داستان گوشہ جگر – – -!! (٧)

محمد صابر حسین ندوی
کہتے ہیں وقت ہر زخم کیلئے بہترین علاج ہے، خواہ کتنا ہی قدیم اور کاری ضرب یو مگر وقت کا پھایا اسے بھر دیتا ہے، بعض زخموں کے داغ تو کبھی نہیں جاتے پھر بھی کچھ تسلی اور راحت ضرور میسر آجاتی ہے، اور پھر انسان کی بناوٹ، ذہنی ساخت اور شب و روز کی تاثیر بھی کچھ ایسی ہے کہ ہر اگتے اور ڈوبتے سورج و چاند کے ساتھ انسان کا دل بھی کروٹیں لیتا رہتا ہے، ساتھ ہی مسبب الأسباب ہی کی انگلیوں کے درمیان انسان کا دل یوں بٹھایا گیا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے اسے بدلتا رہتا ہے، تبھی تو انسان کی زندگی کبھی پرسکون تو کبھی طلاطم میں ہچکولے کھاتی رہتی ہے، عزیز جان! وقت کے ساتھ ساتھ کچھ صبر آیا، حوصلہ مند الفاظ، واقعات، آنسو پونچھنے والے متعدد ہاتھ اور دلاسہ دینے والی بہت سی زبانیں ہمراہ رہیں، بڑی بوڑھیوں نے بھینچا، گلے لگایا، پیٹھ سہلائی، خود پر بیتی باتیں اور ایسی ہی جانکاہ واقعے بتلائے، مگر عجب سی خموشی رہی، دوپہر کا وقت گزرا جارہا تھا مگر منہ میں ایک دانہ بھی نہ گیا تھا، اس پر مزید یہ کہ بعض رشتے دار فون پر داستان الم شروع کردیتے تو زخم پھر ہرا ہوجاتا، آنسو رواں ہوجاتے اور خود کو سنبھالنا مشکل ہوجاتا، ان سے گزارش کی جاتی کہ ابھی ان لطیف رگوں کو نہ چھیڑیں مگر جذبات کے سمندر میں تموج کو روک پانا مشکل ہوگیا تھا، انہیں المناک گھڑیوں میں تمہیں اسپتال سے لیکر آئے، افففففف!! کیا ہی درناک منظر تھا، لگتا تھا کہ آسمان رو پڑے گا، زمین پھٹ جائے گی، اور سارا وجود اسی میں خسف ہوجائے گا، جن ہاتھوں نے تمہیں اٹھا رکھا تھا ان کے قدم بھی نہیں اٹھ رہے تھے، تھوڑی سی دوری سالہا سال کی مسافت لگتی تھی، ہاتھوں پر کوئی پتھر اور کوہ سینا کو اٹھانے کا احساس ہوتا تھا، ہجوم ہی ہجوم تھا، ہر پیشانی پر بَل تھے، افسوس کی لکیریں صاف دکھائی دیتی تھیں، کوئی قریبی ہو کہ نہ ہو، رشتے دار ہو کہ بےگانہ ہو، دوست ہوکہ دشمن ساری آنکھیں آنسوؤں کے جھیل میں ڈوبی ہوئی تھیں، پلکیں بھیگی اور موٹی ہوگئی تھیں، پتلیاں سرخ ہو کر خون آلود لگتی تھیں، پراگندہ حال اور پراگندہ بال کا نظارہ تھا، جو نہ روتا ہو وہ بھی نڈھال تھا، لاغری نے عمر سے پہلے ہی بوڑھا کردیا تھا، کمزوری نے کسی کھوسٹ بوڑھے کے مماثل بنا دیا تھا، اب ایک چٹائی بچھائی گئی، تمہیں اس پر لٹایا گیا، دیکھنے والوں کا تانتا لگ گیا، کسی کو منع بھی نہیں کیا جاسکتا تھا، سبھی اپنے ہی تو تھے، ہر کوئی دیکھ کر کہتا کہ کیا ہی خوب بچہ ہے، تمہارے حسن وجمال کی تعریف ہوتی، نو ماہ کی مکمل زندگی کی بدولت ہاتھ پیروں کی صلاحیت کچھ انوکھی تھی، چہرہ مہرا بھی بلند تھا، پیشانی تو ماشاءاللہ چوڑی اور خوب رو تھی، ہر کسی کا دل مچل جاتا، اور وہ ایک آہ نکال کر کہتا کیا ہی نقصان پہنچا ہے! غم کا کیا ہے وہ تو تھا مگر تمہیں زیادہ دیر رکھنا مناسب نہ تھا، سب سے بڑی بات تو یہ کہ تمہارے اور رب ذوالجلال کی ملاقات میں یوں حائل ہونا کسی طرح درست نہ تھا، پھر کرونا وائرس اور پروٹوکول کی رعایت بھی ضروری تھی، اب تک معاملہ قابو میں تھا، چونکہ فطری موت تھی، اس لئے قانونی داؤ پیچ کا کوئی مسئلہ نہ تھا –
چنانچہ اہل دانش و بینش کی جانب سے جلد از جلد کفن دفن کی کاروائی مکمل کرنے کی فکریں شروع کی گئیں، تم جانتے ہو! شریعت مطہرہ کی یہ خوبصورتی ہے کہ اس میں اپنے ماننے والوں کو موت کے بعد پوری عزت و کرامت کے ساتھ غسل دیا جاتا ہے اور مسنون کفن پہنا کر سپرد خاک کیا جاتا ہے، مگر ایک دشواری اور تھی، وہ یہ کہ ابھی تمہاری والدہ نے تمہیں گود میں تھامے رکھا تھا، سونی گود ابھی ابھی ہری ہوئی تھی؛ کہ تمہیں غسل کیلئے مانگا گیا، وہ کہتی ہیں کہ خوبرو چہرہ، پر رونق جبین اور قد کاٹھی دیکھ کر ایسا دل لگ گیا تھا کہ کسی آن اپنی گود سے جدا کرنے کا مَن نہ تھا، بار بار کہے جانے اور اصرار کے بعد تمہیں دینا پڑا، مگر دل ہی جانتا ہے کہ اس وقت کیا ستم بجلی بن کر گری ہے، تمام تیاریوں کے بعد تمہیں نہلانے دھلانے کیلئے لے گئے، پانی کے ساتھ ساتھ آنسوؤں کا بہنا بھی عام تھا، تمہیں ہاتھ لگانا اور نہلانا پھر غسل کے بعد کفن دینا یہ وہ کیفیات ہیں جن کا ضبط تحریر میں لانا ناممکن ہے، تجہیز و تکفین کے بعد لگتا تھا کہ تمہارے چہرے پر انوکھی مسکراہٹ اور چمک ہے، تم بابا کیلئے مسکرا رہے ہو، تمہاری اس مسکان پر قربان! دل چاہتا تھا کہ رب سے اپنی جان کے بدلے تمہیں مانگ لوں! تمہاری زندگی کے لمحات چرا لوں اور تمہارے ساتھ اس مسکان کو حقیقی زندگی میں بانٹوں! مگر تم نے زاد سفر تیار کرلیا تھا، تم رب ذوالجلال سے ملنا چاہتے تھے، جنت کی وادی میں کھیلنا چاہتے تھے، وہاں کے پھولوں کو سونگھنا چاہتے تھے، ہم تمہاری راہ میں کیسے رکاوٹ بنتے، وہ مقام تو ویسے بھی وہی ہے جہاں سبھی کو جانا ہے، ہم بھی جائیں گے، یہی سوچ کر کہ اس دن ہم ملیں گے، گلے لگیں گے اور اس مسکان کو بانٹیں گے، تمہیں الوداع کہنے اور آخری آرام گاہ تک پہنچانے کیلئے قبرستان کی جانب بڑھے، کیا کہیں کس دل اور دماغ کے ساتھ یہ غمناک قافلہ چلا، تمہیں ہاتھوں میں اٹھائے کوئی نعش نہیں بلکہ اپنا ہی دل سا لگتا تھا، خراماں خراماں تمہارے ابدی مقام تک پہنچے، نماز جنازہ کا عالم میں نہیں لکھ سکتا، گہرے اور تاریک غار میں کوئی کیسا محسوس کرتا ہے بَس اسی پر قیاس کر لیجیے! پھر تمہیں قبر میں اتارا گیا، اس احساس کو بھی قلمبند کرنے سے یہ قلم عاجز ہے، مگر تم جانتے ہو! جو مٹی تمہارے جسم کو ڈھانپ رہی تھی اور تمہارے وجود کو دفن کر رہی تھی؛ دراصل اسی کے نیچے ہماری سینکڑوں، ہزاروں امیدیں، محبتیں، دل لگی، مستقبل کے منصوبے اور تمنائیں بھی خاک آلود ہو رہی تھیں، تمہاری ماں کی ممتا، آرزوئیں اور جگر کا درد بھی وہیں تمہارے ساتھ سورہا تھا، تمہاری اس گہری نیند میں ہمارے بہت سے خواب بھی سوگئے، تمہارے سفید کفن میں ہماری بہت سی روشنیاں بھی لپیٹ دی گئیں، ظہر کے بعد اگرچہ تمہیں رخصت کر بیٹھے لیکن دل اب بھی کہتا ہے کہ تم ہمارے آس پاس ہو، ابھی اٹھو گے اور اپنی ماں کے آنسو پونچھ لوگے، بابا کے سینے سے لگ جاؤگے اور ہمارے غموں کو غلط کردوگے، مگر آہ!! ایک مؤمن بھلا یہ کیسے کہے کہ تم اللہ کی منشاء کے خلاف جاؤ! کوئی شکوہ و شکایت کرو! نہیں ہر گز نہیں سب کچھ اسی کیلئے ہے اور اسی کی جانب لوٹ جانا ہے؛ بلاشک موت ایک آفاقی حقیقت ہے مگر ہم زندگی پر بھی ایمان رکھتے ہیں، مرنے والے ساتھ مرتے نہیں مگر غالب کی طرح رہ رہ کے یہ خیال ضرور آتا ہے۔
ہاں اے فلک پیر! جواں تھا یہ اسامہ
کیا تیرا بگڑ تا جو نہ مرتا کوئی دن اور
7987972043
Comments are closed.