فلسطین: تاریخ کے آئینے میں!! (١) عہد اولیں سے ٹائیٹس تک 

 

 

محمد صابر حسین ندوی

 

آئی صدائے جبرئیل تیرا مقام ہے یہی

اہل فراق کیلئے عیش دوام ہے یہی

جس طرح انسانوں کو تمام مخلوقات پر افضلیت حاصل ہے، انبیاء علیہم السلام کو بنی نوع آدم پر فوقیت ہے، اسی طرح زمین کے کچھ خطوں کو بھی بلند مقام، تقدس اور سرمہ نگاہ کی حیثیت حاصل ہے، مکہ مکرمہ انسانی نقطہ کا آغاز، امتیاز اور قدیم ترین خانہ خدا ہے تو بیت المقدس بھی دوسری قدیم ترین بیت اللہ کا حقدار ہے؛ بلکہ وہ پورا خطہ فلسطین ممتاز، پاک اور عظمت کا تمغہ پائے ہوئے ہے، قرآن مجید میں سورہ بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں ہی فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالی نے اس خطے کو ہی بلکہ اس کے اردگرد تمام خطوں کو برکتوں سے بھر دیا ہے، اور یہ اس کی منشاء ہے کہ یہ علاقہ تاابد نشان الہی بن جائے، دراصل فلسطین دنیا کے مقدس ترین خطوں میں سے ایک ہے، یہ اس علاقہ کا نام ہے جو لبنان اور مصر کے درمیان واقع ہے، مکہ مکرمہ سے بیت المقدس کا فاصلہ تقریباً ١٣٠٠/ کلومیٹر ہے۔ شہر ٣١/ درجے ٤٥ دقیقے عرض بلد شمالی اور ٣٥/ درجے ١٣/ دقیقے طول بلد مشرقی پر واقع ہے، بیت اللحم اور الخلیل اس کے جنوب میں اور رام اللہ شمال میں پائے جاتے ہیں، اسے قدامت، تہذیب و ثقافت اور تقدس کا حیران کن منزلت حاصل ہے، بیت المقدس پہاڑیوں پر آباد ہے اور انہی میں سے ایک پہاڑی کا نام کوہ صیہون ہے جس پر مسجد اقصٰی اور قبۃ الصخرہ واقع ہیں، کوہ صیہون کے نام پر ہی یہودیوں کی عالمی تحریک صیہونیت قائم کی گئی ہے۔ اس علاقے کی قدیم تاریخ کے مطابق ۲۵۰۰ قبل مسیح میں عربستان سے قبیلہ سام کی ایک شاخ کنعان یا فونیقی لوگ یہاں معاش کے سلسلہ میں آکر آباد ہوئے، اسی لئے اس کا قدیم ترین نام ”کنعان” ہے، اس کے بعد ایشیائے کوچک کے علاقوں سے بھی لوگ یہاں آکر بسنے لگے انھیں فلسطی کہا جاتا ہے؛ چنانچہ اس علاقے کا یہ نام پڑ گیا، جلد ہی یہ دونوں گروہ آپس میں پوری طرح گھل مل گئے، شادی بیاہ اور دیگر راہ و رسم میں ایک ہوگئے، وہاں کی زرخیزی، شادابی اور سبز علاقوں کی ہوا انہیں راس آئی، وہ سب جانوروں کے گلے کے ساتھ ایک امتیازی زندگی بسر کرنے لگے، علامہ اقبال نے فلسطین میں جو اشعار لکھے، ان میں وہاں کی دلکشی پر غیر معمولی اشعار ہیں، آپ کہتے ہیں:

قلب و نظر کی زندگی دشت میں صبح کا سماں

چشمہ آفتاب سے نور کی ندیاں رواں!

حسن ازل کی ہے نمود، چاک ہے پردہ وجود

دل کیلئے ہزار سود، ایک نگاہ کا زیاں

پھر آج سے چار ہزار اور غالباً ٢٠٠٠ سال قبل مسیح حضرت ابراہیم علیہ السلام عراق کے شہر ار (Ur) سے جو دریائے فرات کے کنارے آباد تھا ہجرت کر کے یہاں اس علاقے میں تشریف لائے تھے، آپ کی دو معزز اولادیں ہوئیں، ایک حضرت اسحاق پیدا ہوئے جنہیں بیت المقدس میں ہی آباد کیا تو دوسرے حضرت اسماعیل علیہ السلام تھے جن کو مکہ مکرمہ میں آباد کیا۔ حضرت اسحاق کے ایک بیٹے کا نام حضرت یعقوب ہوئے، ان کا لقب ”اسرائیل” تھا؛ چنانچہ ان سے جو نسل دنیا میں پھیلی، اسے بنی اسرائیل/ اسرائیلی کہا جاتا ہے، واقعہ یہ ہے کہ یہاں قدم قدم پر انبیاء علیہم السلام کی قبریں ہیں، ان کی زندگی کے آثار اور نشانات ہیں، شہر الخلیل (Hebron) میں سیدنا ابراہیم، یعقوب اور یوسف علیھم السلام کی قبریں ہیں، موخر الذکر کو وصیت کے مطابق مصر سے لاکر یہاں سپرد خاک کیا گیا تھا، یہیں پر ایک مسجد ابراہیمی ہے جو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی جانب موسوم ہے، جس پر نصف قبضہ اب اسرائیلیوں کا ہے، یہاں پر ہی وہ مقدس شہر ہے جس کو ہیبرو میں یروشلائم، یروشلم یا جوریزلم کہتے ہیں، یروشلم کا عربی نام القدس ہے جسے قدیم مصنفین عام طور پر بیت المَقدِس لکھتے ہیں، قدیم زمانے میں اس کا نام ایلیاء کاپیتولیناء تھا، یہ وہ مقام ہے جہاں پر مسجد اقصی ہے، وہ معبد جس کو اللہ کے نبی، رسول اور بادشاہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کروایا تھا، جس کو ہیکل سلیمانی کہاجاتا ہے، جو یہودیوں کیلئے نشان امتیاز ہے، ان کا عہد سلطنت اور حکومت کی یادگار ہے، جس کا دورانیہ تقریباً ایک سو بیس سال تھا-

مگر تاریخ شاہد ہے کہ بنی اسرائیل سے بدتر اور خبیث ترین قوم کوئی دوسری نہ تھی، ان کے جرائم زمین میں فساد مچانا، معاشرتی برائیاں عام کرنا اور اخلاقی دیوالیہ پن ہی نہ تھا؛ بلکہ یہ انبیاء علیہم السلام کو بھی قتل کردیا کرتے تھے، جب ان کی سرکشی سر چڑھ جاتی تو اللہ تعالی ان کی گرفت کرتا اور کسی ایسے کو مسلط کردیتا جو انہیں تہہ و تیغ کردیتا، اسی سلسلہ میں ٥٧٠ قبل مسیح کے اندر بابل کا بادشاہ بخت نصر نے صہیونیوں کا قتل عام کیا، انہیں جلا وطن کردیا، ہیکل سلیمانی کو ڈھاہ دیا، توریت کے سارے نسخے جلوادئے، آٹھ/نو لاکھ صہیونیوں کو بابل نوکر بنا کر لے گئے، یہودی ذلت وپستی میں پڑگئے، وہ در در کی ٹھوکریں کھانے لگے، مگر پھر اللہ نے رحم و کرم کیا اور وہ ستر/اسی سال بعد رومیوں نے جب عیسائیت قبول کی تو ان کے جنرل ٹائیٹس نے ٧٠ ویں عیسویں میں اقصی (بیت المقدس) پر حملہ کیا، سب کچھ تاراج اور تباہ کردیا، تمام آثار کو بت پرستی کا معبد بنادیا، یہ واقعہ بھی عذاب اور ان کے کرتوتوں کی وجہ سے واقع ہوا تھا؛ کیونکہ اس سے پہلے انہوں نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کو رومی عدالت کے ذریعہ سولی دلوائی تھی (مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ انہیں زندہ آسمان پر اٹھا لیا گیا تھا)، تو وہیں ان سے پہلے قریبی دور میں ہی کئی انبیاء کو قتل کرچکے تھے، حضرت یحییٰ، ان کے بیٹے زکریا علیھما السلام کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا، لیکن اس دفعہ ٹائیٹس نے کچھ نرمی دکھائی، اس نے صہیونیوں کو یہاں آنے کی اجازت دے دی، وہ اپنی شومہ نصیبی اور حرمان قسمت پر افسوس کرتے ہوئے داخل ہوئے، بادشاہ نے اقصی کو تباہ کرتے وقت مغربی جانب کی ایک دیوار چھوڑ دی تھی، جس کو مسجد اقصی کی مغربی دیوار کہتے ہیں، جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کے وقت براق (سفید گھوڑا) کھڑا کیا تھا، یہی وہ دیوار ہے جہاں یہودی آکر روتے تھے اور اب بھی روتے ہیں تاکہ ان کا عہد زریں واپس آجائے، انہوں نے جو کھویا اس پر پشیمانی ہوں اور دور سلیمانی و داؤدی علیھما السلام کا تحفہ ملے، اس لئے اس کو دیوار گریہ اور انگریزی میں welling Wall کہتے ہیں –

 

 

[email protected]

7987972043

Comments are closed.