مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کو سلام

 

ودود ساجد

مدھیہ پردیش میں بی جے پی حکومت کے بدزبان وزیر کنور وجے شاہ کے خلاف آخر کار مدھیہ پردیش پولیس نے ایف آئی آر درج کرلی ہے۔۔ اس شیطان نے بہادر فوجی خاتون صوفیہ قریشی کو نشانہ بناکر ہندوستانی مسلمانوں کے سینہ پر جو زہریلا تیرچلایا تھا اس کی کسک اور اس کی شدید تکلیف ہندوستان کے ہر انصاف پسند شہری کے ساتھ ساتھ عدلیہ نے بھی محسوس کی۔۔

 

لہذا گزشتہ روز مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کی ایک ڈویزن بنچ نے اس کے خلاف جو رویہ اختیار کیا اس نے ہندوستان کے کروڑوں مسلمانوں اور کروڑوں انصاف پسند برادران وطن کے زخم پر فوری طور پر مرہم رکھ دیا۔ ہمیں تو امید تھی کہ مرکزی حکومت اور بی جے پی کی مرکزی قیادت‘ خاص طور پر وزیر اعظم نریندر مودی بھی اس کے خلاف فوری طور پر ایکشن لیں گے۔ کیوں کہ مدھیہ پردیش کے وزیر نے صرف مسلمانوں پر ہی نشانہ نہیں لگایا تھا بلکہ اس عظیم ملک کی اس عظیم فوج پر بھی نشانہ لگایا تھا جس نے مشکل حالات میں بھی ہندوستان کا سر فخر سے بلند کیا ہے۔

 

مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کی جبل پور بنچ کے جسٹس اتل سری دھرن اور جسٹس انورادھا شکلا نے اپنے حکم نامہ میں شک وشبہ کی کوئی گنجائش ہی نہیں چھوڑی۔ بنچ نے بی این ایس کی مختلف دفعات 152′ 196 (1B) اور 197 (1C)

کا حوالہ دیتے ہوئے فیصلہ میں جو لکھوایا ہے وہ عدلیہ کی ماضی قریب کی تاریخ میں مشکل سے ملے گا۔ عدالت نے کہاکہ:

"’—– وجے شاہ نے ملک میں موجود مسلح افواج کے اس آخری ادارہ کو جو سالمیت، صنعت، نظم و ضبط، قربانی، بے لوثی، کردار، غیرت اور بے مثال حوصلے کی عکاسی کرتا ہے اورجس کے ساتھ اس ملک کا ہر قدر پسند شہری اپنی شناخت کو جوڑنے میں فخر محسوس کرتا ہے‘ نشانہ بنایا ہے۔وجے شاہ نے کرنل صوفیہ قریشی کے خلاف انتہائی غلیظ زبان استعمال کی ہے۔ کرنل صوفیہ قریشی اور ونگ کمانڈر ویومیکا سنگھ مسلح افواج کا چہرہ تھیں جو میڈیا اور قوم کو ہماری مسلح افواج کی جانب سے پاکستان کے خلاف شروع کیے گئے آپریشن "سندور” کی پیشرفت کے بارے میں بریفنگ دے رہی تھیں۔ وزیر نے واضح طور پر صرف اور صرف کرنل صوفیہ قریشی کی طرف اشارہ کرکے ایک ناقابل معافی بیان دیا ہے۔ بادی النظر میں وزیر کا یہ بیان کہ کرنل صوفیہ قریشی ان دہشت گردوں کی بہن ہے جنہوں نے پہلگام میں حملہ کیا تھا، علیحدگی پسند سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور ہر اس شخص کو جو مسلمان ہے‘علیحدگی پسندی کاملزم گردانتا ہے۔ یہ بیان ہندوستان کی خود مختاری ‘ اتحاد و سالمیت کو خطرہ میں ڈالتا ہے۔ کیونکہ کرنل صوفیہ قریشی مسلم عقیدے کی پیروکار ہیں ‘ انہیں دہشت گردوں کی بہن کہہ کر ان کا مذاق اڑانا مختلف مذاہب کے گروہوں کے درمیان ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے—–‘‘

 

کیا عدالت کی اتنی سخت زبان کے بعد بھی پولیس کو سر تسلیم خم کرتے ہوئے اس شرپسند کے خلاف کارروائی نہیں کرنی چاہئے تھی؟ لیکن اس پر بھی ایڈووکیٹ جنرل نے لیت ولعل سے کام لیا اور عمل آوری کیلئے مزید وقت مانگا۔۔۔جسٹس اتل سری دھرن نے سرکاری وکیل کی سخت مزاحمت کے باوجود وزیر کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا مکرر حکم دینے کے بعد جو کہا وہ کوئی معمولی بات ہرگز نہیں ہے۔ انہوں نےکہا کہ’’درج کیجئے‘ ابھی درج کیجئے‘ ہوسکتا ہے کہ میں کل زندہ نہ رہوں‘ میں آپ کو چار گھنٹے دے رہا ہوں‘ یا تو اس حکم پر سپریم کورٹ روک لگائے یا اس حکم پر عمل کیا جائے۔‘‘

 

بنچ نے ایڈووکیٹ جنرل سے کہا کہ ہمارے حکم کی اطلاع فوری طور پر پولیس کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی پی) کو دی جائے ۔ عدالت نے وارننگ دی کہ اگر ہمارے حکم پر عمل درآمد میں کوئی تساہلی برتی گئی تو پھر عدالت ڈی جی پی کے خلاف بھی توہین عدالت کی کارروائی شروع کرے گی۔۔

 

اس کے بعد بھی حکومت کے وکیل کو شرم نہیں آئی اور عدالت سے کہا کہ آپ نے محض میڈیا رپورٹس کی بنیاد پر حکم سنادیا۔۔ عدالت نے کہا کہ ہم اس کے ساتھ یوٹیوب پر موجود ویڈیوز کا لنک بھی شامل کردیں گے۔۔

 

اتنا واضح حکم ہونے کے باوجود مدھیہ پردیش پولیس نے ایف آئی آر درج نہیں کی ۔۔ 9 بج کر 34 منٹ پر اس شرپسند وزیر نے ٹویٹر پر ایک ویڈیو پوسٹ کرتے ہوئے اپنے بیان پر معافی مانگی اور صوفیہ قریشی کو "ملک کی بہن” قرار دیا۔۔ آخر کار شب کے 11 بج کر 36 منٹ پر مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ موہن یادو کے دفتر نے ٹویٹ کیا کہ عدالت کے حکم کی اتباع میں وزیر اعلیٰ نے پولیس کو ایف آئی آر درج کرنے کی ہدایت دی ہے۔۔

 

مذکورہ تینوں دفعات بہت اہم ہیں ۔۔ مرکزی وزارت داخلہ کے ذریعہ بنائے گئے نئے تعزیری قوانین "بھارتیہ نیائے سنہتا” کی دفعہ 152 کے تحت جرم ثابت ہونے پر عمر قید تک کی سزا ہوسکتی ہے۔۔ دیکھنا ہے اس شرپسند کی گرفتاری کب ہوتی ہے۔۔ آج مدھیہ پردیش ہائی کورٹ اس معاملہ پر پھر سماعت کرے گی۔۔

Comments are closed.