی کااظہارکررہا وہ مسلم دنیاکے حوالے سے اس کے قائدانہ کردار ادا کرنے کی کوشش ہے۔ستمبر2018 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سربراہ اجلاس میں پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کی تقریربھی اس امرپرمہرتصدیق ثبت کررہاہے کہ پاکستان میں مسلم دنیاکے لئے قائدانہ صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہیں۔ اس تقریرکے بعد پاکستان نے ترکی اور ملائشیا کے ساتھ ایک بلاک بنانے کی کوشش کی اورملائیشیاکے داراحکومت کوالالمپورمیں تنیوں ممالک کے سربراہان کا ایک مشترکہ اجلاس منعقدہوناطے پایا جس پر سعودی عرب نے سخت ناراضی کا اظہار کیا۔پاکستان کے اس اقدام پرسعودی عرب کاردعمل اس قدرشدیدتھا کہ پاکستان کی تجویز پر کوالالمپور میں جو سربراہ اجلاس ہو رہا تھاوزیراعظم پاکستان عمران خان نے اس میں شرکت سے معذرت کر لی۔جبکہ کشمیرپرسعودی عرب کاپاکستان کے ساتھ کھڑے نہ ہونے پرپاکستان کے وزیرخارجہ شاہ محمودقریشی کی طرف سے سعودی قیادت پرتنقید سے بھی سعودی شاہی خاندان پاکستان سے ناراض ہوچکاتھالیکن چند ہفتے قبل وزیر اعظم عمران خان سعودی دعوت پر سعودی عرب گئے۔بھائیوںکے مابین گلے شکوے دورہوئے پاکستان میں بہت سے منصوبوں میں سرمایہ کاری پر آمادگی ظاہر کی۔ سب سے اہم معاملہ یہ ہوا کہ عمران خان پچھلے ڈھائی برس سے سعودی عرب اور ایران کے مابین کشیدگی کے خاتمہ کے لئے جو کوشش کر رہے ہیں اس پر بات چیت کا آغاز ہو گیا۔ سعودی عرب اور ایران کو احساس ہو رہا ہے کہ وہ اپنے وسائل غلط ترجیحات پر خرچ کر رہے ہیں۔ تیل کی صنعت کو متبادل انرجی سے خطرات ہیں۔ تیل نہ ہو گا تو اس کی بنیاد پر اپنی سکیورٹی ضروریات کو پوراکرنا مشکل ہو جائے گا۔ آمدن ہمیشہ دوست ممالک کی منڈیوں سے شروع ہوتی ہے ،ہمسایہ ممالک سے کاروباری تعلقات کو فروغ دیا جاتا ہے ۔پاکستان اور سعودی عرب سمیت تمام مسلم ممالک کو دوست اور ہمسایہ ممالک کی منڈیوں سے دور کر کے انہیں یورپ اور امریکہ کا دست نگر بنایا گیا۔
سوال یہ ہے کہ اسرائیل کے خلاف جارحانہ سفارتی مہم ، امریکہ اور دیگر بڑے ممالک کی منافقانہ پالیسی پر کڑی تنقید اور معاشی مشکلات کے باوجود امہ کے باہمی تنازعات کو حل کرانے کے لئے پاکستان کو یہ اعتماد اورحوصلہ کہاں سے ملا؟اس کے پیچھے 22کروڑ پاکستانی عوام کی فلسطینیوں کے حق خودارادیت،قبلہ اول مسجد اقصیٰ اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام پر ایمان کی حدتک حمایتثانیاََ عرب ممالک کا بدلتے حالات میں اپنے کردار اور ترجیحات پر نظرثانی کے لئے آمادہ ہونا،ثالثاََمسلم دنیا کے مسائل پر اقوام متحدہ کا دوہرا معیاراس کے علاوہ سب سے اہم بات یہ کہ پاکستان کوامریکہ اور مغربی ممالک کے مقابلے میں چین کی غیر مشروط حمایت حاصل ہے جسے وہ بیلنس آف پاور کے لئے بروئے کار لا رہا ہے۔ یہ اس بیلنس آف پاور کا کمال ہے کہ فلسطین جیسے اہم تنازع پر حالیہ دنوں پاکستان مسلم دنیا کی نمائندہ آواز بن کر ابھرا ہے۔ ہمارے ہاں کامیابیوں کو سیاسی تعصبات کی نذر کرنے کا رواج ہے اس لئے اس معاملے پر ذرائع ابلاغ کی نمایاں آوازیں خاموش ہیں۔ یہ لوگ اس اہم پیشرفت پر جانے کیوں بات نہیں کرنا چاہتے کہ جس نے امریکہ کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا کہ ہم زیادہ دیر اسرائیل کی کارستانیوں کا دفاع نہیں کر سکتے۔
تقریباً فلسطین جیسی صورتحال کاسامنا کشمیر کوبھی درپیش ہے جسے بھارت نے دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل میں تبدیل کر رکھا ہے۔ آج کرونا نے بھارت کو دنیا کا بدترین ملک بنا دیا ہے تادم تحریر3لاکھ بھارتی شہری ہلاک ہوئے لیکن اس کے باوجود بھارت نے کشمیریوں پر ظلم و ستم کا سلسلہ بند نہ کیا اسی سے بھارت کے کرتوت بدکاصحیح اوربھرپوراندازہ ہوجاتاہے۔دراصل دنیا کے جائز حقوق غصب کر کے عالمی سطح پر نفرت اور تصادم کی فضا پیدا ہوتی ہے اور پوری دنیامیں مظلوم ظلم کی چکی میں مسلسل پس رہی ہے۔ دنیا میں پائیدار امن کے قیام کیلئے ضروری ہے کہ فلسطین اورکشمیرکے تنازعات کے حل کیلئے انصاف پرمبنی فیصلے کئے جاسکیں۔فلسطین سے اسرائیل کاجبری قبضہ ختم ہوجائے اورکشمیر کا مسئلہ بھی کشمیریوں کو اُن کا بنیادی حق خود ارادیت دئیے جانے سے حل کیاجائے۔
Comments are closed.