مذہبی مقامات پر لاؤڈ اسپیکر کا استعمال

عبداللہ ممتاز
ایک عرصے سے دفاع کرتے کرتے ہماری ذہنیت دفاعی بن چکی ہے، ملک میں جہاں کچھ ہو بس ہم دفاع پر اتر جاتے ہیں، لاؤڈ اسپیکر پر اذان کا مسئلہ اٹھا ، ہم فورا دفاع میں آگئے اور ایسامعلوم ہونے لگا جیسے پوری رات ہم لاؤڈ اسپیکر پر اذان کہتے رہتے ہیں اور لوگوں کو سونے نہیں دیتے۔
یقینا بہت مرتبہ اور بہت سارے مقامات پر بے اعتدالیاں ہماری طرف سے بھی ہوتی ہیں،جلسوں میں رات رات بھر چیختے چنگھاڑتے مقررین،عجیب وغریب قسم کی آوازیں نکالتے شعراء،نمازوں کے بعد بیرونی مائک پر صلاۃ وسلام توکہیں درس قرآن ودرس حدیث ؛بلکہ میں نے حیدرآباد میں دیکھا کہ کئی مساجد میں بعد نماز فجر بچوں کو مکتب کی تعلیم بھی بیرونی مائک پر دی جارہی ہے، بیرونی مائک پر جمعہ کی تقریریں اور اس قسم کے کئی ایسے واقعات ہیں جن کی ہم خود بھی حمایت نہیں کرتے ؛ لیکن اذان کامسئلہ بالکل الگ ہے، ایک تو اس کادورانیہ بہت معمولی ہوتا ہے، دوسرے اس میں خاص قسم کا سُر ہونے کی وجہ سے اہل ذوق کے لیے تو یہ باعث سرور ہوتا ہے جیسا پرینکا چوپڑا نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ مغرب کے وقت کا وہ بے صبری سے انتظار کیا کرتی ہے، جب ہر چہار جانب سے بیک وقت اللہ اکبر اللہ اکبر کی صدائے باز گشت اٹھتی اور ہوا میں تحلیل ہوتی ہے، وہ اس کی زندگی کا سب سے خوبصورت اور پرلطف وقت ہوا کرتا ہے، اس سے ایک قسم کا سکون اور فرحت ملتی ہے۔ دوسروں کے لیے گویہ فرحت بخش اور باعث سکون نہ ہو؛ لیکن کم از کم کریہہ تو بالکل بھی نہیں ہوتی اِلا یہ کہ مؤذن انتہائی بے ہنگم اور بھونڈی آواز والا ہو یا پھر ذوق بالکل پرلے درجے کا ہو۔
اب آئیے سکے کے دوسرے رخ کو دیکھیے۔ میں نے بیشتر جگہوں پر دیکھا ہے یہاں تک کہ دیوبند تک میں یہ صورت حال ہے کہ صبح صبح مندروں سے گھنٹیوں کی بے ہنگم آواز آنے لگتی ہے، کبھی کبھار آدھ ایک گھنٹے تک یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے، پھر اس کے بعد ‘اوم جے جگدیش ہرے’ پورے ساؤنڈ سے بجنے لگتا ہے جو ایک ڈیڑھ گھنٹے تک مسلسل بجتا رہتا ہے، کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ "سیتا رام گے سیتا رام ” کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جو چار روز تک مسلسل بلا کسی انقطاع کے چلتا ہے، بلا وجہ یوں بھی مندروں میں بھجن اور کتھا کی کیسٹ لگا کر پنڈت جی پُن کمانے لگتے ہیں اور لوگوں کے رات بھر کی نیند خراب ہوتی ہے۔ہمارے یہاں تو غیر مسلموں کی شادیوں میں رات رات بھرانتہائی تیز لاؤڈ اسپیکر پر خواتین گیت گایا کرتی ہیں، پھر ہندؤں کے تہوار تو ہفتے میں دو بار آتےہیں جن میں کم از کم چار ڈی جے لگا کر فل ساؤنڈ پر پوری بستی اور علاقے میں گھماتے اور ڈانس کرتے ہیں۔ میں پورے دعوے کے ساتھ کہتا ہوں کہ ہندؤں کے مذہبی مقامات اور مذہبی مواقع پر لاؤڈ اسپیکر کا جتنا استعمال ہوتا ہے اس کا دس فیصد بھی مسلمان استعمال نہیں کرتے۔ میں جب اپنی بستی میں ہوتا ہوں تو شاید ہی کوئی ایسی رات ہو جب سکون سے سو پاتا ہوں، کبھی بھجن تو کبھی کتھا، کبھی ‘آلھا رُودَل’ کے قصے تو کبھی کوئی دیومالائی کہانیاں، کبھی شادیوں کے گیت وسنگیت تو کبھی مختلف طرز وانداز میں چار روز تک بس "سیتا رام گے سیتا رام”کا جپنا چلتا رہتا ہے۔
اب آئیے مسجد میں مائک کے استعمال کی با ت کرتے ہیں ، ظاہر ہے لاؤڈ اسپیکر کے بغیر بھی اذان کہی جاسکتی ہے ، یقینا اذان کا مقصد دور تک آوا پہنچانا ہے ؛ لیکن اتنی بھی دور تک نہیں جہاں سے لوگ مسجد آتے ہی نہیں ہیں، اگر مسجد کے اندرونی مائک یا بغیر مائک کے بھی اذان کہہ دی جائے تو اذان ادا ہوجائے گی۔ اس لیے ان معاملات پر ہنگامہ کھڑا کرنے اور لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر اصرار کے بجائے میری رائے میں چند مسلمانوں کو بھی آگے بڑھ کر مندر کی گھنٹیوں اورگھنٹے بھرتک اوم جے جگدیش ہرے کے لیے لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر بندش کی اپیل کرنا چاہیے ۔ ہم دفاع میں آنے کے بجائے کہیں کہ سپریم کورٹ تمام مذہبی مقامات سے بیرونی مائک ہٹائے جانے کا آرڈر جاری کرے ہم سپورٹ کریں گے ؛ لیکن اگر کسی ایک بھی مندر سے لاؤڈ اسپیکر نہیں ہٹتاہے تو پھر اذان بدستور مائک پر ہوتی رہے گی۔
وقت بدل چکا ہے، حالات بدل چکے ہیں، کب تک ہم اپنے حقوق کے لیے دفاع کرتے رہیں گے؟سارے دفاع کا ہم نے ٹھیکہ تھوڑی لیا ہے۔ نیند جتنی سونو نگم اور الہ آباد یونیورسٹی کے چانسلر کی میٹھی اور پیاری ہے، اتنی ہی ہماری نیند یں بھی پیاری ہیں، اگر کسی کو بے وقت نیند پر تین منٹ کی اذان شاق گزرتی ہے تو ہم دوسروں کے شب بھر کے بے ہنگم بھجن کو کیوں جھیلیں؟
ملک بھر میں لاؤڈ اسپیکر کا اتنا بیجا استعمال ہو رہا ہےجس کا شمار نہیں؛ لیکن سارا نزلہ گرتا ہے تو اذان پر۔ ہم عدلیہ کے فیصلہ کا بھرپور خیر مقدم کریں گے، بس وہ مساوات کا معاملہ کرے، جہاں مسجدوں کے لاؤڈ اسپیکرز پر بندش لگائے وہیں دیگر مذہبی وغیر مذہبی مقامات سے لاؤڈ اسپیکر ہٹانے کا حکم دے، نیتاؤں کے بھاشنوں، میلوں اور مذہبی تہواروں میں ڈی جے پر بندش لگائے۔ ہماری اذانیں حسب دستور ہوتی رہیں گی، بغیر مائک کے بھی ہماری اذانیں ہوجائیں گی، اس سے ہماری نمازوں پر بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا؛ لیکن یقین جانیے ان کی ایک تقریب بغیر مائک کے نہیں ہوسکتی۔ ہم عبادات خود کرتے ہیں، لاؤڈ اسپیکر کا بس اطلاع اور اعلان کی غرض سے استعمال کرتے ہیں، ان کا سارا دین اور پورا مذہب کیسٹوں میں بند ہے، یہ کیسٹیں بجاکر، فحش قسم کے بھوجپوری گانے ، رام لیلا کے افسانے اور عجیب وغریب قسم کے قصے (جو کیسٹوں میں بند ہیں) سنا کر ہی پُن کماتے اور لوگوں کی عقیدتیں بٹورتے ہیں ۔اس لیے اب دفاع کے بجائے مساوات کی بات کریں، ہمارے آئین کے آرٹیکل 45-A اور آرٹیکل 51-A میں ماحول کے "صوتی آلودگی” (Noise pollution) سے تحفظ کا وعدہ کیا گیا ہے، میں نے آج تک کسی مسجد میں ڈی جے رکھا ہوا نہیں دیکھا، یہاں تو سیدھا سادا مائک ہوتاہے جس میں خاص قسم کی سر اور لَے میں دو تین منٹ کی اذان ہوتی ہے جس سے صوتی آلودگی پیدا ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، جب کہ ہندؤں کا شاید کوئی ایسا تہوار اور مذہبی میلہ ہو جہاں ڈی جے کا اتنی تیز اسپیکر کے ساتھ استعمال نہ ہو کہ اگر کوئی نارمل دل گردے والا انسان پاس سے گزر جائے تو ہارٹ اٹیک کا اندیشہ ہو۔صوتی آلودگی اس سے پھیلتی ہے، اس پر از جلد بندش لگنی چاہیے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مذہبی اور غیر مذہبی تہواروں میں ڈی جے کے استعمال کے خلاف کوئی مقدمہ کرتا، اس پر صوتی آلودگی کے لیے چارج کیا جاتا؛ لیکن یہاں تو "ہر چیز الٹا نظر آتا ہے، مرد نظر آتی ہے عورت نظر آتا ہے”۔
Comments are closed.