قاسمی اور قاسمیت کا فرق

 

تحریر : مسعود جاوید

ایک صاحب نے اپنا وزٹنگ کارڈ دیا جس میں ان کے نام کے ساتھ قاسمی کا لاحقہ بھی تھا۔ میرے دوست نے کہا ماشاءاللہ اور ویسے کس سنہ کی آپ فراغت ہے میں وہاں ٩٥ تک تھا تو انہوں نے کہا دراصل میرے دادا جان قاسمی تھے ان کی طرف نسبت ہے۔
اسی دوران میرے دوست نے بتایا کہ بعض لوگ وہاں حفظ کرتے ہیں وہ بھی قاسمی لکھتے ہیں لیکن مسئلہ مسائل کی کہیں بات نکلتی ہے وہاں پھنس جاتے ہیں۔

قاسمیت دراصل علوم قاسمیہ، مزاج قاسمی اور مشرب حاجی امداد اللہ مہاجر مکی ، مولانا قاسم نانوتوی، مولانا رشید احمد گنگوہی ، شیخ الہند مولانا محمود حسن ، مولانا عبیداللہ سندھی، مولانا انور شاہ کشمیری، مولانا حسین احمد مدنی اور قاری محمد طیب رحمہم اللہ کا نام ہے۔ جو لوگ گرچہ ضابطہ کے حساب سے دارالعلوم دیوبند سے سند فضیلت حاصل کۓ ہیں مگر علوم قاسمیہ اور مزاج قاسمی کے امین نہیں ہیں وہ ڈگری کے اعتبار سے ” قاسمی” ہیں مگر قاسمی نہیں ہیں۔ اخلاقا انہیں قاسمی کا لاحقہ نہیں لگانا چاہیے۔
اور وہ سب دیوبندی ہیں جو علوم قاسمیہ اور مزاج قاسمی کے متبع اور اس سے متفق ہیں خواہ انہوں نے بلا واسطہ دارالعلوم دیوبند میں تعلیم حاصل کی ہو یا نہ کی ہو۔

آخری نمونہ اسلاف قاری محمد طیب صاحب نوراللہ مرقدہ تھے جنہوں نے دارالعلوم دیوبند کو ہر قسم کے نام و نمود اور انتخابی سیاست سے پاک رکھا۔ انہوں نے کبھی اپنے ادارہ کے کسی شخص کو بنام دارالعلوم کسی بھی سیاسی پارٹی کی حمایت یا مخالفت کی اجازت نہیں دی۔ ویسے تو سیاسی جماعتوں کے سربراہان خود بھی دارالعلوم کے اس مزاج سے واقف تھے اس لئے آتے نہیں تھے لیکن اگر کوئی آیا بھی تو اسے اتنا ہی آشیرواد دیتے کہ ملک اور قوم کی خدمت اور صحیح رہنمائی کرنے میں اللہ آپ کا مددگار ہو۔

"نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پرواہ”. نہ کسی حکومت کی امداد مبادا وہ دخل دے، نہ سیاسی اثر و رسوخ کی معرفت کوئی زمین جائداد حاصل کرنا تھا نہ راجیہ سبھا کی رکنیت ، نہ سی بی آئی اور ای ڈی کا ڈر، اور نہ کسی قسم کی سرکاری مراعات کی تمنا۔
یہی تو لکھا تھا بانی دارالعلوم دیوبند مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ نے دارالعلوم دیوبند کے دستور اساسی اصول ہشتگانہ میں : ” اخراجات کے لئے نہ حکومت کی سرپرستی حاصل کی جاۓ اور نہ کسی نواب اور زمیندار کی ضمانت۔ اس کے برعکس توکل علی اللہ اور عام مسلمانوں سے دامے درمے چندہ، چند روپے، مٹھی بھر گیہوں چاول وغیرہ جو مل جائے اور رجوع الی اللہ ” ۔

دارالعلوم دیوبند کا مطمح اساسی دین اسلام اور اس کی شریعت مطہرہ کی حفاظت اور مسلمانان ہند کو اس سے آراستہ کرنا تھا۔ چنانچہ کبھی غیر ملکی عرب و مسلم رہنماؤں اور عوام کو متاثر کرنے کے لئے کوئی ایسا کام نہیں کیا۔ ہاں افغانستان کے طلباء یہاں تعلیم حاصل کرتے تھے اس لئے شاہ افغانستان محمد ظاہر شاہ سے رابطہ رہا۔

دارالعلوم دیوبند اور اس کے متعلقین کی تصنیفات کے مخاطب چونکہ مسلمانانِ بر صغیر ہند تھے اس لئے وہ اردو میں رہیں ان کے عربی تراجم کرا کر عرب ممالک میں نہیں بھیجی گئیں ۔ عرب ممالک کے وفود کا آنا بھی شاذونادر ہوا کرتا تھا۔ دینی معاملات اور فقہی مسائل میں اپنے اصول پر قائم رہا اور مرجع قرآن مجید اور احادیث مبارکہ رہیں نہ کہ جامعہ ازہر مصر یا سعودی علماء۔
مسلکی معاملات میں خط اعتدال کو تجاوز کرنے کے حق میں نہیں تھے، اشاعت مسلک کی بجائے فروغ دین پر محنت پر زور دیتے تھے۔ اپنے دور اہتمام میں بہت سے نشیب و فراز انہوں نے دیکھا لیگی کا "خطاب” سے نوازا گیا ، کانگریس مخالف کہا گیا لیکن وہ سینہ سپر رہے اپنے اصول پر ڈٹے رہے نہ خود جھکے اور نہ دارالعلوم کو جھکنے دیا اور اس کی ان کو بہت بڑی قیمت چکانی پڑی۔

Comments are closed.