فلسطین: تاریخ کے آئینے میں!! (١٠) عربوں کی خانہ جنگی کا اثر

 

 

محمد صابر حسین ندوی

 

قضیہ فلسطین سے لاتعلقی اور روگردانی کی وجہ سے عالم اسلام کو عربوں سے ایک ناامیدی پیدا ہونے لگتی ہے، فلسطین کو صہیونیوں کے نرغے میں ترک کرنے کے بعد وقت کے ساتھ ساتھ انہوں نے افغانستان کو بھی تنہا چھوڑ دیا، امریکی دور عسکریت میں عربوں پر اتنا خوف طاری ہوا کہ وہاں مجاہدین اور فدائیوں کو دہشت گرد قرار دے بیٹھے، یا پھر طویل خموشی چھا گئی، جس سے باطل نے سرکشی اور اسلام مخالف منصوبہ بندی میں سرعت سے کام لیا، گزشتہ صدیوں میجو مسافت ہزاروں سال میں طے ہوتی، اسلام مخالف لہر بنانے میں عرصہ لگ جاتا وہ سب کچھ انہوں نے چند دہائیوں میں حاصل کریا، اب تو نئی نسل یہ سمجھتی ہے کہ مسلمانوں کا عہد عروج کوئی قصہ پارینہ کی داستان ہے؛ پھر بھی اس دور میں افغانی اسلامی جہاد اور پامردی کی بدولت تیس سال کی مسلسل جنگ اور سویت یونین، روس اور امریکہ کا مقابلہ کرنے کے بعد فاتحانہ حکمرانی کی جانب بڑھ رہے ہیں، مگر فلسطین کو ایسا بے یار و مددگار کردیا گیا کہ وہاں کوئی باقی ہی نہ رہا جو اس قضیہ پر سر دھندتا، خارجی امداد پر روک لگادی گئی، سرحدی علاقوں میں بندشیں ڈال دی گئیں، اپنے بھی پرائے ہوگئے، اور اندرون ملک کی آبادی مجبور، مقہور ہو کر گزر بسر کرنے لگی، البتہ وہاں کی چھوٹی چھوٹی قیادتوں نے اس قضیہ کو زندہ کر رکھا ہے، عرب ایک طرف فلسطین سے دور ہوتے گئے تو دوسری طرف ستم یہ دیکھئے کہ وہ آپسی جنگوں میں مبتلا ہوگئے، شیعہ سنی کا معاملہ تو سنگین تھا ہی، ایران، عراق، کویت اور سعودیہ کی کشمکش عقائد کی بنیاد پر تو تھی؛ مگر یہ جنگی پیمانے پر چلی گئی، پیٹرول کا خزانہ جو ان کیلئے دنیا میں قیادت کا سنگ میل ثابت ہوسکتا تھا، وہ جنگ، قتل و قتال اور آپسی جنگ کا باعث بن گیا، خصوصاً ١٩٨٠ء – ١٩٨٨ء کی عراق اور ایران جنگ نے دنیا بھر میں عرب اور مسلمانوں کو رسوا کیا، نیز ٢/اگست ١٩٩٠ء کویت پر عراقی حملے سے عربی قوت تتر بتر ہوگئی، نتیجتاً عرب ممالک میں دشمنانہ ماحول قائم ہوا، اور عراق کی فوجی قوت، عربی ذخائر اور درآمدات میں کمی آئی، ١٩٩٠ء میں صدام حسین کے زمانہ صدارت میں عراق نے کویت پر حملہ کر کے قبضہ کر لیا جو سات ماہ جاری رہا۔ کویتی حکمران رات کو سعودی عرب فرار ہو گئے، عراق کا الزام تھا کہ کویت اس کا تیل چوری کر رہا ہے؛ حملے سے پہلے امریکی سفیر نے صدام حسین کو یقین دلایا کہ عرب تنازاعات میں امریکہ نہیں پڑے گا۔ سقوط کویت کے بعد جارج بش کی صدارت میں امریکہ نے سعودی عرب میں اپنی فوجیں جمع کیں اور حملہ کر کے کویت کو عراق سے آزاد کرا لیا۔ مغربی ممالک میں اس حملے کو پہلی خلیجی جنگ کہا جاتا ہے، اندزہ لگایا جاسکتا ہے کہ عراقی حملہ، امریکہ کی دخل اندازی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی خلیجی جنگ کے نتائج مسئلہ فلسطین کے حق میں کتنے اندوہناک ثابت ہوئے ہوں گے، خصوصاً وہ کویت کی مدد سے بھی محروم ہوگیا، جو ان کا بہی خواہ اور مسئلہ فلسطین کیلئے نرم گوشہ رکھنے والا تھا-

اسی طرح ١٩٧٧ء- ١٩٨٢ء میں مصر کے جنگ بندی معاہدے میں شامل ہونے کی وجہ سے عالم عربی اور مصر کے درمیان سخت کشمکش پیدا ہوئی، حق و باطل کے درمیان موٹی لکیر اب اس قدر باریک لگنے لگی تھی کہ بہت سے دلوں کا چور باہر نکلنے پر آمادہ ہوا جاتا تھا، بعض صلابت و استقامت کو عزیمت جانتے؛ لیکن ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں تصویر بنارہی تھی، اس سے زیادہ خطرناک بات یہ ہوئی کہ عرب حکمران فلسطینیوں کی مدد کرنے والی تنظیموں کے خلاف کاروائی کرنے لگے، ایسا معاندانہ رویہ اختیار کیا کہ اخوان المسلمین جو طرح طرح سے فلسطین کا تعاون کر رہے تھے؛ بلکہ جنگی پیمانے پر میدان کارزار میں بھی لوہا لے رہے تھے، اپنی جانیں قربان کر رہے تھے، ان کے ایک ایک فرد کو پکڑ کر جیلوں میں ڈھونسا جانے لگا، اخوان کے بانی شیخ حسن البناء شہید رحمہ اللہ کے اس شاداب پود کو جڑ سے کاٹنے اور جہد مسلسل کی تعبیر اشخاص کو پس زنداں ڈالنے میں ساری طاقتیں صرف کی جانے لگیں، اخوان کو دہشت گرد بتا کر اس پوری تنظیم کو کچلنے کی کوشش کی گئی، جس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے، اس دشمنانہ رویہ اور مذکورہ حالات کی بنا پر اب فلسطین وادی میں تنہا اپنے خون اور گوشت و پوست کے ساتھ باقی رہ گیا تھا، کوئی اس کی طرف نگاہیں اٹھانے والا اور اس کی بکھری زلفوں کو سنوارنے والا نہ تھا، بچوں کی چیختی آوازیں، سسکیاں اور آہیں سننے والا نہ تھا، ان کے گھر، افراد اور زمینیں سب کچھ لوٹی جارہی تھیں، زندگی اجیرن اور سانس بھاری ہوئی جارہی تھی؛ ایسے میں ایک مضبوط تحریک، عسکری قوت اور ایمانی جوش اور ولولہ سے لبریز افراد پر مشتمل انقلاب کی ضرورت تھی، جو اپنا سب کچھ اللہ کے راستہ میں لٹاسکے، جام شہادت نوش کریں اور یہی ان کیلئے امتیاز اور فخر ہو، اللہ تعالی نے اس کیلئے ٩/دسمبر ١٩٨٧ء کو انتقاضہ کی تحریک بپا کی، ١٩٩٣ء تک یہ تحریک پوری طاقت کے ساتھ سرگرم رہی، اور انتقاضہ کے ساتھ ہی حماس کا بھی قیام عمل میں آیا، اس کے روح رواں اور قائد اول شیخ احمد یاسین شہید رحمہ اللہ تھے جن کی سیادت میں اس تحریک نے بے انتہا مقبولیت حاصل کرلی، لوگوں کے دلوں میں سرد انگیٹھی کو پھر سے چنگاری دی، اسے شعلہ بنایا، اور کنجشک کو بازوں سے لڑا دیا گیا، وہیں الفتح جو مزاحمت کیلئے قائم ہوئی تھی اب متعدد اسرائیلی اور عالمی معاہدے کی وجہ سے اسرائیل کی معاون ہوگئی، ان کیلئے میٹھی زبان ہی نہیں بلکہ پالیسیاں بھی بنائی جانے لگیں، خوب رابطے بننے لگے اور صیہونی تعلقات کے جواز تلاش کئے جانے لگے، یہی وجہ ہے کہ آج اکثریت مصلحت پسند عرب اور دنیا کے لیڈران اسے سپورٹ کرتے ہیں، اسی کو فلسطین کا رہنما مانتے ہیں اور دنیا کے سامنے دیگر تنظیموں کو متشدد بتانے کی کوشش کرتے ہیں۔

 

 

[email protected]

7987972043

Comments are closed.