حکمت یعنی political science اور مسلمان

 

عمر فراہی

ہندوؤں کی مقدس کتاب گیتا کا مطالعہ کر رہا تھا تو اس میں آریہ کا مطلب تھا کہ جو پڑھا ہو یا علم رکھتا ہو یا ہندی میں گیانی کہہ لیں ۔جس وقت آریہ ہندوستان آئے اس وقت یقیناً پڑھنے لکھنے کا عام چلن بھی نہیں تھا اور عام لوگ پڑھتے بھی نہیں تھے مگر لوگوں میں یہ بات مشہور تھی تو اس کی وجہ ضرور یہ رہی ہوگی کہ یہ لوگ اپنے وقت کے سب سے زیادہ علم و ہنر کے ماہر رہے ہوں گے ۔آریہ کا مطلب ان کی زبان میں اہل کتاب بھی ہو سکتا ہے جیسا کہ یہودی اپنے اہل کتاب ہونے کی وجہ سے دیگر قوموں کو امی کہتے تھے یعنی غیر متمدن اور سیاسی شعور نہ رکھنے والے ۔اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ لکھنے پڑھنے کا رواج صرف اہل کتاب کے یہاں ہی روا رہا ہے اور یہ آسمانی کتابوں کی وجہ سے تھا ۔میں نے اپنے ایک مضمون میں لکھا بھی ہے کہ دنیا کا ہر نبی اپنے دور کا سائینسداں ہی تھا اور ہر آسمانی کتاب سائینس کی کتاب ہے جو لوگوں سے عقل و دانش اور شعور کے استعمال اور غورو فکر کی دعوت دیتی ہے اور انسانوں کے اسی غورو فکر کے عمل کو ہی سائینس کہتے ہیں ۔آپ مزید اسے سوشل اور سیاسی سائینس political scienceبھی کہہ سکتے ہیں ۔بدقسمتی سے جب اہل کتاب اپنی کتاب کے political science کے حصے سے منحرف ہوۓ تو ان پر دوسری قومیں غالب آگئیں ۔برہمن خود کو اسی آریہ نسل یعنی بڑھی ہوئی قوم سے کہتے ہیں اور یہ بات تاریخ سے ثابت ہے کہ آریہ کا ہندوستان میں داخلہ مشرق وسطیٰ سے ہی ہوا تھا ۔اس بات کو اگر مان لیا جائے تو یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ یہ لوگ یہودیوں کے ہی کسی قبیلے کے بچھڑے ہوئے لوگ ہیں یا انہیں اہل زبور بھی کہا جاسکتا ہے جیسا کہ کچھ علماء کا یہ بھی اپنا خیال ہے اور قرآن میں یہود و نصارٰی کے بعد ایک قوم صائیبین کاتذکرہ آتا ہے ۔علامہ حمیدالدین فراہی نے کہیں پر ہندؤوں کو ہی صائبیین کہا ہے ۔قرآن نے اگر اس لفظ کا ذکر کیا ہے تو اس کا مطلب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے تک یہ قوم روئے زمین پر کہیں نہ کہیں ضرور موجود رہی ہوگی ۔خیر یہاں پر برہمن اور آریہ کی تاریخ بیان کرنا ہمارا مقصد نہیں ہے۔مقصد یہ ہے کہ قومیں وہی غالب رہی ہیں یا انہیں ہی زمین میں اقتدار اور عروج حاصل رہا ہے جو دنیا میں انسانوں کے مقصد حیات سے واقف تھیں اور انہوں نے اس اقتدار کیلئے سائینسی طریقہ کار اختیار کیا ۔قرآن میں اس political science کو حکمت کی تعلیم سے مراد لیا جاتا ہے ۔حکمت کی تعلیم سے مراد جو حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے فیصلے کی قوت رکھتے ہوں ۔سورہ انبیاء میں قرآن نے ایک واقعے کے ذریعے اس کی سیاسی تعبیر کی تشریح بھی کر دی ہے ۔ باقی ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ ہم نے غلطی سے صرف ٹکنالوجی کو ہی سائینس سمجھ لیا ہے جبکہ اگر ٹکنالوجی ہی سائینس ہے تو وہ پرندہ جو بہت بلندی پر کسی کھجور کے درخت پر جہاں کہیں سے کھڑے ہونے اور بیٹھنے کی جگہ بھی نہیں ہوتی پھر بھی ایک ایسے خوبصورت گھونسلے کی تعمیر کرلے جاتا ہے تو وہ بھی ایک سائینٹسٹ ہی ہے ۔جہاں تک فنی علم کا تعلق ہے یہ علم انسانوں کےعلاوہ چرند و پرند کو بھی قدرت نے مہیا کیا ہے اور یہ ارتقائی ہے۔یعنی دنیا کی آبادی کے لحاظ سے اس علم میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا ہے اور اس کا تعلق کسی قوم ملک اور مخلوق سےنہیں ہے جیسا کہ آجکل حسن نثار جاوید احمد غامدی وحیدالدین خان اور جاوید چودھری وغیرہ کے بھکت کچھ آزاد خیال مسلمان یہ بحث کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ یہود و نصارٰی نے یہ کیا وہ کیا مسلمانوں نےکیا کیا ۔پچھلے کچھ مضامین میں ہم اس کا جواب دے چکے ہیں کہ اٹھارہویں صدی تک سب کچھ تو مسلمانوں کے ذریعے ہی ہوا ۔ مغرب نے اپنی دو صدیوں میں اگر کچھ دیا بھی تو اس سے زیادہ دنیا کو جنگ فساد اور بیماری میں مبتلا کر دیا ۔اٹھارہویں صدی تک انسانی آبادی قدرتی غذاؤں پر زندہ اور صحت مند تھی اس کے بعد جیسے ہی نظام عالم کی باگ ڈور اسلام مخالف طاقتوں نے سنبھالی انسانی آبادی کو کبھی خسرہ کا ٹیکہ تو کبھی پولیو کا ڈراپ دیا جانے لگا اور اب اکیسویں صدی میں کرونا کے نام پر ہر شخص کو ویکسین دئے جانے کی تیاری ہے ۔علم چاہے سیاست کا ہو یا تجارت کا یا ٹکنالوجی کا یا جنگ کے میدان کا جو میدان کو چھوڑ کر رہبانیت اختیار کر لیں وہ جہالت کی کھائی میں گر کر دنیا کے اختیارات سے محروم ہو ہی جاتے ہیں ۔دوسرے لفظوں میں کہہ سکتے ہیں کہ یہ علم پانی کے بہاؤ کی طرح ہے ۔جب تک آپ اس بہاؤ کے ساتھ ہیں آپ قدرت کے نئے نئے شاہکار اور ایجادات سے مستفید ہوتے رہیں گے ۔جس دن آپ نے کنارہ چھوڑ دیا آپ نئے تجربات سے مستفید نہیں ہو سکتے ۔مسلمانوں کے ساتھ خاص طور سے ہندی مسلمانوں کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہوا ۔انہوں نےاپنے مقام کو چھوڑا اور نصاریٰ جو کبھی رہبانیت اختیار کر چکے تھے اس مقام کو دوبارہ حاصل کر لیا ۔اس کے علاوہ جو چیز کسی قوم یا برادری کو طاقتور بناتی ہے وہ ہے حکمت کی تعلیم جس کا تذکرہ اوپر آ چکا ہے ۔
کہتےہیں کہ ہندوستان میں برہمنوں نے چھوٹی ذات کے لوگوں کا استحصال کیا ۔یہ بات غلط ہے۔حکمراں تو ہمیشہ ہی اپنے ماتحتوں کا استحصال کرتے ہیں ۔غلطی استعمال ہونے والوں کی ہے اور انہیں غور و فکر کرنا چاہیے کہ وہ کیوں استعمال ہوۓ ۔مگر بے چارے دلتوں اور درواڑوں پر کوئی آسمانی کتاب تو نازل ہوئی نہیں وہ غور کیا کرتے ۔اس کے برعکس برہمن اہل کتاب ہونے کی وجہ سے اقتدار کی اہمیت کو سمجھتے تھے اس لئے وہ مسلم حکمرانوں کے دور میں بھی حکمرانوں کےقریب رہے۔
اب یہ محاذ ہندوستانی مسلمانوں نے بھی چھوڑ دیا ہے ۔اب انہیں قدیم زمانے کے یہودیوں کی طرح بحث کی لت پڑ چکی ہے ۔سب سے پہلے تو مختلف فرقوں میں تقسیم ان کے علماء نے طے کر لیا ہے کہ وہ مکی دور سے گزر رہے ہیں مگر وہ کب تک اس مکی دور سے گزرتے رہیں گے یہ جواب طلب کرنے کیلئے ان کے پاس کوئی خلیفہ وقت بھی نہیں ہے ۔ساری باتیں ہوا میں ہے ۔تعجب تو اس بات پر ہوتا ہے کہ یہ مکی دور والے مسلمان جو ٹھیک سے political science کا مخرج بھی نہیں ادا کر سکتے دنیا کے دیگر خطوں میں جہاں دوسرے مسلمان political science پر عمل پیرا ہیں ان کے حق میں فتوے بازی کرتے ہیں۔یہ اردگان کو مشورہ دیتے ہیں کہ انہوں نے آیا صوفیہ میوزیم کو مسجد میں تبدیل کر کے دنیا میں دعوت کے کام کو نقصان پہنچایا ہے ۔یہ لوگ حماس کو مشورہ دے رہے ہیں کہ تم اسرائیلیوں کا عذاب برداشت کر لیتے مگر رافضیوں کے مدد جائز نہیں ۔ممبئی میں تعلیمی کارواں کے ایک روح رواں اپنے مضمون میں بارہا لکھتے رہے ہیں کہ طالبان نے اگر مزاحمت ترک کرکے اسکول کالج اور اسپتالوں کی تعمیر پر توجہ دی ہوتی تو افغانستان کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا ۔ جو لوگ اپنے ملک میں ٹھیک سےایک اردو اخبار اور تنظیم نہیں چلا سکتے وہ لوگ اقبال کے شاہینوں کو سوشل سائینس سکھا رہے ہیں ۔ ویسے دنیا کے کسی بھی خطے کا مسلمان ہم ہندوستانی مسلمانوں کی political science کی بلندی کو چھو بھی کیسے سکتا ہے !
ہم لوگ بیسویں صدی کی عبقری شخصیت ابوالکلام آزاد صاحب کے سیاسی جانشین جو ٹھہرے !

Comments are closed.