مولانا شاہین جمالی: ہر فن میں صاحبِ یدِ طولیٰ کہیں جسے!

لقمان عثمانی
(دوسری اور آخری قسط)
مولانا شاہین جمالی کا علمی سفر نصف صدی سے زائد عرصے کو محیط ہے، بلکہ صرف مدرسہ امداد الاسلام میرٹھ میں تقریبا پینتالیس سالوں تک درسِ حدیث سے وابستہ رہے اور اخیر عمر تک مسندِ شیوخت پر جلوہ افروز رہنے کے ساتھ ساتھ اہتمام و انصرام کی ذمہ داری بھی انجام دیتے رہے ـ مولانا کی دقتِ نظری و علمی گہرائی و گیرائی کا ہر ایک کو کھلے دل سے اعتراف تھا؛ یہی وجہ ہے کہ 1982 میں دارالعلوم دیوبند کے قضیۂ نامرضیہ پیش آنے کے بعد مولانا محمد عثمان صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے مولانا جمالی کا نام دارالعلوم دیوبند کے درجۂ علیا میں بہ حیثیتِ استاذ تقرر کرانے کیلیے انٹرویو لینے والی انتخابی کمیٹی کی فہرست میں اپنی مرضی سے ہی شامل کرا دیا تھا، انتخابی کمیٹی کے اراکین میں مولانا سعید احمد اکبرآبادی (رکن شوری دارالعلوم دیوبند)، مولانا قاضی زین العابدین سجاد میرٹھی (رکن شوری دارالعلوم دیوبند)، مولانا مرغوب الرحمن صاحب قاسمی (مہتمم دارالعلوم دیوبند)، مولانا معراج الحق صاحب قاسمی (صدر مدرس دارالعلوم دیوبند) اور مولانا محمد عثمان صاحب (نائب مہتمم دارالعلوم دیوبند) شامل تھے؛ چناں چہ جب مولانا شاہین جمالی کا انٹرویو لیا گیا تو بالاتفاق انکی تقرری کا فیصلہ ہوگیا؛ لیکن پھر چوں کہ مولانا جمالی نے دارالعلوم کے قضیۂ نامرضیہ میں پیش آنے والے واقعات کے حوالے سے مولانا محمد عثمانی صاحب کے کہنے پر دیوبند ٹائمز میں ایک ضمیمہ شائع کردیا تھا جس میں حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ الواسعہ جیسی مظلوم شخصیت کی حمایت، ان کے ساتھ ہونے والی فتنہ انگیزیوں کا ذکر اور اس دوران ہونے والے شبخونی حملوں کا اظہارِ حقیقت تھا؛ اسی لیے مولانا جمالی بہت سوں کی نظروں میں خار کی طرح چبھنے لگے تھے؛ چناں چہ وہ مولانا جمالی کی دارالعلوم میں تقرری کو اپنے لیے بدشگونی سمجھ رہے تھے اور کہنے لگے کہ اگر انکی تقرری ہوتی ہے تو پھر میں دارالعلوم کی رکنیت سے استعفا دے دونگا؛ لیکن اگلی صبح تک پورے دارالعلوم میں مولانا کی تقرری کی خبر پھیل گئی تھی، تبھی بعض صاحبانِ جبہ و دستار نے طلبہ کو ان کے خلاف اسٹرائک کرنے پر بھی ابھارا……..؛ تا آں کہ انہیں کی دھمکیوں اور شر انگیزیوں کی وجہ سے مولانا کی دارالعلوم میں تقرری نہیں ہوپائی ورنہ مولانا آج دارالعلوم کے درجۂ علیا کے سینیئر اساتذہ میں سے ایک ہوتے ـ
دارالعلوم دیوبند اور اکابرینِ دارالعلوم دیوبند سے انکی عقیدت والہانہ تھی، یہی وجہ ہے کہ جب بھی ان کے کسی عزیز کا داخلہ دیوبند میں ہوجاتا تو بہت خوش ہوتے؛ چناں چہ 2018 میں جب میرا داخلہ دارالعلوم دیوبند میں ہوا اور میرے بہنوئی حضرت مولانا محمد جاوید شمس قاسمی مدظلہ (استاذِ حدیث و صدر الدرسین مدرسہ امداد الاسلام میرٹھ) نے اسکی اطلاع مولانا کو دی تو انہوں نے نہ صرف یہ کہ بے انتہا خوشی کا مظاہرہ کیا بلکہ جب میں خود میرٹھ حاضر ہوا تو انہوں نے اس خوشی میں اپنی شایانِ شان دعوت کا بھی اہتمام کیا تھا ـ
گزشتہ سال لاک ڈاؤن کے دنوں میں تقریبا دو ڈھائی مہینے تک میرا قیام میرٹھ میں ہی مولانا جاوید شمس قاسمی کے پاس رہا، اس دوران بارہا مولانا جمالی کی خدمت میں حاضری کی سعادت بھی نصیب ہوتی رہی؛ چناں چہ جب میں ان کے پاس جاتا تو کوئی نہ کوئی علمی موضوع ضرور چھیڑ دیتا جس پر وہ خود ہی بے تکلفانہ انداز میں سیر حاصل گفتگو کرنے لگتے ساتھ ہی میرے طالبِ علمانہ سوالات کا تشفی بخش جواب بھی عنایت کرتے ـ میں نے محسوس کیا کہ مولانا مسلکی تعصب و تصلب کے شدید خلاف تھے، اعتدال ہی انکا مذہب تھا اور ”خذ ما صفا و دع ما كدر“ کے حقیقی علمبردار تھے؛ البتہ جہاں پہ چھوٹ دینے یا تساہل برتنے کی وجہ سے باطل سے مرعوب ہوجانے کا اندیشہ ہو وہاں پہ احتیاطی پہلو کو اپنانے کی تاکید بھی کرتے تھے ـ میں نے ایک مرتبہ مولانا سید ابوالاعلی مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں انکا نظریہ جاننا چاہا تو فرمانے لگے کہ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور بعض انبیا علیہم السلام کے تعلق سے جو موقف انہوں نے اختیار کیا اور اس طرح کے جو انکے دیگر نظریات تھے وہ یقینا ناقابلِ قبول ہیں لیکن بہر حال اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ایک دنیا کو انہوں نے اسلام کی حقانیت سے متعارف کرایا اور عیسائیت و دہریت کا انہوں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا، انکی سحر انگیز تحریروں سے بہت سے تاریک دلوں کو روشنی عطا ہوئی نیز ”الجہاد فی الاسلام“ کی شکل میں وہ ایک قیمتی اثاثہ دے کر گئے ہیں کہ اس موضوع پر اردو زبان میں اس سے بہتر کوئی کتاب ہی نہیں جو غیر معذرت خواہانہ انداز میں لکھی گئی ہو نیز ان کے اور بھی بہت سے کارہائے نمایاں ہیں جو انہیں معاصرین سے ممتاز کرتے ہیں؛ لہذا ان سے فکری اختلاف کے باوصف ان کے دیگر دینی خدمات کا اعتراف بھی کیا جانا چاہیے ـ جہاں تک تعلق ہے صحابہ کے معیارِ حق ہونے کا تو اس موضع پر کسی زمانے میں مولانا عامر عثمانی سے خط و کتابت کے ذریعے میرا کئی روز تک علمی مباحثہ چلتا رہا، وہ اپنی دلیل دیتے تو جوابا میں بھی اپنے دلائل سے انہیں قائل کرنے کی کوشش کرتا؛ لیکن بالآخر اونٹ کسی کروٹ نہ بیٹھا اور وہ مباحثہ ہی ختم ہوگیا ـ
مولانا لاک ڈاؤن کے دوران ”المسك الزكي علي جامع الترمذي“ کی دوسری جلد تیار کرنے میں مصروفِ عمل تھے، ساتھ ہی ”ہندوستان میں اسلام اور جبری تبدیلیِ مذہب کا الزام“ کے موضوع پر بھی بڑا تحقیقی کام کررہے تھے اور اس سے متعلق اپنا ذہنی خاکہ بھی میرے سامنے تفصیل سے بیان کیا تھا اور فرمایا تھا ان شاءاللہ جب کتاب آئے گی تو تمہیں ضرور پیش کی جائے گی، باقی چیزیں اسی میں پڑھ لینا نیز فوری طور پر مولانا نے اپنی ایوارڈ یافتہ کتاب (دیوبند کے چند بزرگ اور ہم عصر) مجھے بطورِ ہدیہ عطا کی تھی اور فرمایا چوں کہ تمہارا پڑھنے لکھنے کا ذوق ہے اسلیے میری یہ کتاب پڑھو اور پھر اپنی رائے سے آگاہ بھی کرو؛ چناں چہ کتاب پڑھ لینے کے بعد میں جب دوبارہ حاضرِ خدمت ہوا تو مولانا نے میرا تاثر جاننا چاہا، میں نے عرض کیا کہ حضرت! ہم جیسے کوتاہ بینوں کو اب تک آپ کے علمی قد و قامت کا صحیح ادراک نہ تھا لیکن اس کتاب کو پڑھنے کے بعد کسی حد تک اندازہ ہوپایا ہے، خصوصا دارالعلوم دیوبند میں آپ کی تقرری کے بارے میں پڑھ کر آپ سے میری عقیدت فزوں تر ہوگئی…… اور پھر مولانا نے اوپر ذکر کردہ پوری روداد سنائی کہ کیا سب ہوا تھا اور گفتگو کے اختتام پر اپنے مخصوص انداز میں فرمایا ”بھائی لقمان کونسا موضوع یاد دلا دیا آج تم نے؟“ اور پھر میں بھی مسکرا کر رہ گیا ـ
یہ انکا خاص اندازِ تخاطب تھا جو بے حد اپنائیت کا احساس دلاتا، خصوصا راقم السطور اور برادرِ مکرم مفتی محمد سلمان عثمانی سے بہت ہی مشفقانہ رویہ اختیار فرماتے، انکی اپنائیت کا یہ عالم تھا کہ میں جب بھی میرٹھ جاتا لیکن مولانا سے ملاقات کیے بغیر واپس آجاتا تو پھر اگلی ملاقات میں ضرور یہ شکایت کرنے لگتے کہ: ”بھائی لقمان تم تو بڑے بے وفا نکلے“ نیز مدرسے میں جب بھی میری موجودگی میں کوئی اجلاس ہوتا تو مجھے اسی اپنائیت و شفقت سے کہتے ”بھائی لقمان تم بھی کوئی نعت وغیرہ سنا دو یار“ ـ
مجھے یاد ہے کہ مولانا جاوید شمس قاسمی نے ایک مرتبہ میرا کوئی مضمون مولانا کو دکھایا تھا جس کو پڑھنے کے بعد مولانا نے فرمایا کہ ”اگر واقعی یہ لقمان کا ہی مضمون ہے تو پھر یقین کیجیے کہ اس نے اپنی عمر سے بہت آگے کا مضمون لکھ دیا“ اور پھر مجھے طلب بھی فرمایا؛ چناں چہ کچھ دیر کے بعد جب میں حاضرِ خدمت ہوا تو میرے سامنے بھی کچھ اس طرح کا ہی جملہ دہرایا اور خوب داد و تحسین سے بھی نوازا جو انکا حوصلہ افزائی کرنے کا اپنا طریقہ تھا نیز والد گرامی حضرت مولانا محمد عمران عثمانی دامت برکاتہم بھی جب میرٹھ تشریف لے گئے تو ان کے سامنے بھی میرے اس مضمون کا تذکرہ کرتے ہوئے میری تعریف میں دو چار جملے کہے تھے….؛ یوں تو یقینا وہ میری ہمت افزائی ہی فرما رہے تھے تاہم انکا اتنا کہہ دینا میرے لیے کسی اعزاز سے کم نہ تھا، بلکہ میری اس تحریر کیلیے اس سے بڑا اور کوئی انعام ہو ہی نہیں سکتا تھا ـ
الغرض جوں جوں مولانا کے قریب ہوتا گیا توں توں انکی شخصیت کے نئے پرتوؤں سے واقف ہوتا گیا ـ وہ تقریر کریں تو نطق کو بھی انکے لبِ اعجاز پر ناز ہونے لگ جائے، کچھ تحریر کریں تو الفاظ و معانی کا خزینہ اور تعبیرات و تشبیہات کا گنجینہ خود صف بستہ ہوکر آداب بجا لے آئے، وہ مسندِ حدیث پر جلوہ افروز ہوں تو محدثانہ شان و شوکت کے امین قرار پائیں؛ بلا شبہ مولانا شاہین جمالی کسی فرد کا نام نہیں تھا، بلکہ حقیقی معنوں میں وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے جو اب نہیں رہے؛ البتہ وہ اپنی خدمات جلیلہ کی بدولت صدیوں تلک زندہ و تابندہ رہینگے ـ اب جبکہ وہ گزر گئے تو انکی باتیں یاد آتی ہیں، انکے ساتھ بتائے لمحے یاد آتے ہیں؛ ہائے وہ کیا شخص تھا جو دامِ اجل میں آگیا، کتنی ہی آنکھوں کو رلا کر چلا گیا:
صاحبِ علم و عمل کیسا کمالی چل دیا
ہم کو روتا چھوڑ کر شاہیں جمالی چل دیا
گلشنِ ملت سے کتنے باغباں رخصت ہوئے
اور سُونا کرکے اسکو پھر اک مالی چل دیا
Comments are closed.