پہلے کشمیر اب لکشادیپ …. بھارت کو بھگوا رنگ میں رنگنے کی پوری تیاری!

احساس نایاب ( شیموگہ، کرناٹک )
جنت نشاں کشمیر سے 370 اور 35 اے کو ہٹانے کے بعد اب بی جے ہی کی زہریلی نظر لکشادیپ جیسے خوبصورت جزیرے پہ پڑچکی ہے ملک میں کورونا اور لاک ڈاؤن کی آڑ میں حکمران جماعت کی جانب سے عوام کی بےبسی کا خوب فائدہ اٹھایا جارہا ہے ، دراصل بی جے پی بخوبی جانتی ہے کہ کورونا اور لاکڈآؤن کے چلتے ہر انسان ذہنی طور پہ بےبس و لاچار ہوچکا ہے اور چاہتے ہوئے بھی وہ حکومت کے غلط فیصلوں کی مخالفت میں سڑکوں پہ نہیں اتر سکتا نہ ہی کھُل کر مخالفت کرتے ہوئے اپنے غم و غصہ کا اظہار کرسکتا ہے اگر کسی نے یہ جرات کر بھی دی تو اُس کو اینٹی نیشنل بتاکر سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جائے گا ۔۔۔
یہی وجہ ہے کہ آج غلط ہوتا دیکھ کر بھی عوام برداشت کررہی ہے خون کے گھونٹ پی رہی ہے ۔۔۔۔۔ اور اس موقعہ کو غنیمت مان کر آپدا میں اووسر تلاش کرنے والی بی جے پی سرکار ایک کے بعد ایک اپنے گندے مقاصد کامیاب کرنے میں لگی ہوئی ہے ۔۔۔۔۔۔ جس کے چلتے مسلم اکثریتی علاقے لکشادیپ میں 5 دسمبر 2020 کو نئے ایڈمنسٹریٹر بن کے آئے گجراتی پرفول کھوڈا پٹیل کے ذریعہ اس جزیرہ میں غیر ضروری اور متعصبانہ قوانین تھوپنے کی کوشش کی جارہی ہے جس کی مخالفت میں سوشیل میڈیا سے لے کر ملک و بیرونی ممالک سے بھی مخالفت کی آوازیں گونج رہی ہیں اور خود کئی تجزیہ کاروں، سوشیل ایکٹویسٹ، فلمی اداکاروں و سیاستدانوں نے ان قوانین کو لکشادیپ اور وہاں کی آبادی کے لئے خطرناک بتایا ہے ۔۔۔۔۔
دراصل یہ 4 قوانین ہیں ( ایل، ڈی، آر ) ؛ ( غنڈہ ایکٹ ) ؛ ( پنچایت نوٹفکیشن ) اور ( بیف بین ) ……
( ایل ڈی آر ) یعنی ( لکشادیپ ڈیولپمنٹ اتھارٹی رگیولیشن ) اور اس قانون سے سیدھا فائدہ وہاں کے ایڈمنسٹریٹر کو پہنچے گا کیونکہ اس قانون کے ذریعہ ایڈمنسٹریٹر کو پورا اختیار ہوگا کہ وہ ترقی کے نام پہ کسی بھی فرد کو اُس کی ذاتی زمین سے کبھی بھی ہٹا سکتا ہے بھلے وہ وہاں کتنے ہی عرصے سے کیوں نہ مقیم ہو ۔۔۔۔ اس قانون کے تحت آپ کا آپ کی اپنی زمین، ملکیت پہ کوئی اختیار نہیں ہوگا ۔۔۔۔۔
دوسرا ۔۔۔ غنڈہ ایکٹ ( پی، اے، ایس، اے ) ” The prevention of Anti Social Act ” اور یہ قانون جنوری 2021 سے ہی نافذ کیا جاچکا ہے ۔۔۔ کہنے کے لئے تو اس قانون کا مقصد ہے کہ جو بھی غلط کام کریں گے یعنی اینٹی سوشیل ایکٹوٹی میں ملوث پائے جائیں گے ان کے خلاف یہ قانون استعمال کیا جائے گا اور اس قانون کے تحت ایک سال کے لئے کسی کو بھی گرفتار کرکے جیل میں قید بھی کیا جاسکتا ہے جبکہ گذشتہ 7 سالوں کے درمیان اکثر یہی دیکھا گیا ہے کہ حکمران جماعت ان قوانین کی آڑ مین بےقصور نوجوانوں پہ جھوٹے و بےبنیاد الزامات لگا کر انہیں گرفتار کرتی آرہی ہے اور اب یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ مستقبل میں ان ظالمانہ و جابرانہ قوانین کی زد میں لکشادیپ کے مسلم نوجوان ہوں گے ۔۔۔۔۔
تیسرا قانون ہے ( ڈرافٹ پنچایت نوٹفکیشن ) اس کے تحت جو بھی پنچایت کا ممبر ہوگا اُس میں اگر کسی کے بھی دو سے ذائد بچے ہوں گے تو وہ نااہل قرار دیا جائے گا یعنی وہ انتخابات نہیں لڑسکتا نہ ہی پنچایت ممبر بنا رہ سکتا ہے ۔۔۔۔ محض ستر ہزار آبادی والے اس جزیرے میں اس طرح کا قانون پچکانہ لگتا ہے ۔۔۔۔۔۔
اب رہا چوتھا ( بیف بین ) جہاں 90 فیصد سے ذائد مسلم آبادی ہے جن کی غذا میں مچھلی کے ساتھ ساتھ گوشت شامل ہے وہاں ( بیف بین ) گائے کے گوشت کو غیرقانونی قرار دے کر شراب پہ لگی پابندی کو ہٹانا شراب خانے کھولنے کی اجازت دینا بیشک یہ جان بوجھ کر ایسی جگہ کا ماحول بگاڑنے کی کوشش ہے جہان سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جرائم کی شرح نہ کہ برابر ہے لیکن افسوس مسلم مخالف اور ہندوتوا کے چلتے پورے بھارت کو جبرا بھگوا رنگ میں رنگنے کی کوشش کی جارہی ہے یہاں تک کہ
( Lakshdweep Animal Preservation Regulation ) ۔۔۔۔
کے تحت کوئی انسان ڈائریکٹ جانوروں کی خرید وفروخت نہیں کرسکتا یہاں پہ بھی ایڈمنسٹریٹر کے پاس مکمل اختیار ہوگا کہ وہ سیز کرسکتا ہے اور مجرم قرار دئے جانے والے شخص کو دس سال تک کی سخت جیل ہوسکتی ہے ساتھ ہی پانچ لاکھ کا جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے ۔۔۔۔۔
یہی وجہ ہے کہ سوشیل میڈیا سے لے کر ہر جگہ ان قوانین کی مخالفت کی جارہی ہے ٹوئٹر پہ ” سیو لکشادیپ کا ٹرینڈ چلایا گیا ، لکشادیپ کی عوام کے ساتھ ساتھ کیرلا میں بھی لگاتار کئی دنوں سے پرامن احتجاجات کئے جارہے ہیں ، جانی مانی ہستیوں سے لے کر فلمی اداکار، سوشیل ایکٹویسٹ اور سیاستدان خود ان قوانین کی مخالفت کرتے ہوئے آگے آرہے ہیں اور ان میں کئی مخالفین خود بی جے پی سے ہیں ۔۔۔۔۔۔
اسی درمیان حال ہی میں لکشادیپ کی فلمساز عائشہ سلطانہ نے میڈیا کے آگے ان قوانین کے خلاف آواز اٹھائی اور انصاف کا مطالبہ کیا، پرفول پٹیل پہ یہ بھی الزام لگایا کہ انہیں کی وجہ سے لکشادیپ میں کورونا پھیلا ہے ورنہ پچھلے سال جہاں سارا بھارت کورونا سے جوج رہا تھا وہیں لکشادیپ کورونا سے مکمل پاک تھا یعنی وہاں پہ کورونا کا ایک بھی کیس نہیں تھا لیکن پٹیل کی لاپرواہی و غلط فیصلوں کی وجہ سے آج 60 سے ذائد کورونا کیسس موجود ہیں، 24 سے ذائد کی موت ہوچکی ہے اور اس پہ سوال کرنے انصاف کی مانگ کرنے پہ عائشہ سلطانہ کے خلاف بی جے پی کے سربراہ کی ایک شکایت کے بعد لکشادیپ پولس نے عائشہ سلطانہ پر پرفول کھوڈا پٹیل کے متعلق ان کے تبصرے کو بنیاد بناکر ان پر ملک بغاوت کا مقدمہ تک درج کردیا ہے اور یہ آزادی اظہار رائے پہ سرکار کا حملہ ہے اور اس طرح سے سچ کہنے والوں، معاشرہ کے پسماندہ طبقے کی نمائندگی کرنے والوں کو خاموش کرنے کی سازش ہے ۔۔۔۔۔
دراصل گجرات میں جب مودی سرکار تھی اُس وقت یہی پرفول پٹیل وہاں وزیر داخلہ کی حثیت سے رہ چکے ہیں اور یہ مودی کے بہت قریبی مانے جاتے ہیں ۔۔۔۔۔
گذشتہ سال ان پہ ڈی کپمنی یعنی داؤد کے ساتھ جڑے رہنے کا بھی الزام ہے ، داؤد کا خاص اقبال میمن عرف اقبال مرچی کے ساتھ ان کے کاروباری تعلقات عروج پر تھے جس کے چلتے ان پہ "ای ڈی” کی طرف سے سمن بھی جاری کیا گیا تھا ۔۔۔۔۔
اتنا ہی نہیں پروفل پٹیل پہ موہن دیلکر کو خودکشی کے لئے اکسانے کا بھی الزام ہے، موہن دیلکر جو ایک جہدکار کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں ساتھ ہی وہ سانسد بھی رہ چکے ہین اور یہ ہمیشہ آدواسیوں کے حقوق کے لئے جدوجہد کرتے رہے موہن ڈیلکر نے خودکشی سے قبل ایک خودکشی نوٹ لکھا ہے جس میں پرفول پٹیل کا نام بھی شامل ہے ، موہن ڈیلکر کی بیوی اور بیٹے ابھیناؤ ڈیلکر کا الزام ہے کہ پرفول پٹیل ان کے والد کو بلیک میل کررہے تھے اور انہیں اتنا پریشان کیا کہ اُن کے والد کو مجبورا خودکشی کرنی پڑی اسی طرح کے کئی تنازعہ میں پروفل پٹیل کا نام شامل ہے ۔۔۔۔۔۔
اور ایسی ہی متنازعہ شخصیات کو بی جے پی، آر ایس ایس اپنے گندے مقاصد کو انجام دینے کے لئے مہرے کی طرح استعمال کرتی ہے اور اب بی جے پی کے اشاروں پہ لکشادیپ جیسے دلکش جزیزے کی خوبصورتی وہاں کی ثقافتی شناخت اور طرز زندگی کو تباہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ملک کو ہندوتوا کی جانب لے جایا جارہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔
ایسے میں اگر آج ہم اور آپ اس خوبصورت جزیرے اور وہاں کے لوگو کے ساتھ کھڑے نہیں ہوئے ان کے حق میں آواز نہیں اٹھائی تو عنقریب ہمارے گھر ہماری زمین جائداد حتی کے ہماری اولاد بھی یہاں محفوظ نہیں ہوگی ۔۔۔۔۔۔
کیونکہ یہ گدھ ہیں جن کے خونی پنجوں میں جکڑا ہمارا وطن عزیز ہے،
اگر وقت رہتے ان گدھوں کو روکا نہیں گیا تو یہ سب کو نوچ کھائیں گے ۔۔۔۔۔۔۔
Comments are closed.