فلسطین: تاریخ کے آئینے میں!! (٥) ملک اسرائیل کی خشت اول

 

 

محمد صابر حسین ندوی

 

برا نہ مان، ذرا آزما کے دیکھ اسے

فرنگ دل کی خرابی، خرد کی معموری

قرآن مجید کے عمومی مطالعہ سے بھی پتہ چلتا ہے کہ صیہونی طبعی طور پر شیطان صفت لوگ تھے، ان کا دستور حیات ہی دوسروں کو کم سمجھنا اور خود کو مقرب الی اللہ ماننا ہے، وہ اپنے آپ کو ابناء اللہ کہتے ہیں، جنت کو اپنے گھر کی لونڈی جانتے ہیں، جہنم کی سزا سے خود کو بے نیاز بتلاتے ہیں:وَ قَالَتِ الْیَہُوْدَ وَ النَّصٰرٰی نَحْنُ اَبْنٰٓؤُا اللّٰہِ وَ اَحِبَّآؤُہٗ – "یہود و نصاریٰ کہتے ہیں کہ ’ ہم اﷲ کے بیٹے اور اس کے محبوب ہیں” (مائدۃ:١٨) یہی وجہ ہے کہ سلطانی و شہنشاہی کو اپنا حق مانتے ہیں، انہیں لگتا ہے کہ دنیا اس لئے پیدا کی گئی ہے کہ وہ اس پر راج کر سکیں، دوسری قوموں کو اپنا غلام بنا سکیں، وہ اگرچہ غضب الہی کا شکار ہوئے؛ لیکن انہوں نے کبھی بھی خود کو قصور وار نہیں مانا، ہٹ دھرمی اور عناد کو ہی لازم پکڑے رہے، اور یہ سمجھتے رہے کہ آج نہیں تو کل وہ سرداری پر فائز ہوجائیں گے، سیدالکونین صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی عمومی فساد اور مدینہ منورہ سے لیکر مکہ مکرمہ اور خیبر بلکہ عجم ممالک تک سازشوں میں ملوث ہونے کی وجہ یہی تھی، وہ اس بات کو ہضم ہی نہیں کر پارہے تھے کہ بنی اسرائیل سے قیادت چھین لی گئی ہے، اور انسانیت کی تقدیر امت محمدی سے منسلک کردی گئی ہے، انہوں نے پچھلے زمانوں میں بھی کوششیں کیں کہ عہد ماضی کو کھینچ لائیں، مگر اب وہ سرکشی کی راہ اختیار کرنے والے تھے، اس کیلئے ضروری تھا کہ در بدر بھٹکتے صہیونیوں کی شیرازہ بندی کی جائے، انہیں ملک ملک سے جمع کیا جائے، ان کے پاس کوئی مستقل ملک اور قانون ہو، وہ حکومت و اقتدار کا لطف اٹھائیں اور تمام یہودی ایک دھاگے میں پرودئے جائیں، اس سلسلہ میں سب سے پہلے ١٨٦٠ء میں ایک مشاورتی نشست رکھی گئی، جسے موجودہ اسرائیل کی خشت اول کہہ سکتے ہیں، انہوں نے بہت سی جگہوں، ملکوں اور خطوں پر غور کیا، فکر کے تمام زاویے بیت المقدس پر جا کر جَم گئے؛ کیونکہ ان کا خیال تھا کہ بیت المقدس ہی ان کا ٹھکانہ بن سکتا ہے، ان کے مستقبل اور ترقی کا ضامن ہوسکتا ہے، عالمی حکومت اور مملکت کا گہوارہ ہوسکتا ہے، بزعم ان کے یہ سرزمین انہیں رب ذوالجلال کی جانب سے سپرد گئی ہے، وہ ارض موعود ہے، ان کا مسکن اور دائمی مستقر ہے، اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے یہودیوں کے امیر ترین اشخاص اور اصحاب دانش آگے آئے، جن سے جو بن سکتا تھا وہ کرنے لگے، اس وقت فرانس میں ایک مالدار ترین شخص بارون حرش نامی تھا، وہ بہت بڑا تاجر اور صاحب ثروت تھا، اس نے یہودیوں کا آلہ کار بننا پسند کیا، ان کے تئیں ہمدردی بلکہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف بغاوت میں اس نے اپنے خزانے کے دہانے کھول دئے، خوب سونا، چاندی اور دولت کی ریل کردی اور یہودیوں سے کہا کہ تم جاؤ! فلسطین میں جگہیں خریدو، کھیت کھلیان بناؤ، گھر تعمیر کرو اور وہیں بس جاؤ! اسی طرح برطانیہ میں ایک شاہی خاندان غالباً رسائیل نامی تھا، جو اب بھی موجود ہے، اس خاندان کے پاس آبائی دولت کا خزینہ تھا، اس نے بھی مال و زر لٹائے اور صہیونیوں کو فلسطین میں آباد کرنے اور بستیاں بسانے میں بھرپور تعاون کیا –

اسی زمانے میں ایک صہیونی تحریک Zoinism شروع ہوئی، جس کا پہلا اجلاس ١٨٩٨ء میں سوئٹزرلینڈ کے شہر بازل میں ہوا، اس کی قیادت اوسٹرو ہنگیرین تھیوڈور ہرزل نامی ایک یہودی صحافی کر رہا تھا، اسی شخص نے ١٨٩٦ء کے متعدد پمفلٹ میں ایک الگ ملک کی تحریک تحریری طور پر شروع کردی تھی؛ حالانکہ یہ کوئی نئی بات نہیں تھی، ایسا نہیں تھا کہ صہیونیوں کیلئے الگ ملک کی مانگ پہلی دفعہ کی جارہی ہو، بلکہ یہ تو یہودیوں کی قدیم سوچ تھی، جسے رہ رہ کر زندہ کیا جاتا تھا؛ بالخصوص ١٨٧٠ء میں کچھ ایسی کمیٹیاں اور لوگ تھے جو اپنے آپ کو Lovers of zion کہہ کر بلایا کرتے تھے، اور پہلی بار انہیں تحریکوں کی بنا پر یہودیوں کی ایک بڑی جماعت نے ١٨٨١ء میں فلسطین کی جانب ہجرت کی تھی، دراصل اس زمانے میں یہودیوں کی جتنی بھی تحریکیں، کمیٹیاں اور محفلیں منعقد کی گئیں، ان سب کی بنیادی فکر یہ تھی کہ ہم کیسے بیت المقدس پہنچیں، فلسطین کو کیسے اپنا ملک بنائیں، یہ بھی حقیقت ہے کہ اس زمانے میں خلافت عثمانیہ کا سکہ چلتا تھا، ان کے حکم اور منشاء کے بغیر کچھ بھی ممکن نہ تھا؛ ایسے میں ان لوگوں کے مابین یہ بات طے پائی کہ موجودہ خلیفہ سلطان عبدالحمید کے پاس ایک وفد بھیجا جائے اور ان سے فلسطین کا مطالبہ کیا، وہ وفد فلسطین گیا، اس نے خلیفہ سے ملاقات کی اور کہا کہ جناب عالی! آپ کی سلطنت عظیم الشان ہے، ممالک اور زمینوں کی وسعت بے پناہ ہے، اگر آپ ان میں سے فلسطین جو آپ کی سلطنت کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے اسے ہمیں فراہم کردیں تو ہم ہر شرط قبول کرنے کو تیار ہیں، انہوں نے دو پیشکش خصوصی طور پر کیں- پہلی یہ کہ ہم خلافت عثمانیہ کے سارے قرضے کی ادائیگی کر دیں گے، دراصل اس وقت عثمانی سلطنت بے حد مقروض تھی، وہ ایک کمزور و لاغر مملکت بن کر رہ گئی تھی، اسی لئے اسے یورپ کا مرد بیمار بھی کہا جاتا تھا- دوسری یہ کہ ہم آپ کیلئے استنبول میں ایک عصری یونیورسٹی بنیادیں گے، جس میں آپ کے نوجوان تعلیم حاصل کر کے آگے بڑھیں گے، دونوں ہی شرطیں پرکشش تھیں، پہلی پر عمل درآمد کی صورت میں خلافت عثمانیہ کو ایک نئی روح اور تازگی نصیب ہوسکتی تھی، دوسری پر عمل سے وہ فتنہ دور ہوسکتا تھا جو مسلمان نوجوان یورپ میں تعلیم حاصل کرنے کی صورت میں اسلامی ممالک کے اندر لا رہے تھے، الحاد و لادینیت کا یہ سیلاب تھم سکتا تھا- مگر سلطان نے جواب دیا: دیکھو! فلسطین میری گردن میں امت مسلمہ کی ایک امانت ہے، میں اس میں خیانت نہیں کرسکتا، بھلے ہی میرے جسم کا ایک ایک حصہ کاٹ کر پھینک دیا جائے۔

اک شرع مسلمانی، اک جذب مسلمانی

ہے جذب مسلمانی سر فلک الافلاک

اے رہرو فرزانہ! بے جذب مسلمانی

نے راہ عمل پیدا، نے شاخ یقیں نمناک

 

 

Mshusainnadwi@gmail.com

7987972043

Comments are closed.