آہ ! میرےاستاد ماسٹرمحمد شمیم صاحب کی چندجھلکیاں 

 

________________________________________

‌محمدصدرعالم ندوی ویشالی

‌ 9661819412

ماسٹرمحمدشمیم صاحب مرحوم میرےبچپن کےاستادتھے،بہت ہی شفیق ومہربان تھے،اردو،ہندی ،انگریزی ،حساب،اورسنسکرت کےجانکارتھے-بچوں کوبہت محنت سےپڑھاتے،پڑھانےکانرالااندازاورسلیقہ تھا ،کون بچہ کیسےپڑھےگا،اورکہاں پرکمی ہےاس پرجلدقابوپالیتے،کوٸ بھی کام کرتےمحنت سےکرتے،اپنی پہچان اورچھاپ چھوڑتے،ایمان کےبہت پکےتھے،جب مذہب پربولتےتواچھےاچھےکاچھکاچھڑادیتے،اللہ پرمکمل یقین تھا،امارت شرعیہ پٹنہ کےقدرداں تھے،جب بھی امارت شرعیہ کاکوٸ وفدآتاتو پوراوقت دیتے،اورجیب خاص سےتعاون بھی کرتے ، رمضان وعیدمیں چاندکا اعلان امارت شرعیہ ہی کامانتے،بہت خوبیوں کےحامل تھے،ایک کامیاب استاد ،مجھےہوۓتاجر،دوراندیش ،ڈاکٹر ،سماج کی دکھتی رگ پرہاتھ رکھنےوالےاوراس جیسےہزاروں خوبیوں کےمالک تھے،بہت ہی شان سےجیے،کسی کےرعب دبدبہ کوبرداشت نہیں کیا،جس چیزکوحق سمجھتے،اس کوانجام تک ہی پہونچاکرچھوڑتے،ایک مرتبہ مجھ پرجھوٹاایک کیس ہوا،میں بہت پریشان ہوا،میرےوالد،بھاٸ بہن ،میرےچاہنےوالے،اوردیگرحضرات بھی پریشان ہوئے ،آنکھ سےآنسوبھی نکلا ،چہارجانب سےحملےہوۓ،زبانی جنگیں ہوٸ،کٸ کٸ سماجی میٹنگ ہوٸ ،اس کےبعدبھی مجھےموردالزام ٹھرایاگیا،بالآخرماسٹرصاحب بیچ میں پڑکرمعاملہ کوصاف کیا،اورمجھےجھوٹےکیس سےپاک کیا،ورنہ زندگی بھرکےلیےمیں بدنام ہوگیاتھا،یہ توایک واقعہ ہےورنہ ان جیسےہزاروں واقعات ہیں جس سےماسٹرصاحب کی یادتازہ ہوتی ہے،ماسٹرصاحب آج نہیں ہے،لیکن بہت ساری خوبیاں اورنیکیاں مرنےکےکٸ سال بعدبھی یادآتی ہے،شاعرکی زبان میں

مرنےوالےکی جبیں روشن ہےاس ظلمات میں

جس طرح تارےچمکتےہیں اندھیری رات میں

ماسٹرصاحب جس پنچایت میں چلےجاتےوہ پنچایت بھی کام یاب ہوجاتا،یہ چیزماسٹرصاحب کواپنےوالدمحترم عبداللطیف صاحب مرحوم سےورثہ میں ملی تھی ،ان کےوالدبھی پنچایت کےماہرتھےاوربہت ہی سوچ سمجھ کربولتے،جب بولتےتو اسی بات پرمجلس کااختتام بھی ہوجاتا-ماسٹرصاحب کےاندرجانچنےاورپرکھنےکی بھی صلاحيت تھی ،کون آدمی کیسےٹھیک ہوگااورکس ڈوزکی ضرورت ہے، سب کوبہت جلدبھانپ جاتے-مدرسہ میں صرف ایک استاد تھےلیکن ان کی صلاحيت کودیکھتےہوۓانتظامیہ کمیٹی مدرسہ کی ہرمیٹنگ میں رکھتی ،پوراعلاقہ ان سےخاٸف تھا،لوگوں سےلیکرپرشاسن تک عزت تھی ،عام طورسےالیکشن میں سیاسی حضرات ووٹ کےلیےپیسہ خوب بانٹتے ہیں، لیکن ماسٹر صاحب اس سےدوررہتے، ایک مرتبہ ایک سیاسی لیڈرماسٹرصاحب کےگھرآیا،ماسٹرصاحب نےلینےکےبجاۓاپنےجیب خاص سےکچھ پیسہ دیا-شایدہی کوٸ ایساآدمی ہوگاجس کی پیروی ماسٹرصاحب نےنہ کی ہو،میرےگاٶں کے”مدرسہ اسلاميہ "اماموری میں بہاراسٹیٹ مدرسہ ایجوکيشن بورڈکاامتحان سینٹرہواکرتاتھا میرےوالدمحترم مولانا عبدالقیوم شمسی سنٹر سپرنڈنٹینٹ ہواکرتےتھے ،دسیوں سال امتحان کے سنٹر ہوۓماسٹرصاحب پوری قوت ومستعدی سےسنبھال لیتے-اورکسی طرح کی کوٸ پرشانی نہ ہوتی -بہت خوبیوں کےمالک تھے،اب کہاں ملتےہیں ایسےلوگ -مدرسہ میں ہاسٹل چلتا تھالیکن ماسٹر صاحب کھانےسےبچتےتھے،عام طورسےان کاناشتہ ٹفن میں گھرسےمدرسہ آتااورلانےوالےہم لوگ ہوتے-ماسٹر صاحب اپنےتمام بچوں کوپہلےمدرسہ میں تعلیم دلواٸ ،پھرجہاں جاناتھا،گیا-ایک بیٹامحمدندیم انجم مدرسہ میں ہی حافظ بنا،اوراعلی تعلیم کےلیےلکھنو گیا ،مدرسہ عالیہ عرفانیہ لکھنومیں تعلیم حاصل کی اس کےدارالعلوم ندوة العلما۶گۓاوریہیں سےعالمیت کی سندلی ،فراغت کےبعداپنےوالدکےقاٸم کردہ بزنس (چمنی ،اینٹ)میں لگ گۓ،اپنےوالدکےانتقال کےبعداپنےبڑےبھاٸ محمدوسیم کےساتھ بزنس کررہےہیں -ماسٹر صاحب تین بھاٸ اوردوبہن تھے،ایک بھاٸ کاانتقال بہت پہلےجوانی میں ہی ہوگیاتھا،ماسٹرصاحب اپنےبھاٸیوں میں چھوٹےتھےمنجھلےبھاٸ محمدمتین ابھی باحیات ہیں ،سروس سےریٹاٸرمنٹ کےبعداپنےگھرہی پررہ رہےہیں اورگاٶں کی مسجد کادیکھ ریکھ کررہےہیں میرےوالدمحترم مولاناعبدالقیوم ہی اس مسجد کےامام وخطیب ہیں، کبھی کبھی مجھےبھی امامت کاموقع ملتاہےوالدصاحب گھرپہ ہی کھاناکھاتےہیں،لیکن جمعہ کےدن ماسٹرصاحب کےیہاں کھانےکااھتمام ہوتاہے،امام صاحب کےساتھ جولوگ بھی ہوتےہیں سب لوگ شکم سیرہوکرکھاتےہیں ، آخری وقت میں ماسٹرصاحب کو پاتےپورمیں اسکول ومدرسہ کھولنےکابہت شوق تھا ،اس کےلیےزمیں بھی رجسٹری کی،مولانا مظہرالحق عربی وفارسی یونیورسٹی پٹنہ کا K R C کھولنےکےلیےانکواٸری بھی ہوٸ ،منظوری بھی ملی لیکن زندگی نےوفانہیں کیا ،ان کےلڑکوں سےنیک توقعات ہیں ،ماسٹرصاحب کاآباٸ گاٶں "برڈیہا،پاتےپورتھالیکن ان کےآبا۶واجداددھنکول میں ہی آکررہ گۓ تھے،ماسٹرصاحب کی پیداٸش پانچ اکتوبر1960کو گاٶں میں ہی ہوٸ،میٹرک پاتےپور ہاٸ اسکول سےکیا ،یہاں مولانا سیدابولخیرجبریل اردوفارسی کےاستادتھے جس کی وجہ سےماسٹرصاحب کی زندگی پراسلامی نشانی آگٸ تھی ،اس کےبعد مظفرپورگۓ

اوروہیں رہ کر انٹروبی اےکیا،سورتتھا ٹریننگ کالج سےٹریننگ کیا،چھ دسمبر1983کو مدرسہ اسلاميہ اماموری میں ماسٹرکےپوسٹ پربحال ہوکر درس وتدریس میں لگ گۓ اوربہت اچھےاچھے طالب علم پڑھ کرنکلے جوماسٹرصاحب کےلیےبہترین صدقہ جاریہ ہے ماسٹر صاحب اخیروقت میں بیمارپڑگۓ،پٹنہ ،دہلی وکلکلتہ علاج ہوا،دونوں کڈنی فیل تھے ،ڈاٸلاسس پرچل رہےتھے ،کڈنی کےٹرانسفرکےلیے بات بھی ہوگٸ تھی ،قریب تھاکہ ٹراسفرہو ،23ستمبر2014 کو ڈاٸلاسس کےلیےپٹنہ جارہےتھے ، ٹھیک ٹھاک تھے،پٹنہ کےقریب راستہ میں موت کےفرشتہ نےاپناکام اپنےوقت پرکرہی دیااورعصرکےقریب روح قفس عنصری سےپروازکرگٸ -اناللہ واناالیہ راجعون ہرطرف سناٹاچھاگیا،ماتم کاسماں تھا سب ایک دوسرے کوتعزیت کرنےلگے،میں اس وقت گھرہی پرتھا میں بھی حاضرہوا ،تعزیت کےکلمات کہے ،اوراللہ کےفیصلہ پرصبرکیا -کل ہوکرکےعصربعد آبائی گاٶں دھنکول میں نمازجنازہ ماسٹر صاحب کےبیٹےحافظ محمدندیم انجم ندوی کی اقتدامیں ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں پڑھی گٸ ،اورگاٶں میں ہی سپردخاک ہوۓ-

"خطابخشےبہت سی خوبیاں تھی مرنےوالوں میں چار بیٹے محمدوسیم ،محمدفہیم ،محمدندیم ،محمدنظارےوایک بیٹی شمع انجم (لولی) ہےسب لڑکےپڑھےلکھے ہیں بیٹی لکھنوسےمیڈیکل کررہی ہے،امیدہےکہ ایک بہترین لیڈی ڈاکٹربن کرقوم وملت کےلےکام کرےگی یہی ہماری دعاہے

Comments are closed.