موجودہ اقتدار میں تعلیم اور معیشت

صبغت اللہ قاسمی
کورونا وبا کو پھیلے ہوئے ڈیڑھ سال کا عرصہ گزر چکا ہے. اس دوران کتنی ہی جانیں مٹی تلے دفن ہوگئیں، کتنے ہی گھر اجڑ گئے۔ کتنے بچے یتیموں اور عورتیں بیوہ ہوگئیں ، جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے . اس پر مستزاد ایک غیر منظم لاک ڈاؤن کی وجہ سے کتنا کٹھن وقت ملک کی معیشت پر گزرا ، یہ سب کے سامنے عیاں ہے . نیز ملک میں بے روزگاری ، مہنگائی اور کالابازاری کا جو بحران سامنے آیا ہے اس کے سب سے زيادہ شکار اوسط درجے کے شہری ہیں اور غریب مزدور طبقہ اس کی وجہ سے اب تک مصیبت و ابتلاء سے پر زندگی جینے پر مجبور ہے۔
اس کے علاوہ ملک کے حاکم اور ان کے کارکنوں نے جو نفرت کی وبا پھیلائی ہوئی ہے اس نے تو ملک کی سالمیت کو بھی داؤ پر لگادیا ہے۔
اب تقریبًا ڈیڑھ سالہ طویل عرصے بعد حالات معمول پر آنے لگے ہیں ، معمولات زندگی سے وابستہ تمام شعبے پٹری پر آرہے ہیں۔ بازار ، فیکٹریاں ، کمپنیاں سب ہی کھل چکے ہیں۔ الغرض تعلیمی اداروں کے علاوہ تقریبا تمام وہ محکمے کھل چکے ہیں ، جن سے خصوصی طور پر برسر اقتدار پارٹی کو معاشی ، تکنیکی اور سیاسی فائدہ پہنچتا ہے۔ چوں کہ روز اول ہی سے حکومت کی ترجیحات میں صرف اور صرف اپنا مفاد شامل ہے۔ ان کے تمام عوامل صرف اپنی ترجیحات سے وابستہ ہیں، اور اس راہ میں حائل ہونے والا طبقہ اگر کوئی ہے تو وہ انہیں تعلیمی اداروں سے منسلک افراد ہیں۔ اسی لیے حکومت کی حتی الامکان کوشش یہ ہے وہ ان تعلیمی اداروں پر قفل بندی کر دے، یا ان میں وہ تعلیمی زوال پیدا کردیا جائے ، کہ وہ آواز اٹھانے کے قابل بھی خود کو نہ سمجھیں، یا پھر کم از کم ایسا نظام تعلیم مارکیٹ میں اتارا جائے جو ان کے مفاد میں بہتر ثابت ہو سکے۔ چنانچہ اسی کی ایک کڑی ۲۰۲۰ کا تعلیمی نصاب بھی ہے,( جس کے ذریعے ملک کے تعلیمی نصاب کو برہمن واد پر مشتمل کتب سے تبدیل کر کے ملک کو ایک نئی جہت پر لیجا نے کوشش جاری ہے)
اگر حکومت اپنی عوام کے تئیں فکر مند ہوتی، اور آئندہ نسل کے تئیں سنجیدہ ہوتی تو سب سے پہلے تعلیم کے مسائل پر توجہ دیتی، بالفرض اگر کم سن بچوں کے تئیں کورونا بیماری کا خوف ہے ،”جیسا کہ دہلی حکومت کہتی ہے”، تو بڑے ادارے اور یونیورسٹیوں کو تو کھولنے کی اجازت ملنی ہی چاہیے تھی ، مگر یہ پارٹی جس نفرت و عداوت کا کارڈ کھیل کر حکومت کی کرسی پر براجمان ہوئی ہے، اور آئندہ بھی اسی ”لڑاؤ اور حکومت کرو“ کے ایجنڈے کا استعمال کر کے اس کرسی اقتدار پر قابض رہنا چاہتی ہے. ان کے اس راہ میں رکاوٹ بننے والے افراد اسی تعلیم سے وابستہ افراد ہیں، ان کی اس مذموم راہ میں سد سکندری بن کر حائل ہونے والا وہی طبقہ ہے جو ملک کے مستقبل کو لیکر فکر مند ہے، یہی وہ افراد ہیں جو ان کی آنکھوں میں چبھنے والا خاردار درخت کی حیثیت رکھتے ہیں۔
چنانچہ جیسا کہ پارٹی کا یہ دستور رہا ہے جو ان کے خلاف آواز بلند کرے، اسی کی زندگی داؤ پر لگا دی جاتی ہے، لہذا اسی اصول پر کاربند موجودہ فاسشٹ حکومت عوام کو تعلیم سے دور رکھنا چاہتی ہے، تا کہ ان کو غلام بنانے کے مذموم مقاصد میں کامیابی حاصل کر سکے۔
یہ برہمن واد حکومت اس ترقی پزیر ملک کو صدیوں سالہ قدیم ہندوستان بنانا چاہتی ہے، جہاں ایک ایسا نظام قائم تھا جو صرف برہمن خاندان کے لیے ہی سودمند تھا، حکومت ان کا خاندانی حق تھا، تعلیم پر صرف ان ہی کی اجارہ داری تھی، انہیں میں ایک طبقہ وہ بھی تھا جو انسان کے بجائے جانور کہلائے تو بیجا نہ ہوگا، یہ فاسشٹ طاقتیں ملک کو اسی تاریک نظام پر لانا چاہتی ہیں۔۔۔
مگر سوال یہ ہے کہ حالیہ حکومت کیا اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب ہو جائے گی؟ کیا اب جب کہ ہر طبقہ اپنی حیثیت اور اپنے مقام و مرتبت کو بہ خوبی جانتا ہے، اور ہر شخص اپنی آزادانہ زندگی کو ترجیح دیتا ہے،کیا ایسے ملک کے باشندوں کو غلام بنانا آسان ہوگا؟ اس کا جواب کیا آئے گا ، یہ تو آنے والا وقت ہی طے کرے گا۔
Comments are closed.