فلسطین: تاریخ کے آئینے میں!! عرب قومیت اور پہلی جنگ عظیم (٦)

محمد صابر حسین ندوی
اگر عثمانیوں پر کوہ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
سلطان عبدالحمید کا جواب دوٹوک اور فیصلہ کن تھا، اس کے اندر کسی قسم کی روباہی نہ تھی، مرد بیمار عشق حرم سے سرشار تھا، یہی اس کے دل کا سرمایہ اور فخر و اعزاز تھا، جو جان و مملکت سے بھی فوقیت رکھتا تھا، مگر صہیونیوں کیلئے سلطنت عثمانیہ کا تعاون حاصل نہ ہونا یہ ایک المناک بات تھی، جس نے ان کے تمام منصوبوں پر پانی پھیردیا؛ لیکن ان کے عزائم بلند تھے، وہ کسی آن اب پیچھے ہٹنا نہیں چاہتے تھے، ہزاروں سال کی بے گانگی اور غریبانہ زندگی انہیں کھائے جاتی تھی، وہ کسی بھی طرح اس خار کو پنجے سے نکالنا چاہتے تھے، اور وہ جانتے تھے کہ ترکی ضعف سے دوچار ہے، اس نے دیوار سے ٹیکا لے رکھا ہے، بَس ایک تیز ہوا کی ضرورت ہے، اور یہ کہ مغرب اپنی عہد تاریکی سے نکل رہا ہے، برطانوی سامراج کا دور پانی کی طرح پھیلتا جارہا تھا، ان کے زیرنگیں پورا یورپ اب ایک نئی اٹھان چاہتا تھا، سہارے سے لگی ترکی سلطنت کو صرف ایک دھکا دینے کی حاجت تھی، جس پر مستزاد یہ کہ برطانیہ نے فرانس اور عرب کے ساتھ پوری طرح اشتراک کرتے ہوئے خلافت عثمانیہ کے خلاف پہلی جنگ عظیم چھیڑ دی تھی، اور سلطنت کا پتوار ہتھیانے اور مسلمانوں کا سورج غروب کردینے کی پہل شروع کردی، افسوس کی بات ہے کہ عربوں نے عربیت کو قومیت کی بنیاد بنا کر خلافت سے بغاوت کی اور صلیبیوں کے ساتھ کھڑے ہوگئے، وہ چاہتے تھے کہ سیریا سے لیکر یمن تک صرف عربیت کی بنیاد پر ایک ہی مملکت قائم ہو، بنیادی طور پر ان کا ماننا تھا کہ عرب بذات خود ایک وحدت (اکائی) ہیں، ان کے درمیان جو دینی ، اعتقادی ،ثقافتی اور سیاسی امتیازات ہیں ، وہ سب مصنوعی اور عارضی ہیں ، جو عرب احساس قومیت کی بیداری کے بعد خود بخود زائل ہو جائیں گے، اس تحریک و جماعت کا نعرہ اور دستور العمل یہ ہے کہ عرب ایک مستقل واحد امت ہیں جو ایک دائمی پیغام رکھتے ہیں، سیدی حضرت مولانا علی میاں نے اس فکرو تحریک کے خطرناک نتائج کو واضح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان سب قومی تحریکوں کے مقابلہ میں کسی عرب قوم کی قوم پرستی کی تحریک زیادہ خطرناک اور زیادہ سنگین نتائج کی حامل اس لئے ہے کہ وہ ان کو قدیم جاہلیت کے احترام اور اپنے آباء و اجداد کی تعظیم و تکریم کی طرف لے جاسکتی ہے ، یا کم سے کم اس کی نفرت اور حقارت کو کم کر سکتی ہے ، جس کو قرآن مجید نے کفر کے ایک معیاری دور کے طور پر پیش کیا ہے اور جس کی قباحت اور اس کے ساتھ نفرت کو مختلف طریقوں سے ابھارا ہے ۔ بہرحال اس طرح وہ عرب قومیت کے سحر میں اس قدر گرفتار ہوگئے تھے کہ حرم کی رسوائی کا بھی خیال نہ رہا، وہ یکا یک جاہلیت کے حلیف بن کر ابھرے، ایڑیوں کے بل پلٹنے لگے، اسلامیت کے بجائے قومیت کے گن گانے لگے، اور خلافت عثمانیہ کا سایہ اپنے تن بدن سے نکال پھینکا، بغاوت کر بیٹھے، عربی اور عجمی کا جھنڈا الگ الگ کر لیا، وہ اسلام کی وحدت کو انتشار میں بدل بیٹھے، اپنی أنا کو اتحاد پر ترجیح دے دی، جس کا فائدہ بلکہ استحصال دشمنان اسلام نے خوب کیا، ان کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ کر سبز باغات دکھلائے اور شاہینوں کے پر کاٹ کر رکھ دئے، چنانچہ برطانیہ نے عربوں کی اس حرص کو تاک لیا تھا، وہ سمجھ گیا تھا کہ عربوں پر پڑی خلعہ خلافت اسلامی بوسیدہ ہوگئی ہے، ان کے دل سلطنت اور قومیت کے دام میں الجھ گئے ہیں، اب یہ خود اپنی موت مر جائیں گے، جو قومیت کا عین نتیجہ اور کڑوا کسیلا ثمرہ ہے –
نسل اگر مسلم کی مذہب پر مقدم ہوگئی
اڑ گیا دنیا سے تو مانند خاک رہ گزر
اسی طرح انگریزوں کی عیاری تو جگ ظاہر ہے، یہ صلیبی کئی دفعہ صہیونیوں سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوئے ہیں، چنانچہ جب ١٩١٥ء میں پہلی جنگ عظیم کی سیج سجائی گئی، باطل اور حق کے علمبردار دو حصوں میں تقسیم ہو کر میدان جنگ میں آمنے سامنے ہوئے، تو اس گھمسان جنگ میں برطانیہ نے دوہری پالیسیاں چلیں، اس نے عربوں سے کہا کہ تم ہمارا ساتھ دو ہم تمہیں عربی مملکت کیلئے فلسطین دیں گے، ساتھ ہی صہیونیوں کی کمزوری اور ان کی ضرورت کو بھی استعمال کیا، ان کے حاسہ مذہبی کو ورغلایا اور اس جنگ میں فلسطین کو بطور ملک فراہم کرنے کی شرط پر اپنے ساتھ شامل کرلیا؛ بلکہ ١٩١٧ء میں اثنائے جنگ ایک ایسا دور آیا تھا کہ برطانیہ اور متعدد اس کے ہمنوا ممالک مثلاً فرانس، جرمنی وغیرہ نے یہ ڈیکلریشن جاری کردیا تھا کہ اگر اس جنگ میں وہ کامیاب ہوتے ہیں تو فلسطین میں یہودی ملک کا قیام عمل میں آجائے گا؛ ویسے صہیونیوں کی مدد میں دوہرا فائدہ تھا، اولاً یہ کہ اس طرح صہیونی فوج میں شانہ بشانہ لڑتے اور برطانیہ کی قوت میں اضافہ ہوتا، دوم یہ کہ اس وقت امریکہ ایک نئی طاقت بن کر ابھر رہا تھا، مگر یہودیوں کے اثر و رسوخ کی وجہ سے ظاہر ہے؛ کہ وہاں کی سیاست پر اثر پڑتا اور اسے اس جنگ سے باز رکھنے میں معاونت حاصل ہوتی، چونکہ دونوں کی لالچ اتنی بڑھی. ہوئی تھی کہ عامیانہ برطانوی سامراج سے دونوں (عرب اور یہود) ہی ممالک راضی ہوگئے؛ لیکن برطانوی حکومت نے ایک تیسرا خفیہ معاہدہ فرنچ سے کرلیا تھا، چنانچہ جیسے ہی برطانیہ کو پہلی جنگ میں فتح حاصل ہوئی ان دونوں نے ملکر خلیجی ممالک کو نصف/نصف تقسیم کرلیا، جن میں برطانیہ نے فلسطین کو اپنے قبضے میں رکھا، جس کا دورانیہ ١٩١٨ء سے ١٩٤٨ء ہے، اس دوران یہودیوں کے خلاف ہونے والے ایک بڑے واقعہ کا ذکر ناگزیر ہے، وہ یہ کہ جرمنی میں ہٹلر براسر اقتدار آگیا، اس نے صہیونیوں کا قتل عام کیا، لاکھوں یہودیوں کو گیس چیمبر میں بند کر کے گھٹن اور سسک کی موت دے دی، ایسے میں پورے یورپ سے یہودی الگ لگ ملکوں میں کی جانب بھاگنے پر اشد مجبور ہوگئے، اگر وہ اس مرتبہ وہاں سے نہ نکلتے تو جان کی امان نہ تھی، مرتا کیا نہ کرتا وہ سب کچھ لپیٹ کر عرب سرزمین کی طرف لپکے، سب سے زیادہ ان کا رخ فلسطین ہوا کرتا تھا؛ کیونکہ برطانیہ نے انہیں پوری آزادی دے دی تھی کہ وہ یہاں آباد ہوجائیں، نتیجتاً ١٨٦٠ء میں یہاں یہودی دو سے تین ہزار تھے، اب وہ سرکاری شرح کے اعتبار سے ٦٠٠٠٠/ ساٹھ ہزار ہوگئے تھے، اس دوران برطانیہ نے سب سے خطرناک کام یہ کیا کہ نہ صرف صہیونیوں کو بسنے کی اجازت دی؛ بلکہ انہیں اپنی فوج کے قیام کی بھی اجازت دے دی، جس کا نام ہَگانا تھا، یہی وہ فوج تھی جو اسرائیل کی بنیاد کے بعد اسرائیلی فوج کہلائی، اس نے جنگ عظیم دوم میں خصوصی ٹرینگ و تربیت حاصل کی تھی، اور وہ خونخوار افواج میں سے ایک کہلانے لگی تھی –
7987972043
Comments are closed.