نصرت جہاں نمونہ عبرت
خدا را اسلام اور مسلمانوں کو بدنام ہونے سے بچائیں

مفتی منظور ضیائی
ممتا بنرجی کی انتہائی قریبی سمجھی جانے والی بنگالی فلموں کی معروف اداکارہ نصرت جہاں لوک سبھا انتخابات سے لیکر اب تک غلط ومنفی وجوہات کی بناء پر اخبارات کی سرخیوں میں بنی ہوئی ہیں.
کسی زمانے میں ان کی نام نہاد شادی موضوع بحث بنی ہوئی تھی آج ان کا نام نہاد طلاق میڈیا میں اسلام اور مسلماموں کے تعلق سے نامناسب ہروپیگنڈے کا موضوع بنا ہوا ہے.
میڈیا چٹخارے اچھال رہا ہے۔ دوران گفتگو شرکاء بحث کا اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے بغض اور عناد بھی سامنے آجاتا ہے
جہاں تک نصرت جہاں کی نام نہاد شادی اور طلاق کا تعلق ہے
اس کا نہ اسلام سے کچھ لینا دینا ہے اور نا ہی مسلمانوں سے.
نکاح کےتعلق سے اسلام کاموقف انتہائی واضح ہے رشتۂ ازدواج اسی وقت قائم ہوسکتی ہے اور نکاح اسی صورت میں قابل قبول ہوسکتا ہے جب زوجین کے اعمال کیسے بھی ہوں پر ایمان وعقیدے کی حد تک مسلمانبہونا ضرور ہے چندگواہوں کی موجودگی میں ایجاب وقبول کے بعد ایک اجنبی مرد ایک اجنبی عورت ہمیشہ کے لئیے رشتۂ ازدواج میں بندھ جاتے ہیں یہی نکاح کا شرعی ومسنون طرہقہ ہے اگر اس بنیادی شرط کو نظر انداز کر کے مردوعورت کے درمیاں کوئی رشتہ قائم ہوتا ہے تو نکاح نہیں حرام کاری ہے اور دونوں فریق زنا کے مرتکب ہیں اسکی اسلام میں سخت وعید آئی ہے.
اسلام کے اس قاعدے کلیہ سے نہ تو نصرت جہاں اور اس کے نام نہاد شوہر مستثنیٰ ہیں نہ کوئ اور آزاد خیال جوڑا. جو نکاح اور ایمان وعقیدے کو پسماندگی کی علامت سمجھتا ہے اور مردو زن کے آزادانہ اختلاط کاقائل ہے. یہ ایک ایسا مسٔلہ ہے جس پر تمام مذاہب کے علماء سو فیصد متفق ہیں برادران وطن کی اکثریت بھی خواہ ان کا تعلق کسی بھی ذات یا مذہب سے ہو اس بات کو سخت ناپسند کرتے ہیں کی ان کا بیٹا یا بیٹی آزادانہ ایک دوسرے کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کریں.
ہندستانی عوام کی ننانوے اعشاریہ نناوے اکثریت اسطرح کی حرکتوں کو پوری نفرت وحقارت کے ساتھ مسترد کرتی ہے.سب کے شادی بیاہ کے اپنے اپنےقانون آداب ورسم رواج ہیں آپ اس سے اختلاف کریں یا اتفاق لیکن شادی بیاہ کا بہر حال ایک ضابطہ ہوتا ہے جسے پورا کر کے ہی میاں بیوی بن کر رہا جاسکتا ہے اس سے ہٹ کر اختیار کیا گیا کوئ بھی طریقہ فتنہ وفساد انتشار وبحران کا سبب بن سکتا ہے.دنیا کی بہت سی آزاد سوسائٹیاں اس لعنت وبحران کا شکار ہیں.
اب آئیے لو جہاد پر لوجہاد ایک فتنہ پرور اصطلاح ہے جہاد کو بدنام کر نے کے لئیے دنیا میں بہت سے طریقے استعمال کے کئیے گئے ہیں مسلمانوں جیسے نام رکھنے والوں نے بھی جہاد کو بدنام کیا اور اسلام اورمسلمانوں سے بغض وعناد رکھنے والے غیر مسلموں نے بھی۔
تجربہ سے بھی ثابت ہوچکا ہے کی محبت کی شادیاں اوردو الگ مذاہب کے درمیاں میں ہونے والی شادیاں عوما پائیدار نہیں ہوتی ہیں اور پوری زندگی تلخی اورکشمکش کا سبب بنتی ہے.
مذہب سے قطع نظر خالص سماجی نقطۂ نظر سے بھی دیکھا جائے تو وقتی جوش وجذبات اور ہیجانی کیفیت میں کی گئی شادی اکثر ناکام ہوتی ہیں. ایک ہندستانی اور ایک مفتی کی حیثیت سے میرا واضح موقف یہ ہے کی لوجہاد جیسی کسی چیز کی اسلام میں گنجائش نہیں ہے.
مسلم لڑکی کسی غیر مسلم لڑکے سے شادی کرتی ہے یامسلم لڑکا کسی ایسی لڑکی سے شادی کرتا ہے جس نے اسلام قبول نہیں کیا تو وہ شادی باطل ہوگی. جنسی تعلقات حرام کاری وزناکاری کے زمرے میں آئے گی. اور ان سے پیدا ہونے والی اولاد پوری زندگی اور شاید میدان قیامت میں بھی ولد الزنا کا داغ اپنی پیشانی پر لئیے ہوگی.
بہتر ہوگا کی مسلمان فیمیلیاں اپنے بچوں اور بچیوں پر نظر رکھیں اور ان کو صحیح تربیت دیں اور بالغ ہوتے ہی مناسب رشتہ دیکھ کر شریعت کے مطابق ان کا نکاح کردیں. ہمیں حکم دیا گیا ہے کی نکاح کو آسان اور زنا کو مشکل بناؤ لیکن المیہ یہ ہے کی آج نکاح سب سے پیچیدہ بن گیا ہے اور زنا سب سے زیادہ آسان ہوگیا ہے.مگر افسوس کی بات یہ ہے کی مسلمان دوسروں کے لئیے مثال بننے کے بجائے نمونٔہ عبرت بن گیا ہے
آخر میں ہم یہ واضح کردینا چاہتے ہیں کی ہندستانی معاشرہ جائز ورایتی شادی کے علاوہ کسی اور طریقے سے مرداور عورت کے ساتھ رہنے پر کلی طور پر مسترد کرتا ہے تھوڑے سے لوگوں نے یہ راستہ اختیا ر کیا ہے لیکن اگر ہندستان کی آبادی سے اسے ضرب دیا جائے تو شاید دس ہزار میں ایک کا بھی اوسط نہیں آئےگا.
بہن نصرت جہاں کے لئیے ہمارا پیغام ہے کی توبہ کا دروازہ ابھی بھی کھلا ہوا ہے رجوع کرلیں ورنہ دنیا وآخرت کی ذلت ورسوائی سے نہیں بچ سکتیں.آپ کی یہ بات بلکل درست ہے کی جب شادی نہیں ہوئی تو طلاق کیسا ہمارا تمام ہندستانیوں کے لئیے پیغام ہے کی شادی جائز طریقے سے کریں اور طلاق کی نوبت نہ آنے دیں.
Comments are closed.