_حضرت مولانامحمد ولی رحمانی‌ – میری نظر میں

قمر اعظم صدیقی بھیروپور،حاجی پور، ویشالی، بہار 9167679924

مولانا محمد ولی رحمانی صاحب نے اپنی زندگی کے ۷٧ بہاریں دیکھنے کے بعد کرونا وبا کے شکار ہو کر داعی اجل کو لبیک کہ دیا اور اپنے معبود حقیقی سے جا ملے ان کے نام کے ساتھ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہوئے آنکھیں اشک بار ہیں۔ امیرشریعت کی وفات ایسا حادثہ ہے جس کی تلافی بہت دشوار ہے۔ اللہ تعالی نے آپ کو علم کی دولت کے ساتھ عمل کی دولت سے بھی سرفراز کیا تھا۔ آپ قائدانہ صلاحیت اور اس سے بڑھکر قائدانہ جرأت وہمت کے مالک تھے۔ آپ نے اپنے والد گرامی مولانا حضرت منت اللہ رحمانی کے ادھورے کاموں کو بخوبی بلندیوں تک پہنچایا ہی نہیں بلکہ اپنے دادا محترم حضرت مولانا سید محمد علی مونگیری رحمۃ اللہ علیہ کے لگائے ہوئے پودے ’جامعہ رحمانی مونگیر‘ کو ایک سایہ دار تناور درخت بنادیا۔وہ اپنے والد ماجد حضرت مولانا منت اللہ رحمانی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے بعد(۱۹۹۱) سے خانقاہ رحمانی مونگیر کے سجادہ نشین اور جامعہ رحمانی مونگیر کے سرپرست تھے۔ آپ نے بخوبی1974ء تا 1996ء بہار قانون ساز کونسل کے رکن کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ آپ نے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری کے طور پر خدمات انجام دینے کے علاوہ امیر شریعت مولانا نظام الدین صاحب کے انتقال کے بعد امارت شرعیہ بہار و اڈیشہ و جھارکھنڈ کے ساتویں امیر شریعت بھی منتخب ہوئے اور مختصر وقت میں اس کے تمام شعبوں کو منظم اور منضبط کرنے کی کامیاب جدوجہد فرمائی۔
آپ رحمانی ۳۰ کے بانی بھی ہیں۔ "رحمانی ۳۰ "وہ پلیٹ فارم ہے جہاں عصری تعلیم کے متعدد شعبوں میں معیاری اعلی تعلیم و قومی مقابلا جاتی امتحانات کے لیے طلبہ کو تیار کیا جاتا ہے۔ اس ادارہ سے الحمداللہ ہر سال متعدد کامیاب طالب علم "نیٹ اور جی” میں منتخب ہوتے ہیں۔ آپ اپنی شخصیت و ملی مسائل میں جرأت مند ، صاف گو اور بے باکی کے لیے مشہور تھے۔ آپ دینی و عصری دونوں طرح کی تعلیم کے حمایتی تھے ۔ابتداء میں تدریسی مرحلہ میں حدیث کی کتابیں پڑھائیں ، ہفتہ روزہ ’نقیب‘کی ادارت سنبھالی ، تحفظ مدارس کی تحریک چلائی ، اورمسلم پرسنل لاء بورڈ کے پلیٹ فارم سے اوقاف کے تحفظ ، عورتوں کے حقوق اورتین طلاق بل کے خلاف تحریک آپ کی زندگی کے روشن وتابناک پہلوہیں ، درجنوں کتابیں لکھیں۔
آپ کی شخصیت ہمہ گیر، ہمہ جہت تھی۔آپ صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ پورے عالم اسلام میں بھی اپنے ملی ، تعلیمی ، سیاسی اورسماجی خدمات کی وجہ سے اپنی پہچان رکھتے تھے۔آپ اپنے کارنامے کی وجہ سے قومی و بین الاقوامی ایوارڈ سےبھی نوازے گئے۔ آپ ایک دور اندیش اور صاحب فکر قائد بھی تھے جس کے پاس نہ صرف یہ کہ وژن تھا بلکہ اس وژن کو زمین پر اتارنے کے لئے ماسٹر پلان بھی موجود ہوتا تھا۔ وہ کسی کی تنقید کی پرواہ کئے بغیر اپنے مشن کے لئے متفکر رہتے تھے۔ وہ اس حقیقت سے بخوبی واقف تھے کہ مسلمانوں کی بدتر حالات کی وجہ صرف اور صرف تعلیمی پسماندگی ہے۔
آپ کے اندر تقویٰ پرہیزگاری اور اسلامی تعلیمات کی پاسداری کس قدر پیوست تھی جس کا اندازہ مجھے مسعود جاوید صاحب کی ایک تاثراتی تحریر پڑھ کر ہوا۔ جسے میں کوڈ کرتا ہوں۔
"غالباً ٢٠٠٨ کا واقعہ ہے خلیج سے آیا ہوا تھا ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا معلوم ہوا اصلاح معاشرہ کے اجلاس رانچی میں مہمان خصوصی ہوں گے میں بھی پہنچا بہت اعلی پیمانے کا انتظام تھا لائٹ سے جلسہ گاہ اور اس کے اطراف جگمگا رہے تھے اور بغیر خلل ساؤنڈ سسٹم کی آواز ہر طرف گونج رہی تھی شہر میں بجلی کے کھمبوں میں لاؤڈ اسپیکر آویزاں کۓ گۓ تھے۔ پنڈال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا بعد نماز عشاء پروگرام شروع ہوا۔ تقریباً دس بجے رات مولانا اسٹیج پر تشریف لائے اور اپنی بات شروع کرنے سے پہلے پوچھا کہ اجلاس کے منتظمین کون لوگ ہیں ان میں سے ذمہ دار حضرات سامنے آئیں۔ دو تین لوگ اسٹیج پر آۓ انہوں نے کہا کہ روشنی کا زبردست نظم ہے اس کا کنکشن کس کے گھر کے میٹر سے ہے۔ وہ لوگ ہکا بکا ایک دوسرے کو دیکھنے لگے اور بالآخر انہوں نے کہا سامنے پول سے لیا ہے مولانا نے کہا یعنی چوری کی بجلی سے آپ اصلاح معاشرہ کے موضوع پر ہم سے تقریر کرانا چاہتے ہیں۔ میں ایسے جلسے کو مخاطب نہیں کروں گا۔ انہوں نے پوچھا کہ پروگرام کب تک چلے گا لوگوں نے کہا بارہ یا ایک بجے تک۔۔۔ مولانا نے کہا کہ راستے میں میں نے لاؤڈ اسپیکر لگے دیکھا ہے ان غیر مسلموں کو ایک بجے تک اذیت دے کر آپ اصلاح معاشرہ کریں گے یا برادران وطن کو اسلام اور مسلمانوں سے متنفر ؟ منتظمین نے کہا غیر مسلم بھی اپنے تہواروں اور یگ میں ایسا ہی کرتے ہیں تو مولانا نے کہا کہ اللہ نے خیر امت بنا کر آپ کو بھیجا ہے اسلام کے نمونے آپ ہیں وہ نہیں اس لئے نہ صرف یہ کہ آپ اپنے کۓ کے گناہ گار ہیں بلکہ غیروں کے سامنے غلط نمونہ پیش کرنے اور جو اسلام میں حرام ہے اسے کر کے حلال کا تاثر دینے کے بھی مجرم ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ مسلمان کا مکان مکمل ہی نہیں ہوتا جب تک کہ وہ سڑک کنارے میونسپل کا کچھ حصہ اپنے مکان میں شامل نہ کرے۔ اپنی زمین پر مکان بنائیں گے اور میونسپل کی زمین پر پلیٹ فارم اور ریمپ ۔ اتنی باتیں کہ کر بغیر تقریر کۓ وہ چلے گئے۔”

۳ اپریل ۲۰۲۱ بروز ہفتہ دوپہر کے وقت آپ کا پٹنہ کے پارس اسپتال میں انتقال ہو گیا۔ انتقال کے کئ روز قبل ہی آپ کو کوویڈ کا ویکسین لگایا گیا تھا۔
٤ اپریل ۲۰۲۱ بروز اتوار ۱۱بجے دن میں بمقام خانقاہ رحمانی تجہیز و تکفین عمل میں آئ ۔
یقینا حضرت مولانا کی وفات پوری ملت اسلامیہ کے لیے ایک سانحہ عظیم ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت مولانا کی مغفرت فرمائے ،ان کے درجات بلند فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے آمین ۔

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

Comments are closed.