آج کا نوجوان اور سوشل میڈیا

 

طاہرہ لیاقت خوشاب

مشہور محاورہ ہے کہ:”ضرورت ایجاد کی ماں ہے”۔دورِ حاضر کی جتنی بھی ایجادات ہیں یہ سب کسی نہ کسی ضرورت کے تحت ہی ایجاد ہوئی ہیں۔ جیسے جیسے انسان کی ضروریات بڑھتی گئیں ویسے ویسے ان کو پورا کرنے لیے اس نے مختلف قسم کی ایجادات بھی کیں۔زمانہ قدیم میں لوگ ایک دوسرے سے ملنے ، دیکھنے اور بات کرنے کے لیے سفر کیا کرتے تھے ۔پیغامات بھیجنے کے لیے خطوط کا استعمال کیا جاتا تھا۔مگر جیسے جیسے انسان نے ترقی کی تو یہ فاصلے سمٹنے لگے اور زندگی آسانیوں کی طرف رواں دواں ہوئی۔پہلے تاروں کے ذریعے پیغامات کی ترسیل ہوتی تھی پھر ڈاک کا نظام میں جدت آتا گیا اور اس کے بعد ٹیلیفون کا دور آیا اور اب موبائل فون سے رابطے لمحوں کا کام بن چکا ہے۔

یہ چھوٹا سا موبائل فون اس قدر ترقی کر گیا کہ پوری دنیا کی ضرورت بن چکا ہے۔ اینڈرائیڈ موبائل آنے کے بعد ہر شخص کی رسائی سوشل میڈیا تک ممکن ہوئی۔جدید ٹیکنالوجی کے جہاں فائدے انگنت ہیں اور اس کے استعمال سے پہنچنے والے نقصانات سے صرف نظر ممکن نہیں،سوشل میڈیا کے مثبت پہلو بھی ہیں اور منفی بھی، استعمال کرنے والے پر منحصر ہے کہ وہ اس کا استعمال کیسا کرتا ہے۔

سب سے پہلے تو ہمیں اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ اسلام ہمیں ہر معاملے میں میانہ روی کا درس دیتا ہے،بعض مرتبہ اچھی اور مفید سرگرمیوں کے نتائج بھی منفی آجاتے ہیں چونکہ نوجوان نسل کا خون جوشیلہ ہوتا ہے یہ ہر وقت نئی سے نئی چیز کی کھوج میں رہتا ہے۔ہر لمحے تبدیلی چاہتا ہے، یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا کا کوئی بھی ایپ ہو وہ نوجوان نسل کو ہی اپنا ٹارگٹ بنا کر ایپ کو ڈیزائن کرتے ہیں تا کہ نوجوان نسل ان کی بنائی گئی چیز میں توجہ دیں۔

سوشل میڈیا کی بات کی جائے تو اس کا استعمال اس قدر عام ہو چکا ہے کہ کوئی بھی اس سے محفوظ نہیں رہا۔خواہ وہ بچے ہوں یا بڑے، خواتین ہو مرد، کاروباری افراد ہوں طلباء ، ملازمت پیشہ ہو یا کسان اور ظاہر ہے کہ چاہے کوئی بھی طبقہ ہو یا کسی بھی عمر کا انسان ، جہاں سوشل میڈیا سے فائدے حاصل کیے جا رہے ہیں وہاں نقصان بھی حصے میں پہنچ ہی رہے ہیں۔ اگر ہم اس کے مثبت استعمال کو دیکھیں تو ہمارے سامنے بہت سی ایسی مثالیں ہیں کہ جو یہ ثابت کر رہی ہیں کہ یہ سوشل میڈیا کس حد تک بہتر ہے۔خاص طور پہ کووڈ کے اس دور میں سوشل میڈیا ہر میدان میں بہت زیادہ مددگار ثابت ہوا ہے خواہ وہ تعلیم کا شعبہ ہو یا طب کا ، آن لائن کاروبار ہو یا ملازمت پیشہ افراد ، ہر شعبے سے وابستہ افراد نے سوشل میڈیا سے استفادہ کیا ہے۔کرونا وائرس کی وجہ سے لوگوں کا ملاپ تو ختم ہوا مگر میڈیا کے ذریعے ہر طرح سے رابطے میں رہے۔تعلیم کی بات کی جائے تو الحمد للہ وہ بھی کسی نہ کسی طرح جاری رہی۔لوگوں کو آنلائن کاروبار کے بہت سے ایسے مواقع فراہم کیے گئے جو ان کے لیے نہایت مفید ثابت ہوئے۔ہماری نوجوان نسل کا ان سب میں بہت بڑا دخل ہے۔میرے ذاتی مشاہدے کے مطابق پینڈیمک کی اس صورتحال میں سب سے زیادہ فائدہ اہلِ قرآن اور اہلِ ادب نے اٹھایا ۔ بہت سے لوگوں نے گھر فارغ بیٹھنے کی وجہ سے قرآن کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی، بلاشبہ یہ ایک مثبت پہلو ہے۔سوشل میڈیا پر ہی لوگوں نے کتابوں سے اپنا تعلق جوڑا اور مختلف موضوعات پر لکھنے کے لیے قلم کا استعمال سیکھا۔جن میں میں خود بھی شامل ہوں الحمد للہ۔ فوائد تو اس کے بہت زیادہ ہیں

مگر دوسری جانب دیکھا جائے تو سوشل میڈیا کے نقصانات بھی کچھ کم نہیں۔

سوشل میڈیا کے غلط استعمال سے نوجوان نسل نہ صرف بے راہ روی کا شکار ہو رہے ہیں بلکہ وہ جرائم کی طرف بھی مائل ہو رہے ہیں۔نوجوان طبقہ اپنا زیادہ وقت اس کو استعمال کر نے میں گزارتا ہے جس کی وجہ سے ان کی ذاتی زندگی میں کچھ ایسی خلا پیدا ہوجاتی ہے کہ جن کا پر ہونا ناممکن ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے بہت سے تنازعات جنم لیتے ہیں۔سوشل میڈیا کے زیادہ استعمال سے نہ صرف ہماری صحت پر منفی اثر ہوتا ہے بلکہ ہماری روزمرہ کی زندگی پر بھی بہت منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔انسان اعصابی تناؤ کا شکار ہو جاتا ہے ۔ بہت سے نوجوان صرف اپنا وقت اچھا گزارنے کے لیے لوگوں سے رابطے قائم کرتے ہیں مگر بعد میں پھر یہی رابطے ان کی ازدواجی زندگی پر بہت بری طرح اثر انداز ہوتے ہیں۔خاص طور پہ لڑکیوں کے لیے یہ چیز بہت نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ ماضی کے ان تعلقات کی وجہ سے ان کے گھر نہیں بستے جس کی وجہ سے اپنے ساتھ ساتھ وہ اپنے ماں، اپ کی رسوائی کا باعث بن جاتی ہیں۔زیادہ خطرناک بات وقت کا ضیاع ہے جس کا شکار اس وقت ہر دوسرا شخص بن چکا ہے اور جو لوگ زیادہ استعمال کرتے ہیں وہ حقیقت میں بہت زیادہ ناخوش اور اکیلے ہوتے ہیں اور وہ ان سب سے چھٹکارا پانے کے لیے ایسا کرتے ہیں۔

ویسے تو سوشل میڈیا کی مختلف ایپس کو استعال کیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں نوجوان نسل فیس بک اور ٹک ٹاک کا بکثرت استعال کرتے ہیں۔سوشل میڈیا کے استعمال سے بہت سے لوگ نفسیاتی عوارض کا شکار ہو کر ڈپریشن اور حسد میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ یونیورسٹی آف کوپن ہیگن کی جانب سے فیس بک کے استعمال پر ریسرچ کی گئی۔اور اس میں 1095 افراد کو شامل کیا گیا، جس میں سے نصف کو فیس بک کے استعمال سے روکا گیا اور نصف کو اس پہ لاگ ان کرنے کی اجازت دی گئی۔ آخر میں نتیجہ یہ سامنے آیا کہ جو لوگ فیس بک سے دور تھے ان میں خوش ہونے کا عنصر زیادہ موجود تھا اور ترقی کا بھی جبکہ سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں میں افسردہ رہنے اور حسد کا عنصر زیادہ مو جود تھا۔تحقیق کار مارٹن ٹروم ہالٹ نے کہا کہ جو لوگ اس کا زیادہ استعمال کرتے ہیں وہ دوسرے لوگوں کی خوشیوں کے بارے میں پڑھ کر ناخوش اور حسد کرنے لگتے ہیں جس سے وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ میڈیا کا زیادہ استعمال نوجوانوں پر بہت گہرے اور خطرناک اثرات رونما کر رہا ہے۔اس سے بے باکی اور بے حیائی بھی عام ہو رہی ہے۔ جو کسی بھی معاشرے کے لیے زہر سے کم نہیں۔لہذا ہمیں سوشل میڈیا کے مثبت اور منفی دونوں پہلوؤں کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ اب یہ ہم پہ منحصر ہے کہ ہم اس کا کیسے استعمال کرتے ہیں۔آیا سوشل میڈیا کواپنے لئے جہنم کا ایندھن بنانا ہے یا پھر اس کے ذریعے کچھ ایسا کیا جائے جس سے معاشرے کی اصلاح ممکن ہو تا کہ ہماری یہ سرگرمیاں ہمارے لئے صدقہ جاریہ ثابت ہوسکیں۔ اللہ پاک ہم سب کو اس کے غلط استعمال سے محفوظ فرمائے۔آمین ثم آمین

Comments are closed.