ماں

 

کومل یونس خانیوال

صبح اپنی جوبن پر تھی، سورج کی مدھم مدھم کرنیں جب گھاس پرپڑے شبنمی قطروں سے ٹکراتیں تو وہ قدرت کا حسین امتزاج دل کو موہ لیتا۔ ندا نیلے لباس میں ملبوس باغ میں چہل قدمی کر رہی تھی۔ اس کے ہاتھ میں ایک ورک تھا اور اس کی ساری توجہ اسی پر تھی۔وہ منہ ہی منہ میں کچھ بول رہی تھی۔ آج دراصل ماں کا دن ہے اور ندا نے اسکول میں ہونے والے تقریری مقابلے میں حصہ لیا تھا۔
وہ بہت خوش اور پُر امید تھی۔ آج وہ روز کی طرح دیر تک نہیں سوئی تھی؛ بلکہ آج اس کی آنکھ فجر سے پہلے کُھل گئی تھی۔ اس نے نماز پڑھتے ہی باغ کا رخ کرلیا؛ تاکہ وہ کھلی فضا میں اچھے سے اپنی لکھی گئی تقریر کو ذہن نشیں کر لے۔
ندا اپنی ماں سے بہت محبت کرتی تھی اور ہر سال ماں کے دن پر بڑھ چڑھ کر تقریری مقابلے میں حصہ لیتی تھی۔ندا ابھی دو دن ہی کی تھی کہ اس کے والد جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ سب خاندان والوں اور آس پاس والوں نے ندا کوکوسنا شروع کردیا؛ پتہ نہیں کون سی بلائیں ساتھ لے کر آئی ہے ،جو پیدا ہوتے ہی باپ کو کھا گئی ہے۔اس کے ساتھ ندا کی ماں نے بھی بہت کچھ سہا مگر صبر کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا۔
اور اسی ایک بیٹی کے سہارے ساری زندگی گزارنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ندا کی ماں نے فاقے برداشت کیے، مگر ندا کی پرورش میں کمی نہیں آنے دی۔ ندا تھوڑی ضدی تھی ، مگر دنیا میں کسی کو وہ جانتی تھی یا کسی کو اس نے اپنا محافظ پایا تھا، تو وہ اس کی ماں تھی۔ وہ اکثر ماں سے اپنے بابا کا ذکر کرتی تھی۔ ماں بابا کیا ہوتے ہیں؟ میرے بابا کیوں نہیں ہیں؟ سب بچوں کے بابا انہیں اسکول سے لینے آتے ہیں، پر میرے بابا کیوں نہیں؟ یہ سوال ندا تب کرتی تھی۔ جب وہ بہت چھوٹی تھی، مگر پھر آہستہ آہستہ سب باتیں سمجھنے لگی اور بابا کا ذکر اس کی زبان سے کم ہوتا گیا ۔ندا اپنی ماں ہی کو اپنا دوست گردانتی تھی اور سب گلے شکوے دکھ درد ماں کے روبرو ہوکر کرتی تھی۔
ماں کے دن پر ندا باغ سے واپس آئی، وہ خوشی سے اچھل کود کررہی تھی۔ جلدی جلدی اسکول کی تیاری کی اور کھاناکھائے بغیر ہی اسکول کے لیے چل دی ،ماں پیچھے سے آواز دیتی رہی کہ ندا کھانا کھا کر جاؤ! مگر اس نے صاف انکار کردیا، مجھے بھوک نہیں ہے، کھاناآکر کھاؤں گی۔ ندا اسکول پہنچی تو اسٹیج کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی، اسٹیج کو مختلف اور خوبصورت پھولوں سے سجایا گیا تھا وہ پھولوں کی مہک ندا کی روح کو معطر کررہی تھی۔ بچے اپنے مقابلے کو لے کر کافی خوش دکھائی دے رہے تھے اور کچھ تھوڑے ڈرے ہوئے بھی تھے۔ لیکن ندا پُر امید تھی کہ آج وہ ہی مقابلہ جیتے گی۔ کیونکہ اس بار اس نے جی بھر کے محنت کی تھی اور وہ یہ مقابلہ جیت کر ماں کو ماں کے دن پر تحفہ دینا چاہتی تھی۔ سب اساتذہ کرام اسٹیج پر لگی کرسیوں پر بیٹھ گئے، مقابلہ شروع کروایا گیا ، سب سے پہلی بچی کو تلاوت کے لیے بلایا گیا، پھر اسی طرح نعت اور پھر تقریری مقابلے والے بچوں کو دعوت دی گئی۔ اب ندا کی باری تھی ندا اسٹیج پر پہنچی، سب اساتذہ کرام اور طلبہ کو مخاطب کرتے ہوئے اپنی تقریر کا آغاز کیا۔ ندا نے بہت اعلی قسم کی تقریر کی تھی۔ سب اساتذہ نے داد دی اور آخرکار ندا نے پہلی پوزیشن حاصل کی۔ اب ندا بہت خوش تھی۔ اسکول سے چھٹی ہوتے ہی وہ خوشی خوشی گھر کی طرف رواں دواں تھی۔جب ندا گھر کے دروازے کے پاس پہنچی تو معمول کے مطابق گھر کے دروازے پر ماں کو نہ پا کر مایوس سی ہو گئی۔کیونکہ روز ندا کی ماں اس کا دروازے پر انتظار کرتی تھی کہ کب ندا اسکول سے آئے ندا آتے ہی ماں کے گلے لگتی تھی۔ لیکن آج ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔ندا ماں! ماں کہاں ہیں آپ؟ آج آپ کے لیے ایک بہت ہی خوبصورت تحفہ ہے۔جب ماں نے ندا کی پکار پر کوئی جواب نہ دیا تو ندا گھبرا سی گئی اور پڑوس والی آنٹی سے پوچھا تو پتہ چلا کے آج وہ دوپہر میں بہوش ہوگئی تھیں۔ ایمبولینس کو کال کی تھی وہ اسپتال لے کر گئی ہے۔ ندا یہ بات سنتے ہی چکرا گئی اور آنٹی سے ضد کرنے لگی کے مجھے میری ماں کے پاس لے جائیں، آخرکار ندا ماں کے پاس اسپتال پہنچ ہی گئی، پہلے تو ماں کے گلے لگ کر خوب روئی اور جب دیکھا کے اب ماں پہلے سے بہتر محسوس کر رہی ہے تو اپنی تقریری مقابلے میں کامیابی کے بارے میں بتایا، ندا کی ماں کو دراصل دل میں سوراخ تھا ، جس کی وجہ سے اسے اکثر تکلیف ہوتی رہتی تھی۔ مگر اس نے کبھی ندا کو اپنی اس بیماری کے بارے میں نہیں بتایا ، وہ نہیں چاہتی تھی کے اس کی بیٹی اپنی ماں کی وجہ سے دکھی ہو، یا کسی مشکل میں پڑے۔مگر آج ندا اس حقیقت سے آشنا ہوچکی تھی۔ پہلے تو ندا کافی دکھی ہوئی ماں کی اس بیماری کا سن کر ، مگر بعد میں اس نے ماں کا حوصلہ بڑھایا اور ماں کے علاج کا ارادہ کر لیا کہ اگر میری ماں میرے لیے اپنی ساری زندگی قربان کر کے مجھے سینے سے لگا سکتی ہے تو میں کیوں نہیں۔ ماں ہی وہ انمول ہستی ہے جو اولاد کی خاطر سب دکھ درد برداشت کرتی ہے۔ماں لفظ اپنی اندر بے پناہ چاشنی لئے ہوئے ہے۔

میری ماں، میری ہم نفس ہے اور کڑی دھوپ میں میرا سایہ
وہی تو ہے جس نے مجھ ناتواں کو ہر دیارے غیر سے بچایا
وہ خلوت میں رو کر خدا سے جب کرتی ہے، میرے نصیب کی عرضیاں
میں وار دوں اپنی کل خلد اس کی ہر دید پر اور اپنی خود غرضیاں

Comments are closed.