امارت،امیر شریعت اور وہاٹس ایپ یونیورسٹی

 

نازش ہما قاسمی

امیر شریعت و مفکر اسلام حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی کا جسد خاکی سپرد لحد بھی نہیں ہوا تھا، محبین و متوسلین اور عقیدت مند غم ناک خبر سے رنجیدہ ہی تھے ،اس وقت سے وہاٹس ایپ یونیورسٹی کے فضلاءفتنہ پروری میں مشغول ہوگئے جس کا سلسلہ اب تک جاری و ساری ہے کہ امارت کے امیر فلاں شخص کو بنایا جائے وہ قابل ہیں، فلاں کو بنایا جائے وہ عالی نسب ہے ،فلاں کو بنایا جائے ان میں امیر کی خاصیت موجود ہے ، ان میں انتظامی صلاحیت موجود ہے ،ان سے ہمارے مراسم اچھے ہیں ، ان کا حق ہے ۔گویا کہ جتنے فضلائے وہاٹس ایپ یونیورسٹی ہیں ان کی اتنی ہی آراءہیں۔ قاری بے چارہ کنفیوژڈ ہے کہ کس کو بنایا جائے، کون بہتر ہوگا۔ حالانکہ نہ قاری کے بس میں بنانا ہے اور نہ ہی فضلا کے بس میں۔ فضلا کا کام بس فضلہ بکھیرنا ہے اور قاری کاکام اس میں الجھ کر ایک دوسرے پر طعن و تشنیع کے نشتر چلانا ،گروہ بند ہوکر اپنے ہی اکابر کی بے حرمتی کرنا، موجودہ قائدین سے اعتبار کھونا اور محض مضمون پڑھ کر کسی کا حامی و مخالف ہونا اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے اس حد تک گرجانا کہ مولوی ہوتے ہوئے بھی جبہ و دستار کی بے حرمتی کرکے گالم گلوچ کرنا اور اپنی اصل حقیقت بتانا کہ ہم مولوی غلطی سے بن بیٹھے ہیں ورنہ ہم تو شیطان کو بھی فتنہ پروری اور گالم گلوچ میں مات دے سکتے ہیں۔

افسوس ان لوگوں پر ہرگز نہیں آرہا کیونکہ انہوں نے جو سیکھا ہے، وہ انڈیل رہے ہیں بلکہ افسوس اس پر ہورہا ہے کہ بے ہودہ اور واہیات قسم کے مضامین میں جس میں اکابر کی گستاخی کی گئی ہو اور ان کی طرف سے گستاخی جسے یہ حدیث معلوم ہو اذکروامحاسن موتاکم ‘۔ ان فاضل مضمون نگاروں کو یہ بھی علم ہے کہ ہماری لکھی ہوئی باتوں سے کوئی امیر شریعت نہیں بن سکتا ہے لیکن انہیں اتنا ضرور پتہ ہے کہ فتنہ پھیلا کر میں بہتوں کے ذہن و دماغ میں نفرت عداوت بے حسی کم ظرفی بے توقیری کا بیج ضرور بوکر امت کو جو پہلے سے ہی گمراہ ہورہی ہے، اسے مزید گمراہ کرسکتا ہوں ،اس جانب وہ مکمل کامیاب ہیں ۔پوری شدومد اور طاقت سے ایک دوسرے کے خلاف محاذ کھولے صف آرا ہیں لیکن دوسری جانب بالکل بھی کامیاب نہیں کیونکہ امیر بنانا ارباب حل و عقد کا کام ہے اور ارباب حل و عقد کی تعداد ہزار کے قریب ہے اور ہمیں پوری امید ہے کہ ارباب حل و عقد امیر شریعت ثامن کے تعلق سے فکر مند ہوں گے کہ کسے بنایا جائے جو سابق امرائے شریعت کی روش پر چلتے ہوئے امارت اور امیر کے وقار کو بحال کرے اور اس میں اتنے وقفے سے بھی یہی اشارہ مل رہا ہے کہ ارباب حل و عقد، امارت کے شایان شان امیر منتخب کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور جہاں تک لگتا ہے کہ کوشش مکمل بھی ہو چکی ہوگی لیکن تائید و حمایت سے انتخاب امیرشریعت ثامن کے انتخاب کاپروگرام کووڈ پروٹوکول کے مدنظر فی الحال ممکن نہیں۔ابھی بہار، جھارکھنڈ، اڈیشہ میں کہیں بھی بڑے مذہبی، سیاسی وسماجی پروگرام کی اجازت نہیں ہے۔چہ جائیکہ ہزارکے قریب افرادکاہجوم ہو۔حکومتی گائیڈلائنس کے تحت فی الحال یہ ہجوم ناممکن ہے۔ اس لیے انتخاب امیرشریعت التوا کا شکار ہے ۔ہم امیدکرتے ہیں کہ حالات ٹھیک ہوتے ہی ان شاءاللہ جلد ہی امارت کو ایسا امیر ملے گا جو سابق امیر شریعت حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اور تمام سابق امرائے شریعت کو مشعل راہ بناتے ہوئے بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ سمیت پورے ملک کے عوام کی رہبری و رہنمائی کرے گا اور عوام کا جو اعتماد ہے امارت شرعیہ پر اسے ہر حال میں برقرار رکھے گا۔ آخری بات یہ کہنی ہے کہ امارت شرعیہ کے ارباب حل و عقد جب اتفاق رائے سے کوئی فیصلہ کریں گے تو ممکن ہے کہ فتنہ پروروں کی ایک جماعت پوری طاقت سے مخالفت کرے اور اپنے ذاتی مفادکے لیے پسندیدہ امیدوار کے منتخب نہ ہونے پر واویلا مچائے ۔اس لیے عوام الناس کو فتنوں میں نہ پڑتے ہوئے ارباب حل و عقد کے فیصلوں کی تائید و حمایت کرنی ضروری ہے ورنہ جس طرح علماءکے بدنام کرنے کا سلسلہ جاری ہے،وہ ہرگزمناسب نہیں ہے۔ ہم یہی دعاءکرتے ہیں کہ ایسانہ ہوکہ امت مرحوم کو کوئی ایسا قائد میسر نہ ہو جو باطل کے سامنے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرے بلکہ وہی چاپلوس اور بزدل ملیں جو حکومت کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے سودائی ہوں گے۔ اللہ ارباب حل و عقد کی مدد فرمائے اور امارت شرعیہ کو فتنہ پروروں کی فتنہ پردازی سے بچائے اور ایسا امیر، قائد و رہنما منتخب کرنے کی توفیق بخشے جو سابق امرائے شریعت کے نقش قدم پر چل کراور اسلاف کی روایتوں کا امین بن کر باطل سے خوفزدہ نہ ہوتے ہوئے امت مسلمہ کی رہنمائی و رہبری کرے۔ آمین۔

Comments are closed.