فلسطین: تاریخ کے آئینے میں!! (٩) عربوں کی مصلحت پسندی کا دور

 

 

محمد صابر حسین ندوی

 

حقیقت یہ ہے کہ ١٩٦٧ء اور ١٩٧٣ء کے بعد سے ایک نیے دور کی شروعات ہوتی ہے، عرب اور اسرائیل کی متعدد جنگوں کے بعد عرب پست ہوجاتے ہیں، ان کے قوی مضمحل اور معاشی کمر ٹوٹ جاتی ہے، اندیشے اور خدشات کا دائرہ وسیع ہوجاتا ہے، سرکش موجوں سے ہر مضبوط دیوار شکستہ ہوتے دیکھ ان کی ہوائیاں اڑنے لگتی ہیں، بالخصوص اقوام متحدہ کا سوتیلا پن اور امریکہ کی اسرائیل سے بڑھتی قربت انہیں زیر وزبر کردیتی ہے، وہ سمجھ جاتے ہیں کہ خلافت عثمانیہ کے بعد اب ان کا کوئی حامی و مددگار نہیں ہے، عالمی پلیٹ فارم پر انہیں بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا ہے، انہوں نے – پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ – کی مخالفت کی ہے، اب ان کی بغاوت انہیں پر بھاری پڑنے والی ہے، چنانچہ وہ اب مزاحمت کے بجائے مصالحت کی راہ نکالنے کی کوشش کرنے لگتے ہیں، اپنے چھوٹے چھوٹے گھروندوں کو بچانے اور سلطنت و عیش اور مستی کی دنیا آباد رکھنے کی پرواہ کرنے لگتے ہیں، اب وہ نہیں چاہتے کہ اسلام اور حرم اسلام کے نام پر کوئی جنگ ہو، دجالی طاقتورں کے سامنے وہ ایک گونہ ہتھیار ڈال دیتے ہیں، صہیونیوں، صلیبیوں کے ساتھ حسن سلوک اور سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے بے جا استدلال کی کوششیں تیز ہوجاتی ہیں، اسلام کو امن پسندی کا مذہب بتا کر اپنی بزدلی اور باطل کا خوف چھپانے کی سعی لاحاصل کی جاتی ہے، برملا جنگی صورتحال اور قوت و دافع سے بھی پیچھے ہٹ جاتے ہیں، بیت المقدس کو صلح صفائی اور اقوام متحدہ تک گہار لگانے کے بھروسے چھوڑ دیتے ہیں، انہوں نے اپنی دولت، ترقی، ملکی مفاد اور حکمرانی کے تمام ذرائع پر خوب محنت کی مگر بیت المقدس کی دیواریں دیمک آلود اور خستہ حال ہوتی گئی اور وہ تماشہ بین بنے رہے، عربی جبے و قبے میں اسلامی خدمات کا علم تھامے دنیا کو سنہرا باغ دکھلایا اور پس پشت حرم کو رسوا کرتے رہے، عالم اسلام بھی منتشر افق اور ابرآلود فضا میں کھو گیا، خاص طور پر اس وقت ایک اور بڑے واقعے نے تمام عالم اسلام کی توجہ مبذول کی، فلسطین کا زخم ابھی ہرا ہی تھا کہ ایک دوسرا زخم بڑی گہرائی کے ساتھ کھل گیا، جس کا براہ راست فلسطینی قضیہ پر اثر پڑا، بات ١٩٧٩ء کی ہے جب روس نے افغانستان پر حملہ کردیا، امریکہ نے بھرپور تعاون کیا، موقع کی نزاکت دیکھتے ہوئے عرب نے افغانستان کی جانب توجہ کی اور انہیں مدد پہنچائی، اسے اسلامی جہاد کا نام دیا گیا، اس کے بعد عرب میں لگاتار انقلابات ہوتے رہے، مملکت کو سکون نہ ملا، ایسا انتشار اور بدنظمی اور فکری بے راہ روی پیدا ہوئی کہ فلسطین حاشیہ پر جا پڑا، عالمی برادری نے ایجنڈے چلائے اور اسے صرف عالم عرب کا قضیہ بتا کر عالم اسلام کو خوشگوار نیند سلانے لگے، بلکہ عربوں نے اس کا رد عمل اس طرح دیا کہ اب اسے نہ عالم اسلام کا اور نہ ہی عالم عربی کا بلکہ صرف ایک خاص چھوٹے سے خطے کا مسئلہ بتاکر سبھی ایڑیوں کے بل لوٹنے لگے، قدس کو ویران چھوڑ دیا گیا، باطل کی دست درازی کو قبول کرلیا گیا، ظاہر ہے جب امت مسلمہ کی بے حسی عروج پر پہنچنے لگی تو اسرائیل نے اس موقع کو غنیمت جانا اور مغربی کنارے پر توسیع اور اسرائیلی دفاعی نظام کو مضبوط کرنے میں تمام طاقتیں جھونک دیں، ایک ایسا بلاک بنانا شروع کیا جس سے عرب بھی الجھے رہیں اور عالم اسلام بھی نبرد آزما رہے، عرب اپنی حکومتوں کو بچانے اور عالم اسلام دہشت گردی کا داغ ماتھے پر لئے فلسطین سے نظریں چرا بیٹھے –

عالم اسلام کی توجہ فلسطین سے کیا ہٹی کہ منافقت کا دور شروع ہوگیا، عرب کی مصالحتی عمل میں تیزی آگئی، حیرت کی بات ہے کہ اس سلسلہ میں سب سے پہلے پیش قدمی مصر کی جانب سے ہوتی ہے، جو ابھی ابھی اسرائیل کو نہز سوئز میں غرق کردینے کی بات کرتا تھا؛ لیکن عالمی دباؤ اور اپنی کھسکتی سرزمین کو دیکھتے ہوئے اس نے اچانک اپنی پالیسیوں میں تبدیلیاں کر لیں، ١٩٧٨ء میں اب مصر اسرائیل کو بحیثیت ایک ملک قبول کر لیتا ہے، اور اپنے سفارتی تعلقات بحال کرلیتا ہے، اس کی بدولت مصر کو اس کے وہ سرحدی علاقے واپس کر دئے جاتے ہیں جو اسرائیل نے لے لئے تھے، اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے مقاصد اور اسرائیل جنگ کا پس منظر کیا تھا؛ تاہم بقیہ عرب ممالک اب بھی اس سے انکار کرتے ہیں، وہ اگرچہ شکست قبول کر چکے ہیں، فوجی ہزیمت سے دوچار ہو گئے ہیں، اور بہت حد تک اندرونی ہلچل بتاتی ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرنے لگے ہیں، امریکہ کا ہتھوڑا ان کے سر پر رہتا ہے، مگر اب بھی اتنی غیرت باقی رہتی ہے کہ وہ ظاہراً اسرائیل کو تسلیم کرنے سے بھینچ جاتے تھے، منافقانہ چہرہ دنیا کے سامنے نہیں لانا چاہتے تھے، اس لئے کہ اگر ایسا ہوجاتا تو عالم اسلام میں ایک غلط پیغام جاتا، ان کی خدمات کو ٹھکرایا جاتا اور ناراضی عام ہوجاتی ہے، فلسطین سے پہلے ہی ہاتھ دھو بیٹھے تھے امریکہ اور اسرائیل نے چکی کے دوپاٹ میں دبا دیا تھا، اب اپنوں کا بھی ساتھ چھوٹ جاتا تو ان کے گھروندے مسمار ہوجاتے، حکومت کی عیاشی اور شاہی گھرانوں کی مستیاں چور چور ہوجاتیں؛ لیکن مصر نے ایک ایسا راستہ کھول دیا تھا جو بعد میں ہر ایک کو محبوب لگنے والا تھا، اور اکیسویں صدی میں علی الاعلان دشمنوں سے بغل گیری ہونے کا راستہ فراہم کرنے والی تھی- – – غور کرنے کی بات ہے کہ جب عرب مصلحت اور امن کی چادر تاننے لگے اور اس بات کی یقین دہانی پانے لگے کہ صیہونی بیت المقدس کو نہیں چھیڑیں گے، اسے قصہ ماضی نہیں بنائیں گے، اسی دوران اسرائیل اپنی جارحیت اور فلسطین کی ویرانی میں برابر لگا ہوا تھا، منہ پر میٹھی باتیں اور بغل میں چھری کی پالیسی لگاتار چلی جارہی تھی، چنانچہ یہ واقعہ بھی جنگی محاذ پر کام کئے جانے کی طرح ہے کہ اسرائیل نے ١٩٦٧ء سے ١٩٨٠ء تک غزہ اور مغربی کنارے پر قبضہ کئے رکھا اور اسی دوران اس نے مغربی کنارے میں مختلف کالونیاں بنانی شروع کردیں، یہودیوں کو بھیج بھیج کر بسانے لگے، شیخ جراح جیسی قدیم کالونیوں میں ناجائز قبضے بڑھ گئے، وہاں کی معاشی ریسورسیز کو اپنے مفاد کیلئے استعمال کرنے لگے، اسپتال، کالجز، اسکول تعمیر کر کے فلسطینیوں کو کنارہ کیا اور اپنے بچوں کیلئے اعلی تعلیم، اعلی رہائش کا بندوبست کرنے لگے، فلسطینی مجبوراً یا تو ہجرت کرنے لگے یا پھر اپنی زمین و جائیداد سے بے دخل ہو کر کیمپوں میں رہنے لگے؛ لیکن ان کی بے بسی پر کوئی شنوائی کرنے والا نہ تھا، عالمی اداروں پر سناٹا چھایا ہوا تھا، اقوام متحدہ کمبل اوڑھے سورہا تھا، دراصل یہ جگہ ان کیلئے دو وجہوں سے پرکشش تھی، اول یہ کہ یہیں پر مذہبی مقامات ہیں جن کو مقدس سمجھا جاتا ہے، اور یہودی مانتے ہیں کہ یہ زمین انہیں من جانب اللہ عنایت کی گئی ہے، دوم یہ کہ حکومت وہاں بسنے میں مدد کرتی تھی، بستیاں سستی ہوتیں اور یہاں رہنا آسان ہوتا تھا، مگر اس طرح ایک بڑی آبادی یہاں بسادی گئی اور لاکھوں فلسطینیوں کو انہیں کی سرزمین سے بے دخل کردیا گیا –

لے گئے تثلیث کے فرزند میراث خلیل

جشت بنیاد کلیسا بن گئی خاک حجاز

ہوگئی رسوا زمانے میں کلاہ لالہ رنگ!

جو سراپا ناز تھے، ہیں آج مجبور نیاز

 

 

[email protected]

7987972043

Comments are closed.