فلسطین: تاریخ کے آئینے میں!! (٤) یہودیوں پر لعنت کا تسلسل

محمد صابر حسین ندوی
صلاح الدین ایوبی نے فتح قدس کے ساتھ ساتھ اس کی آبادکاری اور حفاظتی اقدامات بھی کئے، چنانچہ اس وقت قدس کا جو حصہ خالی نظر آتا ہے یہاں پر مراکش سے جاں نثار اور سرفروش نوجوانوں کو لاکر بسایا تھا، جن کی ذمہ داری تھی کہ وہ قدس پر اپنی جان نچھاور کریں؛ لیکن صہیونیوں نے جب فلسطین پر دبدبہ بڑھانا شروع کیا تو یہ واقعہ ہے کہ سب پہلے انہوں نے اسی بستی کو چند گھنٹوں کی نوٹس پر اجاڑ کر رکھ دیا تھا، جس نے انہیں اقصی پر خارجی حصوں پر قابض کردیا تھا، اور اب وہ اندرون حصہ پر اپنی گرفت چاہتے ہیں؛ بہر حال صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ کی فراست پر لاکھوں سلام، ان کی روح اور فنا فی اللہ پر لاکھوں سلام – یہ حقیقت ہے کہ عرب خلافت راشدہ، اموی اور عباسی دور کے بعد درجہ قیادت سے برخواست کر دیے گئے، اگر وقفے وقفے اور چھوٹی موٹی ریاستوں کو چھوڑ دیا جائے تو ہ یکسر سلطانی سے پچھڑ گئے تھے؛ کیونکہ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے ان سے کہہ دیا تھا: وَاِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ ۙ ثُمَّ لَا یَکُوْنُوْۤا اَمْثَالَکُمْ – "اگر تم سرکشی کروگے تو اللہ تعالیٰ تمہاری جگہ کسی اور قوم کو پیدا کردیں گے ، پھر وہ تمہاری طرح نہیں ہوگی” (محمد:٣٨) – – – اسی لئے سقوط بغداد (١٢٥٨ء) کے بعد عجمیوں کو عروج حاصل ہوا، خاص طور پر ترکوں نے اسلامی تحفظ کیلئے تلوار سونت لی، وہ سربکف ہو کر میدان کارزار میں کا حصہ ہوگئے، روئے زمین کے تمام لالہ و گل کے ذمہ دار ٹھہرے، چنانچہ ترکان تیموری ہندوستان میں، ترکان صفوی ایران میں، ترکان سلجوقی مڈل ایسٹ میں اور پھر ترکان عثمانی ایشیا سے لیکر مشرقی یورپ اسلامی قیادت کے متحمل ہوئے؛ بالخصوص اللہ تعالی نے سلطنت عثمانیہ کو منتخب کرلیا اور اس امت کی تقدیر کو ان سے وابستہ کردیا، یہ کوئی عام سلطنت نہ تھی بلکہ سلطنت عثمانیہ یا خلافت عثمانیہ ١٢٩٩ء سے ١٩٢٤ء تک قائم رہنے والی ایک ایسی مسلم سلطنت تھی جس کے حکمران ترک تھے؛ ١٦/ویں اور ١٧/ویں صدی اس کے عروج کا زمانہ کہلاتا ہے، جب یہ سلطنت تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی اور جنوب مشرقی یورپ، مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ کا بیشتر حصہ اس کے زیر نگیں تھا۔ اس عظیم سلطنت کی سرحدیں مغرب میں آبنائے جبرالٹر، مشرق میں بحیرۂ قزوین اور خلیج فارس اور شمال میں آسٹریا کی سرحدوں، سلوواکیہ اور کریمیا (موجودہ یوکرین) سے جنوب میں سوڈان، صومالیہ اور یمن تک پھیلی ہوئی تھی۔ مالدووا، ٹرانسلوانیا اور ولاچیا کے باجگذار علاقوں کے علاوہ اس کے ٢٩/صوبے تھے، اس سلطنت کی خاصیت اسلامیت اور مقامات مقدسہ سے عشق تھی، انہوں نے بھی اپنے پانچ سو سالہ عہد میں کبھی حرمین شریفین اور بیت المقدس کے ساتھ کوئی سمجھوتا نہیں کیا؛ ان کیلئے وہ سیسہ پلائی دیوار تھے، اتحاد و اتفاق اور بعض آپسی رنجشوں کے باوجود اسلامی غیرت کیلئے تلوار بے نیام تھے، وہ کسی قیمت پر مقامات مقدسہ پر آنچ نہیں آنے دینا چاہتے تھے، علامہ اقبال کی زبانی ان کا شعار یہ تھا:
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے
نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر
جو کرے گا امتیاز رنگ و خوں مٹ جائے گا
ترک خر گاہی ہو یا اعرابی والا گہر
مگر اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ صہیونیوں نے مسلمانوں اور بیت المقدس سے کبھی خود کو الگ نہیں کیا، وہ مدینہ منورہ، خیبر، فلسطین اور تمام نامی گرامی جگہوں سے کھدیڑے گئے، جو قرآن مجید کے مطابق ہی تھا، اللہ تعالی نے بنی اسرائیل پر ذلت طاری کی ہوئی ہے، وہ کہیں چین نہیں پاسکتے، فرمان الہی ہے:وَ ضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الذِّلَّۃُ وَ الْمَسْکَنَۃُ، وَ بَآءُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ کَانُوْا یَکْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَ یَقْتُلُوْنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیْرِ الْحَقِّ ؕ ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّ کَانُوْا یَعْتَدُوْنَ – "ان پر ذلت اور پستی مسلط کردی گئی اور وہ غضب ِالٰہی کے مستحق قرار پائے، یہ اس لئے کہ وہ احکام خداوندی کا انکار کرتے تھے اور انبیاء کو ناحق قتل کردیتے تھے، اور اس لئے کہ وہ نافرمانی کرتے تھے اور (ﷲ تعالیٰ کی قائم کی ہوئی حدود سے) بار بار نکل جاتے تھے” (بقرۃ:٦١) – – یہی وجہ ہے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں سے نفرت، حسد اور جلن کی بھٹی میں ہمیشہ جلتے ہوئے دنیا بھر میں بھٹکتے رہے، انہوں نے خصوصاً مشرقی یورپ کی پناہ لی، یہودی وہاں جا کر بسنے لگے؛ لیکن ان کی کریہ شرست نے یورپ کا ماحول خراب کردیا، ان ممالک میں عیسائی آباد تھے، عیسائیت کی رہی سہی لَو پر کاری ضرب لگانی شروع کردی، ان کے معاشرے پر اثر انداز ہونے لگے، اخلاق و اطوار اور ثقافت کو گرد آلود کرنے لگے، سب سے بڑھ کر یہ ہہ عیسائیت میں سودی کاروبار حرام تھا، مگر یہودیوں کی بہت سی برائیوں میں ایک خطرناک اور متعدی بیماری یہ تھی کہ یہودی سودی کاروبار کرتے تھے، ان کا کوئی معاملہ اس سے محفوظ نہ تھا، تو وہیں عیسائیوں کا عقیدہ تھا کہ مسیح عیسٰی علیہ السلام کو انہوں نے نعوذ باللہ قتل کروایا ہے، یہودیوں کے خلاف ان دونوں خیالات نے نفرت، شدت اور تعصب کی جگہ لے لی تھی، وہ سمجھتے تھے کہ خارجی عناصر نے یورپ کی مذہبیت اور تہذیب کو مخلوط کردیا ہے، چنانچہ گاہے بہ گاہے انہیں متعدد ممالک سے دھتکار جاتا تھا، جن میں رومانیہ، فرانس، روس، انگلینڈ، پولینڈ وغیرہ ممالک قابل ذکر ہیں، ایسی صورت میں ان کے پاس سوائے اس کے کوئی ٹھکانہ نہ تھا کہ وہ سلطنت عثمانیہ کے پرچم تلے زندگی گزاریں، جو اس وقت عالیشان مملک تھی، انصاف اس کا علم تھا، یہودی ان کے ممالک میں آتے اور بَس جاتے، مسلمان ان کے ساتھ رواداری اور انصاف کا معاملہ کرتے تھے، اسپین کے دور حکومت میں جہاں مسلمانوں کی سات سو سالہ حکومت رہی ہے، یہودی وہاں بھی بڑی تعداد میں آکر بسا کرتے تھے، ان کے ساتھ حسن سلوک کا عالم یہ تھا کہ خود یہودی یہ مانتے ہیں کہ اسپین کا زمانہ ان کیلئے Golden era سنہری دور تھا، جب ان کے علماء و فقہاء بھی وہیں پناہ لیتے تھے، ایک مشہور یہودی عالم و فقیہ موسی بن میمون نے اسی زمانے میں اندلسی حکومت کی ماتحتی میں علمی و فقہی کارنامہ انجام دیا ہے؛ بلکہ ١٩٤٨ء سے پہلے جو تواریخ یہودیوں کی لکھی گئی ہیں ان سب کتابوں میں بھی اس دور کا احسان و شکر نقل کیا گیا ہے، مگر اس کے بعد صہیونی سازشوں کے تحت تاریخ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتے ہوئے اسی عہد زریں کو کوسا جاتا ہے –
[email protected]
7987972043
Comments are closed.