اساتذہ کے ساتھ مہتممینِ مدارس کی بدسلوکیاں: لمحۂ فکریہ

 

 

✍: حمزہ اجمل جونپوری

 

مدارس اسلامیہ اس قاتل لاک ڈاون سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ایک طرف جہاں تجارت و معیشت پر اثر پڑا تو دوسری طرف مدرسے کے حساب و کتاب پر بجلی گری۔

حکومت نے قربانی کی کھال کے ذریعہ مدارس اسلامیہ کے چراغ کو بجھانا چاہا تو وہیں دوسری طرف لاک ڈاون میں مسلسل توسیع سے اس کو کچلنے کا ارادہ کیا ہوا ہے ایک طرف بازار و شاپنگ مال اور فلم تھیٹر کھلے ہیں تو دوسری طرف مدارس و اسکول و کالج پر مکمل پابندی ہے۔

ایک طرف شراب کی دکانوں پر بھیڑ ہے تو دوسری طرف تعلیم سے کرونا پھیل رہا ایک طرف ذاتی مفاد (الیکشن) کے لئے کسی بھی حد تک جانے کی کوشش ہے تو دوسری طرف طلبہ کو پریشان کیا جا رہا ایک طرف سب کچھ ہو رہا ہے؛ لیکن دوسری طرف تعلیم پر پابندی کے ساتھ طلبہ کے مستقبل کو تاریک کیا جا رہا ہے۔

اسی کشمکش میں سب سے زیادہ متاثر مدارس اسلامیہ ہیں جو اللہ بھروسے چلتے تھے جو عوام کی مدد سے بچوں کی تربیت کرتے تھے ایسے وقت میں جب عوام لاک ڈاون سے پریشان ہوئے تو وہ مدارس کی امداد سے قاصر ہوگئے؛ لیکن عاشقانِ مدارس اس مہاماری میں بھی مدرسہ کو نہیں بھولے۔

لیکن بعض مدارس اسلامیہ اس ظلم کا شکار ہو گئے تو بعض جگہ پر ظلم بھی کیا گیا اساتذہ جو بے چارے فقط مدرسوں کی تنخواہ پر گُزر بسر کر رہے تھے بعض مدارس نے ان کے ساتھ بہترین سلوک کیا اور بعض نے ظلم کی انتہا کی۔

ایسے نازک وقت میں جب اساتذہ فقط تنخواہ پر گزر بسر کر رہے تھے تو کچھ مہتمم حضرات نے نازک وقت میں ان کو مدرسے سے نکال دیا اور عالیشان اے سی والے کمرے میں بیٹھ کر یہ لیٹر پیڈ جاری کیا کہ فلاں استاد کو مدرسے سے نکال دیا جائے؛ کیوں کہ مدرسے کا بجٹ درست نہیں۔

یاد رکھیں مدارس اسلامیہ اللہ کے چراغ ہیں اور مسلمانوں کے مراکز ہیں، یہیں سے تعلیم و تربیت کا چشمہ نکلتا ہے یہیں سے علم و عمل کا دریا پھوٹتا ہے یہیں سے اسلام کی امید کی کرن طلوع ہوتی ہے اور یہیں سے اسلام کے جیالوں کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا ہوا نکلتا ہے؛

لیکن جب انہیں مدارس کو اپنی تجوری کا ذریعہ بنا لیا جائے جب انہیں مدارس کے ذریعہ اپنی دکان کو روشن کیا جانے لگے جب انہیں مدارس کے ذریعہ اپنے عیش و عشرت کے بارے سوچا جانے لگے اور جب انہیں مدرسوں سے اپنا مستقبل طے کیا جانے لگے تو وہ چراغ چراغِ خداوندی نہیں؛ بلکہ تجارت کا ذریعہ بن جاتے ہیں، جہاں اساتذہ کرائے پر رکھے جاتے ہیں اور جہاں طلبہ صرف خانہ پوری اور دکھاوے کے لئے رکھے جاتے ہیں ایسی جگہ مخلص استاد ظاہرا علم دین کا چشمہ سمجھ کر رک جاتے ہیں؛ لیکن انہیں نام نہاد مدرسوں کے مہتمم استادوں کو عین وقت پر دھوکا دے دیتے ہیں اور ان کو وقت کی مار کے ساتھ معیشت کی بھی مار مار دیتے ہیں اور ایسا کرتے وقت وہ ڈرتے بھی نہیں وہ سوچتے بھی نہیں کہ ”العلماء ورثة الانبیاء“ یعنی: ”علماء“ انبیاء کے وارث ہیں اور طلبہ انبیاء کے مہمان ہوتے ہیں۔

اے اللہ کے بندو! معلم حضرات پر ظلم نہ کرو، یہ اللہ کے بھروسے ہی مدارس میں قدم رکھتے ہیں اور آپ (کچھ) مہتمم حضرات انہیں مجبور کرکے عین وقت پر نکال دیتے ہو۔

آپ کو اللہ کے یہاں جواب دینا ہوگا کہ کیوں ایسا کیا؟ جواب دینا ہوگا کہ عالیشان محلوں میں بیٹھ کر لیٹر پیڈ کیوں لکھا؟ ڈرو اللہ سے کہ وہ وارثین انبیاء کی بد دعاوں سے تمہاری شان و شوکت خاک میں نہ ملا دے۔ آج ان کو مصیبت میں چھوڑ دیا کل آپ کو بھی اللہ چھوڑ سکتا ہے؛ کیوں کہ آپ نے انبیاء کے وارثوں کو تنہا چھوڑا تھا ابھی بھی وقت ہےسنبھل جائیں کہیں ایسا نہ ہو بہت دیر ہو جائے اور آپ اپنی گنتی گننا شروع نہ کر دیں ۔

اللہ تمام امت مسلمہ کی پریشانیوں کو دور فرمائے ۔

اور یہ عہد کریں کہ ہم میں سے اگر کوئی مہتمم بنے تو کسی بھی مدرس کو تکلیف نہیں پہنچائیں گے، ان کے حقوق کو ادا کرنے والے بنیں گے۔ ان شاء اللہ اس سے بہترین نتائج اخذ ہوں گے۔

Comments are closed.