مفسر قرآن اور داعئ کبیر. مفتی فیض الوحید کشمیری

خلیل الرحمن قاسمی برنی
ادارہ علمی مرکز بنگلور
آج سے تقریباً پانچ سال قبل وادئ کشمیر سے براہ جموں دیوبند آرہا تھا -جموں سے ٹرین میں سوار ہونا تھا اور اس کے لئے کئ گھنٹے ابھی انتظار کرنا تھا -اس دوران جموں کے ایک دوست کو علم ہوا تو وہ مجھے اپنے گھر لے گئے-وہاں ماحضر تناول کرنے کے بعد بھی چوں کہ ٹرین میں کافی وقت تھا اس لئے محترم دوست کی تجویز اور تعارف پر یہاں کی عظیم شخصیت حضرت مفتی فیض الوحید رحمہ اللہ اور ان کے ادارہ مرکز المعارف جانا تے ہوا-
صدیق مکرم مجھے اپنے ساتھ مرکز المعارف لے گئے وہاں مفتی صاحب مرحوم سے ہماری ملاقات ہوئی -بڑے تپاک، خوش روئ اور طلاقت وجہ کے ساتھ ملے- ملاقات کے دوران جب صدیق محترم نے میرا تعارف کرانا چاہا، تو انھوں نے یہ کہ کر دل خوش کر دیا کہ انھیں میں اچھی طرح جانتا ہوں- یہ میرے محسن زادے یعنی استاذ زادے ہیں -جب میں دارلعلوم دیوبند میں پڑھتا تھا تو یہ کافی کم عمر تھے مگر بہترین آواز میں قرات پڑھتے تھے -دارالحدیث میں جب بھی کوئی پروگرام ہوتا تھا ،تو ان کی قرات سننے کو ملتی تھی- طلبہ شوق سے ان کی قرات سنتے تھے -میں نے مفتی صاحب کی زبانی جب اپنا تعارف سنا تو بے حد مسرت ہوئی اور اب تک جو اجنبیت محسوس کر رہا تھا، یکلخت ختم ہوگئی -مفتی صاحب مدرسہ سے متصل اپنی رہائش گاہ لے گئے اور چائے ولوازمات سے اچھی خاطر داری کی -اس عرصے میں انھوں نے اپنےکام کا مختصر تعارف بھی کرایا٬جس سے میری نگاہ میں ان عظمت دوچند ہوگئ اور اس معنی کر حیرانی بھی ہوئ کہ وہ اکیلے کئ آدمیوں اور ایک مستقل اکیڈمی کا کام تن تنہا انجام دے رہے ہیں ۔
ان کے کاموں کا تنوع اور وسعت دیکھ یہی اندازہ ہوا کہ ان کے کاموں میں تائید ایزدی اور نصرت خداوندی شامل ہے؛کیوں کہ موصوف عالم محض نہیں تھے؛ بلکہ عالم باعمل اور صاحب ورع و تقوی تھے -دل درد مند رکھنے والے مفکر اور مومنانہ فراست کے حامل داعئ اسلام وداعئ قرآن تھے-داعیانہ ومصلحانہ جذبہ ،ایمان یقین سے سرشار تبلیغ دین کی سچی تڑپ احسان اخلاص سے معمور زندگی -کامل زھد ،درویشانہ وسادہ طرز حیات -اقبال کی زبان میں یقین محکم ،عمل پیہم ،محبت فاتح عالم-ہر جگہ قرآن کی دعوت ،قرآن کی باتیں ،قرآن کی تشریح ،لوگوں کو دین کی طرف بلانے میں انتھک محنت ،شریعت کی پاسداری کے لئے بے تحاشہ دوڑ دھوپ ،سنگلاخ چٹانوں میں پہاڑوں کی سی استقامت بلند عزائم اونچے حوصلوں سے یاری ،ان تمام اوصاف امتیازات سے آراستہ تھے مولانا مفتی فیض الوحید صاحب کشمیری رحمہ اللہ –
موصوف اپنے علاقے میں دینی ،تعلیمی اور دعوتی خدمات کو حوالے سے کافی کافی سرگرم تھے اور اسی حوالے سے لوگ انھیں خوب جانتے اور پہچانتے تھے -ان کی بافیض اور فعال شخصیت ان کو چین سے بیٹھنے نہیں دیتی تھی- انھوں نے داخلی اور خارجی دونوں طرح کے فتنوں کا خوب مقابلہ کیا اور اس سلسلے میں قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں -چنانچہ وہ کئ سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہے -بندہء مومن تھے ،اس لئے وہاں بھی اپنی دینی وعلمی خدمات سے جیل کے ماحول کو روشن کردیا -کئ لوگوں کو راہ عمل پر لگا دیا اور خود حضرت شیخ الہند قدس سرہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے، خدمت قرآن پاک میں مشغول ہوۓ اور کشمیری گوجری زبان میں قرآن کریم کی ایک وقیع تفسیر لکھی –
ان کا بڑا کارنامہ جو ان کو دیگر لوگوں سے ممتاز کرتاہے ان کا داعیانہ کردار وعمل ہے -انھوں نے بہت خاموشی کے ساتھ جموں کے پورے علاقے میں غیر مسلموں کو سعادت ایمان سے بہرہ ور کرنے اور ان کودامن اسلام سے وابستہ کرنے کےلئے ایک وسیع جال پھیلا رکھا تھا -مصدقہ اطلاعات کے مطابق کئ ہزار لوگ ان کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہوچکے تھے -اس راہ میں ان کے عزائم بہت بلند تھے -وہ اور ان کے رفقائے کار کہتے تھے کہ انشاء اللہ چند سالوں میں جموں میں ہماری اکثریت ہوگی –
مفتی فیض الوحید صاحب کو دعوت کی راہوں کا کافی تجربہ ہوچکاتھا-جہاں تک میرا خیال ہے وہ دارالعلوم دیوبند کے واحد سپوت تھے جو اس نوع کی دعوت میں بڑی مضبوطی اور کامیابی کے ساتھ سر گرم تھے -ان کا کہنا تھا کہ دعوت و تبلیغ میں قرآنیات کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے -کیوں یہ خود قرآن کی راہنمائی ہے ”فذکر بالقرآن من یخاف وعید “تذکیر کا کام قرآن کے ذریعے کرو –
آج بہت سے دعاۃ ومبلغین آپ کو ایسے نظر آجائیں گے جن کے یہاں دعوت کا نام تو بہت زور وشور سے لیا جاتا ہے مگر ان کی دعوت میں قرآن دور دور تک نظر نہیں آتا -مفتی فیض الوحید کے یہاں قرآن پر خاص توجہ تھی اس لئے ان کی تقاریر بھی قرآنی آیات سے معمور رہتی تھیں -جس کی بنیادپر کئ علماء نے ان کو قرآنی خطیب کا لقب دیا تھا ،جس کے وہ بجا طور پر مستحق تھے –
مفتی صاحب مرحوم کی پیدائش جموں کے علاقے راجوری میں 1964کو ہوئ-اعلی تعلیم دارالعلوم دیوبند میں حاصل کرتے ہوئے 1991میں وہیں سے دورہ حدیث شریف سے فراغت حاصل کی اور پھر اگلے سال افتاء کی تکمیل بھی وہیں سے کی-
فراغت کے بعد 1992کےاخیر میں جموں تشریف لائے -اولا مدرسہ اشرف العلوم میں تدریسی خدمات انجام دیں -بعد ازاں جامعہ مرکز المعارف کے نام سے اپنا ادارہ شروع کیا جہاں تا زندگی درس و افادہ میں مشغول رہے -دینی ادارہ کے ساتھ عصری تعلیم کے لئے ایک عمدہ اسکول بھی قائم کیا تھا ،جس میں ان کا مقصد طلبہ و طالبات کو دینی ماحول میں عصری تعلیم سے آراستہ کرناتھا-
آج یہ دونوں ادارے ان ذاتی محنت اور جد و جہد سے روشنی کا مینارہ بنے ہوئے ہیں –
1997ءمیں ایک حادثہ کے الزام میں انھیں گرفتار کیا گیا تھا اور پھر جب وہ 2000ءمیں رہا ہو کر واپس آ ۓ تو پہلے سے زیادہ مضبوط عزائم اور بلند حوصلوں کے ساتھ میدان عمل میں اترے۔
اب وہ دین کی شمعیں اور قندیلیں روشن کرنے میں اس طرح منہمک ہوئے کہ اپنی ذات کو بھی بھول گئے -مسلسل محنت ،پیہم حرکت وعمل، تھکادینے والی جد و جہد نے ان کو وقت سے پہلے ہی بوڑھا اور سفید کردیا تھا -وہ کئ عوارض اور بیماریوں میں مبتلا ہوگئے تھے جو ان کو اندر ہی اندر کھاتی رہیں ؛لیکن ان کو دینی ،تعلیمی اور دعوتی کاموں کا ایسا چسکہ پڑگیا تھا کہ صحت وقت اور ملت کے تئیں اپنی زندگی کے قیمتی اور گراں مایہ ہونے کے ہر احساس سے وہ لاپروا ہوکر آخر تک سر گرم عمل اور محو سفر رہے -وہ ان لوگوں میں سے تھے جو عملی زندگی کو ہی ہر بیماری کا علاج اور ہر خطرے کی تد بیر سمجھا کرتےہیں-وہ ایک عرصہ سے بیمار تھے اور دواخانے میں علاج و معالجہ جاری تھا-نرم وگرم خبریں آرہی تھیں ،بالآخر 19شوال1442ھ مطابق یکم جون 2021ء بروز منگل کو دارباقی کی طرف کوچ کرگئے
رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ
دعا ہے کہ اللہ ان کی خدمات کو حسن قبول سے نوازے اور ان کے ساتھ خاص رحمت و مغفرت کا معاملہ فرماۓ اور اس علاقے کو اور ملت کو ان کا نعم البدل نصیب فرمائے آمین 6جون2021=9611021347
Comments are closed.