ایک سبق آموز واقعہ والدین کے لئے

 

 

محمد قمرالزماں ندوی

مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ

 

ایک عباسی خلیفہ نے اپنے زمانہ کے بعض علماء اور اہل علم سے یہ خواہش ظاہر کی کہ آپ کچھ اہم اور موثر واقعات لکھ بھجئیے جنھیں آپ نے خود دیکھا ہو یا سنا یا پڑھا ہو ۔ اس خواہش کی تکمیل میں ایک عمر رسیدہ عالم نے لکھا کہ میں نے حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کو دیکھا ہے ۔ جب یہ مرض موت میں مبتلا تھے تو کسی نے کہا امیر المومنین!

آپ نے اس مال کو اپنے بیٹوں اور وارثوں سے دور رکھا ہے ،یہ محتاج، تہی دست اور بے نوا ہیں ،کچھ تو ان کے لئے چھوڑنا چاہیے تھا ۔

حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے اپنے بیٹوں کو بلایا جن کی تعداد دس تھی ،جب یہ حاضر ہوئے تو عمر بن عبدالعزیز رونے لگے پھر مخاطب ہوکر فرمایا :

میرے بیٹو! جو تمہارا حق تھا وہ میں نے پورا پورا دے دیا ہے اس میں کوتاہی اور کمی نہیں کی ہے ، میں نے کسی کو اس کے حق سے محروم نہیں رکھا ہے اور لوگوں کا اور بیت المال کا مال اور سامان تم لوگوں کو دے نہیں سکتا ،تم میں ہر سے ہر ایک کا حال یہ ہے کہ یا تو وہ نیک اور صالح ہوگا تو اللہ تعالی تو نیک اور صالح بندوں کا والی اور مدد گار ہے و ھو یتولی الصالحین ۔ یا غیر صالح ہو گا یعنی اس کے اندر نیکی اور تقوی و طہارت نہیں ہوگی ایسے غیر صالح کے لئے جس کے اندر تقوی اور نیکی نہ ہو میں کچھ نہیں چھوڑنا چاہتا کہ وہ اس مال کے ذریعہ اللہ تعالی کی نافرمانی اور معصیت میں مبتلا ہوگا ۔ اس کے بعد انہوں نے (عمر بن عبدالعزیز رح نے) اپنے بیٹوں سے کہا قوموا عنی اب تم لوگ چلے جاو بس اتنا ہی کہنا تھا۔

ان عالم صاحب نے لکھا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ ایک بڑے فرماں روا وقت کے عظیم خلیفہ بنو امیہ کے سب سے خدا ترس حکمراں اور خلیفہ ایک وسیع و عریض مملکت کے مالک اور بادشاہ تھے ،اس کے باوجود ان کی اولاد اور بچوں کو ان کے ترکہ اور وراثت میں سے بیس بیس درہم سے بھی کم ملے لیکن بعد میں ، میں نے دیکھا کہ ان کے لڑکے سو سو گھوڑے اللہ کے راستے میں دین کے کام اور جہاد فی سبیل اللہ کے لئے دیتے تھے تاکہ مجاہدین اسلام اور سرفروشان دین و ملت ان پر سوار ہوکر جہاد کریں اور دین کا غلغلہ اور آوازہ بلند کریں ۔ آگے مزید لکھتے ہیں میں نے اس کے برعکس بعض ایسے فرماں رواوں اور بادشاہوںکو دیکھا جنہوں نے اپنی وراثت اور ترکہ اتنا چھوڑا کہ ان کے مرنے کے بعد جب لڑکے لڑکیوں اور دیگر وارثین اور رشتہ داروں نے باہم تقسیم کیا تو ہر ایک کے حصہ میں چھ چھ کروڑ اشرفیاں آئ تھیں لیکن میں نے ان لڑکوں میں سے بعض کو دیکھا کہ ان کی یہ حالت ہو گئ تھی کہ وہ جامع مسجد کی سیڑھیوں پر نماز پنج وقتہ اور جمعہ و عیدین کے بعد لوگوں کے سامنے دست سوال پھیلاتے اور رو گا کر بھیک مانگا کرتے تھے ۔

 

دیکھو انہیں جو دیدئہ عبرت نگا ہ ہو

( السیاسة الشرعية للامام ابن تيمية رحمه الله تعالى )

 

اس واقعہ میں ان تمام والدین گارجئین اور سرپرستوں کے لئے عبرت اور درس و نصیحت ہے جو اپنی اولاد کو صرف اور صرف دنیا داری سکھاتے ہیں اور خوش گوار ،آرام پسند اور موج و مستی والی زندگی گزارنے کے لئے ہر جائز اور ناجائز اور حلال و حرام طریقوں کو اپنانے میں شرم اور حجاب بھی محسوس نہیں کرتے اور ان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے بیٹوں اور جگر کے ٹکڑوں کو اسباب دنیا سے مالا مال کر دیں اور ان کے لئے اتنا ترکہ اور وراثت چھوڑ جائیں جو کئ نسلوں اور پشتوں کے لئے کافی ہو لیکن ان کی آخرت سنوارنے اور وہاں سرخ ہونے کی طرف ان کا دھیان نہیں جاتا اور نہ اس کی طرف توجہ دیتے ہیں اور نہ اس کی فکر کرتے ہیں ۔

یہاں یہ نکتہ بھی ذھن میں رہے کہ والدین کی نیکی کا فائدہ اولاد کو دنیا اور آخرت ہر دو جگہ پہنچتا ہے قرآن مجید میں ”سورۂ کہف“ کی اس آیت کریمہ و کان ابوھما صالحا( اور ان دونوں کے والدین نیک اور صالح تھے) سے اس جانب اشارہ ملتا ہے کہ یتیم بچوں کے لئے مدفون خزانے کی حفاظت کا سامان بذریعہ خضر علیہ السلام اس لئے کرایا گیا تھا کہ ان یتیم بچوں کا باپ کوئ مرد صالح اللہ کے نزدیک مقبول تھا ،اس لئے اللہ تعالی نے اس کی مراد پوری کرنے اور اس کی اولاد کو فائدہ پہچانے کا یہ انتظام فرمایا ، محمد بن منکدرؒ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی ایک بندے کی نیکی اور صلاحیت و صالحیت کی وجہ سے اس کی اولاد اور اولاد کی اولاد اور اس کے خاندان کی اور اس کے آس پاس مکانات کی حفاظت فرماتے ہیں ۔ ( تفسیر مظہری)

تفسیر مظہری میں یہ بھی لکھا ہے کہ اس آیت کریمہ میں اس کی طرف بھی اشارہ ہے کہ لوگوں کو بھی علماء و صلحاء کی اولاد کی رعایت اور ان پر شفقت کرنی چاہئے جب تک کہ وہ بالکل ہی کفر و فسق و فجور میں مبتلا نہ ہو جائیں ۔

حضرت عمر بن عبدالعزیز رح کے اس واقعہ اس جانب بھی نگاہ جانی چاہئے کہ جس طرح حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کو آیت کریمہ ”وھو یتولی الصالحین“ (کہ اللہ تعالی نیک لوگوں اور مخلص بندوں کی کفالت کرتا ہے ) پر یقین اور اعتماد و بھروسہ تھا ہمیں بھی ایسا ہی پختہ یقین اور بھروسہ اللہ تعالی کی ذات پر ہونا چاہیے کہ اللہ ہر طرح سے نیک بندوں کی کفالت اور حفاظت و نگہبانی کرتا ہے ۔

سورہ اعراف کی اس آیت کریمہ و ھو یتولی الصالحین کو ہمیشہ ملحوظ رکھنا چاہیے ۔

Comments are closed.