داستان گوشہ جگر – – -!! (٢)

 

محمد صابر حسین ندوی

 

ہر اک قدم اجل تھا ہر اک گام زندگی

ہم گھوم پھر کے کوچۂ قاتل سے آئے ہیں

ے میرے عزیز! وہ دن بھی کیا خوب تھا، نیلگوں آسماں، صبح نو کی سرسراتی ہوائیں، امیدوں کی چٹکتی کلی، دل کے کھلتے پھول، ہلکی ہلکی بارش اور پرلطف فضاؤں کا دور تھا کہ تمہاری والدہ نے ٦/٦/٢٠٢١ ء کی رات سہ پہر سے ہی درد زہ برداشت کرنا شروع کردیا تھا، لاک ڈاؤن اور پابندیوں کے بیچ تمہیں اسپتال لے جایا گیا، گھر کے سارے افراد جگ چکے تھے، لبوں پر مسکراہٹ تھی، چہروں پر بشاشت اور پیشانیاں دمک رہی تھیں، ماتھے پر چمکتی چاندنی مسرت کا پیغام دے رہی تھی، ساتھ ہی جلد بازی، افراتفری بھی عجیب تھی، ماحول کی نزاکت کا تقاضہ بھی یہی تھا، پھر بھی تمہیں تمام حالات کے دوران لے جایا گیا، اپنی ماں کے ساتھ تم نے بھی اس دنیا کی رعنائی دیکھنے کے خواب بنے، عالم رنگ و بو کی شوخی دیکھنے اور ماں بابا کی انگلیاں تھامنے، زمانے کی رنگینیوں میں سیر کرنے کی تمنا پالی، یہ تو ہونا ہی تھا تم نے نو ماہ انتظار جو کیا تھا؛ ویسے بھی انتظار کی گھڑیاں خود پہاڑ ہوتی ہیں، تم اس پہاڑ کو سر کرنا چاہتے تھے، اطباء و ماہرین بھی کہتے تھے کہ بچہ صحت مند اور پرجوش ہے، اندرون شکم کی حرکتیں بہت کچھ کہتی ہیں، مگر لاکھ کوششوں کے بعد بھی رب ذوالجلال کی مرضی نے تمہیں روکے رکھا، تمہاری والدہ درد زہ سے ٹوٹتی جارہی تھی، جوں جوں وقت گزرتا تھا تکلیف کی شدت اور تمہیں آغوش میں لینے کی خواہش دوچند ہوئی جارہی تھی، اطباء کا کہنا ہے کہ اس خیر خواہی نے تمہیں آزمائش میں ڈال دیا، مادرد رحم میں زندگی کیلئے کشمکش نے تمہیں چوٹ پہنچا دی، تمہارا سر زخمی ہوگیا، بلکہ سر کا پچھلا حصہ متورم ہوگیا، (بعض خواتین اسے جوڑا بن جانا کہتی ہیں اور بتاتی ہیں کہ زمانہ ماضی میں اسی بنا پرزچہ کی وفات ہوجایا کرتی تھی) داہنے ہاتھ پر بھی چوٹ آئی، داہنی آنکھ کے پپوٹے بھی سیاہ ہوگئے، مگر تم نے زندگی کا شوق نہیں چھوڑا، امنگ میں کوئی کمی نہ آئی، خدوخال پر کوئی اثر نہ ہوا، جسمانی قوت پر کوئی برا تاثر نہ پڑا، مگر کانوں نے وہ بات سن لی جس سے سبھی کے دل لرز رہے تھے اور اذہان خدشات میں مبتلا تھے، ہر کوئی اس لمحے سے گریز کرنا چاہتا تھا، تو وہیں ڈاکٹروں کے تعلق سے بعض اندیشے بالخصوص ہندوستانی ماحول، زعفرانی پرچم، مسلم مخالف سیاست اور مسلمانوں کی نااہلی نے بھی پیدا کردیئے ہیں، جو دل میں رَچ بَس گئے ہیں، ہمیں پھر سننا ہی پڑا کہ بڑے آپریشن کے بغیر کام نہ بنے گا، مرتا کیا نہ کرتا! والی مثال آنکھوں کے سامنے تھی، ہر ایک ڈاکٹروں سے التجا، منت و سماجت کر رہا تھا، ہر قیمت پر سادہ اور سہل راہ منتخب کرنے کی گزارش ہورہی تھی، مگر جب کچھ نہ بنا تو سبھی تیار ہوگئے؛ لیکن اب بھی رب ذوالجلال کی کرم فرمائیوں کا انتظار تھا، رحمت الہی کی توجہ کا طالب تھا، ہر کوئی کہتا تھا کہ سب نارمل ہوجائے گا، گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، صبر کیجئے! دعا کیجئے! تمہارے بابا نے اس دوران مصلی بچھایا اور دعائیں شروع کردیں، تمہارے بابا مولوی جو ٹھہرے اسے تو ہر درد کی دوا اللہ کی جانب رجوع اور مصلے پر ہی نطر آتی ہے، لوگوں کی اٹھتی نگاہیں تو یہی کہتی تھیں، ہم نے تو یہی کتابوں میں پڑھا، سیرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ میں پایا، جب نبی پاک علیہ الصلاۃ والسلام پر کوئی مصیبت آتی تو آپ نماز کی طرف لپکتے تھے گویا سارا خیر اسی میں پوشیدہ ہے –

طبیب حاذق نے پھر تمہاری والدہ کا معاینہ کیا، معاملہ نازک ہوتا جارہا تھا، بات ہاتھ سے نکلتی جارہی تھی، وقت ریت کی طرح مٹھی سے پھسلتی جاتی تھی، جو اسے روکنے کوشش کر رہا تھا وہ اسی سرعت کے ساتھ پھسل رہی تھی، دل کی دھڑکنیں بھی بڑھ رہی رہی تھیں، ماتھے پر بَل آگئے تھے، ہر کسی کا چہرہ مرجھایا جارہا تھا، کیا کریں؟ اب کیا ہوگا؟ کیسے کریں؟ یا خدایا رحم! زبان زد ہوگئے تھے، استغفار، دعاؤں کا دور جاری تھا، اس دوران تمہاری ماں نے جو شدت اور مصیبت برداشت کی اس پر سبھی گواہ ہیں، نرسیز اور ڈاکٹر بار بار آکر کہتے کہ دیکھو زچہ کتنی کوشش کر رہی ہے، اس کی آنکھوں میں آنسو نہیں بلکہ حوصلہ اور امید ہے، وہ اللہ سے لو لگایے ہوئے ہے، دل اسی کی جانب ہے اسی لئے کوئی کچھ بھی کہتا وہ صرف تمہیں جننے کی پرواہ کرتی، بعضوں نے کہا کہ اتنی شدت اس معیار پر ہم نے کسی کو برداشت کرتے نہ دیکھا، عورتیں چیختی ہیں، چلاتی ہیں، پورا اسپتال سر پر اٹھا لیتی ہیں؛ لیکن یہ تو عجب طمانیت کی دنیا میں ہے، آنسوؤں کی دھارا بہہ رہی ہے، واویلا نہیں ہے، مگر بات بگڑتی گئی، رب دوعالم کو کچھ اور ہی منظور تھا، اسے اپنے محبوب بندے کی یہ ادائیں اتنی پسند آرہی تھیں؛ کہ وہ مزید مزید کی خواہش رکھتا تھا، ظاہر ہے محب کو محبوب کی ادا پسند آجائے تو اسے بار بار ہر بار دیدار کی تمنا کرتا ہے، اسی میں وہ لطف پاتا ہے اور وہی اس کی نوازش اور محبت کا مرکز بن جاتا ہے، اب گھڑی پر منٹ اور سیکنڈ کے کانٹے نہیں بلکہ تمہاری زندگی گردش کر رہی تھی، جلد از جلد فیصلہ کرنے کا وقت آگیا تھا، ورنہ تم دونوں یا دونوں میں سے ایک کی جان جاسکتی تھی، مجھ سے بھی کہا گیا؛ بلکہ کئی دفعہ کہا گیا، توقف کب تک کرتا، اب زباں بندی کی گنجائش نہ تھی، لب سلے رکھنے کا موقع نہ تھا، فیصلے کی گھڑی تھی، دوٹوک بات کہنی تھی، بابا تمہاری محبت میں سب کچھ برداشت کرنے کو تیار تھے، مگر مجھ سے زیادہ تمہاری والدہ تو خلوص کا پیکر بنی ہوئی تھی، آنکھیں کیا کچھ کہتیں اور دل میں کیا جذبات ٹھاٹھے مارتے انہیں قلم بند کرنا ناممکن ہے، تمہارے نانا، نانی اور دادا دادی، ماموں، خالائیں، پھوپھیاں ساتھ ہی تایا، چچا اور دیگر تمام خاندانی افراد تو چاہتے ہی تھے کہ تم دنیا کی رنگ و بو میں قدم رکھو اور دیکھو کہ اللہ تعالی کی بنائی ہوئی یہ دنیا کتنی حسین ہے، آدم کی سزا گاہ کا کیا خوب منظر ہے، خصوصاً اکیسویں صدی اور جدید ٹیکنالوجی نے کیا گُل کھلائے ہیں – سو اطباء سرپٹ آیے اور کہا کہ ہم نے دوپہر ایک بجے کا وقت طے کیا کہ آپریشن ہو جانا چاہیے؛ لیکن آہ پھر بھی بعض ناخوشگواری جس میں خوشگواری کی تلاش تھی تاخیر ہوتی چلی گئی، نصح و خیر خواہی کے متلاشی راہ سفر میں بھٹکتے چلے گئے، سرسبز وادی اور خوش رنگ فضا کی کھوج میں پتھر سے جاٹکرائے – – – – – –

 

 

[email protected]

7987972043

Comments are closed.