میرا بچہ؛ زندگی سے موت کی آغوش تک!! (١)

 

 

محمد صابر حسین ندوی

 

میں بلبل نالاں ہوں اک اجڑے گلستاں کا

تاثیر کا سائل ہوں، محتاج کو داتا دے

ہم پر قیامت گزری ہے، ہمارے جگر گوشہ، عزیز جان نے کل بروز اتوار ١٣/جون ٢٠٢١ء صبح ساڑھے نو بجے مسلسل آٹھ روز آئی سی یو میں زندگی اور موت کی کشمکش کے بعد محض آٹھ روزہ زندگی جی کر اپنے والدین، اجداد اور رشتہ داروں کو خون کے آنسو روتا ہوا، عظیم آزمائش میں مبتلا کر داعی اجل کو لبیک کہہ دیا _ انا للہ وانا الیہ راجعون. إن العين تدمع والقلب يحزن، ولا نقول إلا ما يرضي ربنا، وإنا بفراقك يا ولدي لمحزونون – – اساتذہ کرام، علمائے عظام، احباب اور شاگردوں کے تعزیتی پیغامات موصول ہور ہے ہیں، اللہ آپ سب کو سلامت رکھے، بَس دعاؤں میں یاد رکھئے، نیز راقم فون اٹھانے سے قاصر ہے؛ کیونکہ دل درد سے چور ہے، قیامت کی گھڑی آن پڑی ہے، ایک ایک لمحہ یوم حشر و نشر ہے، تیز اور چلملاتی دھوپ میں پورا وجود پسینہ سے شرابور ہے، کوئی سایہ نہیں، کوئی راحت نہیں، کوئی سکون نہیں، دل اڑ اڑ کر غم کی جانب گامزن ہے، سینہ میں گویا غم کی ہانڈی ابل رہی ہے، آگ کی تپش اتنی زیادہ ہے کہ ابلنے کی آواز لوگوں کے دلوں تک محسوس کی جاسکتی ہے، آنکھیں اشکبار ہیں، موسلادھار بارش، تیز و تند سیلاب بھی اس کی تندی اور مقدار کا موازنہ نہیں کر سکتے، جسم کے اندر طوفان اٹھا ہوا ہے، ایک ایسا طوفان جو اپنے سامنے کسی چیز کو ٹکنے نہ دے، جڑیں خواہ کتنی ہی مضبوط ہوں، کتنا ہی تناور اور دیو ہیکل ہو اس کی تیزی کے سامنے سرنگوں ہے، جسم میں رعشہ بھی طاری ہے، ہاتھ پیر میں جھنجھناہٹ سی ہے، مزاج میں ترشی اور ذہن میں تلخی ہے، کوئی کریلا وہ بھی نیم. چڑھا کتنا بھی کڑوا ہو؛ لیکن اس وقت اندرونی کڑواہٹ کے سامنے کچھ نہیں ہے، رقت، گداز اور نرمی کا عالم ہے کہ ریشم کی نازکی بھی فیل ہوجائے، کسی کس و ناکس نے بھی اگر غم کے تار پر انگلی رکھ دی تو ساز بج اٹھتا ہے اور آنکھیں ڈبڈبا جاتی ہیں، قوت خمسہ میں سے تمام قوی اپنا کام چھوڑ چکے ہیں، کبھی کبھی تو روح بھی ویرانے کا مسافر بن کر رونما ہوتا ہے، اسے خبر نہیں کہ اک مکمل ساخت و عناصر اربعہ کا حامل جسم اس کی رہائش گاہ ہے، اسے بھٹکنا نہیں ہے، مگر کیا کیجئے جب عناصر اپنے اجزاء ترکیبی سے کشمکش کرتے ہوں تو روح بھی کہاں سے سکون پائے، ایسا لگتا ہے کہ دنیا کی تمام نیرنگی، احساس اور زندگی کی بو ختم ہورہی ہے، نظروں کے سامنے ایک ایسا اندھیرا جس میں ہاتھ کو ہاتھ نہیں سوجھتا، وہ تاریکی ہے جس سے تاریکی بھی خوف کھائے، لوگ تسلی دے رہے ہیں، ہمدردیاں جتا رہے ہیں، پیٹھ اور سر پر مشفقانہ ہاتھ پھیرتے ہیں، آنسو پونچھنے لگتے ہیں اور خود رو رو کر آنسوؤں پر بند لگانے کی کوشش کرتے ہیں، کرونا وائرس اور لاک ڈاؤن کی پابندیوں کے بیچ اپنے پرایوں کی بھیڑ ہے، گھر کی دیواریں بھی گریہ ہیں، میز، قلم، روشنائی اور کتابیں بھی ماتم کناں ہیں، ہر چیز آنکھوں کی جانب حیرانگی سے دیکھتی ہے کہ یہ پہاڑ صابر کیسے سر کرے گا؟

رنج و الم کے سمندر سے کیسے تیر کر نکلے گا؟ اللہ تعالی کی جانب سے یہ آزمائش اور امتحان کیسے پاس کرے گا؟ کیسے دل کے کھلے زخم کو مندمل کرے گا؟ معمول زندگی میں کیسے واپس آئے گا؟ ارمانوں کی بارات کو لٹتا دیکھ کر کیسے گھر واپسی کرے گا؟ ابھی نوعمری میں ہی جگر پر یہ کاری ضرب کیوں کر برداشت کرے گا؟ امنگوں اور خواہشوں کے درمیان قیامت خیز حادثے کا کیسے مداوا کرے گا؟ ہر زبان پر یہی درد ہے، خصوصاً خواتین اپنی ضعف پر مزید قیاس کرتی ہوئیں اس میں مبالغہ کئے جاتی ہیں، بعض سر پیٹتی ہیں، سینہ کوبی بھی کرتی ہیں اور پھر تسلی کے بول بولتی جاتی ہیں، والدہ نے گھر سر پر اٹھا لیا ہے، صوم و صلاۃ کی پابند ہیں مگر بچے کا غم انہیں اتنا کھا رہا ہے کہ اسلامیت پر زد آرہی ہے، کہتے عشق کفر کروا دیتا ہے، محبت کافری کے بہانے تلاش ک رلیتا ہے، اب یہ عشق اگر مالک حقیقی سے نہ ہو (جو عموماً ہر کسی کو حاصل نہیں ہوتا) تو پھر وہ حدود کب پار کر جائے کچھ نہیں کہہ سکتے، اس تذبذب میں دل بھی پلٹ کر کہنے لگتا ہے، زندگی میں سینکڑوں امتحان تونے دئے، اعلی تعلیمی مراحل میں دشواریوں گزر کر اچھے برے نمبرات پاہی لیتا تھا، مگر اس کاغذ پر کیا لکھے گا اور کیسے لکھے گا جو سراپا وجود بن گیا ہے؟ جو َندگی تم سے امتحان لے رہی ہے اس کا جواب کیا لکھے گا؟ ان مشکل سوالات کو کیسے حل کرے گا جو کسی کتاب میں نہیں، کسی نصاب اور تعلیمی ادارے میں نہیں، یہ تو دل اور احساس کی دنیا ہے، یہ ہواؤں کی خنکی اور باد صبا تو کبھی باد صر صر کی لپٹ ہے اسے کیسے محسوس کیا جاسکتا ہے؟ اگر لطیف احساس نے انہیں چھو بھی لیا تو کیسے مزاج یار کے موافق کر پائے گا؟ پھر ذرا سوچ! گوشت کا ٹکڑا، جگر پارہ، نور نظر، چشم بد دور اور جان و دل کو جدا کرکے کیسے خود کو سکون دلائے گا؟ کیا ایسا کبھی ہوا ہے کہ کوئی دل کاٹ کر دفن کردے اور وہ خوش و خرم زندگی بسر کرتا پھرے؟ کیا تم نے سنا ہے کہ کسی نے جام عشق پہ لیا ہو اور پھر جدائی کا دور برداشت کرے؟ رخ محبوب کو نگاہوں مک بسا لیا ہو اور نظریں پھیر کر زندگی جی لے؟ زلف یار سے شناسائی ہوئی ہو اور پھر وہ اس کے دام میں الجھے بغیر ہی صبح و شام کرے؟ نہیں، نہیں کبھی نہیں – یہ صحیح بات بھی ہے کہ اب تک احساسات کا یوں سخت امتحان کبھی نہ ہوا تھا، اس عرصہ عمر میں یوں دل پر کبھی بوجھ نہ پڑا تھا، یوں جگر کاوی کی ضرورت نہ پڑی تھی، یوں نگاہیں تھکا دینے اور کمر جھکادینے والا بار کبھی اٹھانے کی نوبت نہ آئی تھی، اب تو یکا یک سنگ باری ہورہی ہے، بارش کے موٹے موٹے قطرے نہیں بلکہ برف باری بھی ہورہی ہے، ہر طرف سے ایسا لگتا ہے کہ تیر و نشتر پھینکے جارہے ہیں، رزم گاہ سجی ہوئی ہے اور ایک تنہا سپاہ لاتعداد دشمنوں سے نبردآزما ہے، ڈھال پے در پے حملے برداشت نہیں کر پارہے ہیں، تلوار کی چمک ماند پڑ رہی ہے، بھالے ٹوٹ رہے ہیں، برچھے کند ہورہے ہیں، اب بے چارہ جسم کتنا برداشت کرے گا؟ اے میرے عزیز! ساری دنیا ایک طرف ہم تو اللہ کے سامنے سر بسجود ہوگئے؛ کیونکہ اسی جانب ایک روشنی نظر آئی، شب دیجور میں چَم چَم چمکتا جگنو دکھا، چنانچہ تیرے غم کو سینے میں دفن کردیا، تیرے معصوم تصویر کو دل میں بسالیا اور رب کریم کی ذات میں کھونے، اس سے لو لگانے اور چہ مہ گوئیاں کرنے کی کوشش کر نے لگے؛ لیکن اس احساس کا کیا کریں جو رہ رہ کر تیرے پرنور چہرے کی جانب مڑ جاتی ہے، پھولوں سا نرم و گداز ہاتھ پاؤں اور چشمہ صافی کے مثل صاف ستھرا بدن، گلاب کی قبا اور پنکھڑی سے بھی عمدہ خوبصورت اور خوشنما چہرہ، آنکھیں نور، پلکیں کمان، پیشانی وسعت افلاک، قد دل ربا، ساخت جاں ربا اور پاک دل کا لمس محسوس کرتی ہے-

تیرا چہرہ کتنا سہانا لگتا ہے

تیرے آگے چاند پرانا لگتا ہے

 

[email protected]

7987972043

Comments are closed.