صرف مدارس میں زیر تعلیم بچوں کی ہی فکر کیوں؟ دینی مدارس میں زیر تعلیم 2 فیصد بچوں کو انجینئر یا ڈاکٹر بنانے کی تو فکر ہے مگر 98 فیصد اسکول میں پڑھنے والوں کو انجینئر یا ڈاکٹر بنانے کی مخلصانہ کوشش کیوں نہیں؟

ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی
مدارس کے نصاب میں تبدیلی کی بات اٹھتی رہتی ہے۔ مدارس کے نصاب میں تبدیلی کے لیے ایک موقف ان حضرات کا بھی ہے جو اس نصاب کو موجودہ زمانے میں بے کار سمجھتے ہیں، ایسے لوگوں کا خیال ہے کہ مدارس کے نصاب میں بڑے پیمانے پر تبدیلی کرنے کی ضرورت ہے جس میں عصری علوم اس حد تک شامل کیے جائیں کہ مدارس کے فضلاء کالج اور یونیورسٹیوں کے فارغین کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر دنیاوی زندگی میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی تگ ودو میں لگ جائیں۔ یہ عموماً وہ حضرات ہیں جنہوں نے مدارس میں نہ تو باقاعدہ تعلیم حاصل کی ہے اور نہ ہی مدارس کے نصاب سے بخوبی واقف ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ یہ حضرات دو فیصد طلبہ جو مذہبی تعلیم حاصل کر رہے ہیں ان کی دنیاوی تعلیم کی تو فکر کر رہے ہیں، مگر 98 فیصد بچے جو عصری تعلیم کے شعبوں میں ہیں ان کی دینی تعلیم وتربیت کی کوئی فکر نہیں کرتے۔
اگر قوم وملت کے نوجوانوں کو واقعی انجینئر، ڈاکٹر، پروفیسر، وکیل اور سائنسداں وغیرہ بنانا ہے تو خوابوں کی زندگی سے جاگنا ہوگا، صرف تنقید کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا بلکہ اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے طلبہ کو محنت اور لگن سے پڑھانا ضروری ہے۔ اپنی ناکامیوں کو مدارس کے نصاب میں نہ چھپایا جائے۔ نیز جو بچے بالکل ہی نہیں پڑھ رہے ہیں انہیں تعلیم دی جائے۔ اس اہم اور ضروری کام شروع کرنے کے لئے کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ معیاری اسکولوں کا قیام کرکے بچوں کے مستقبل کو روشن کرنے کے لئے خدمات پیش کی جائیں۔ غرضیکہ جو کام کرنے کے ہیں وہ نہیں کئے جاتے بلکہ اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں کو چھپانے کے لئے بس مدارس کے نصاب میں تبدیلی کی بات شروع کردیتے ہیں۔
مدارس کی تعلیم کا بنیادی مقصد علوم قرآن وسنت کی ترویج، اشاعت اور حفاظت ہے، نیز امت محمدیہ کی دنیاوی زندگی میں رہنمائی کے ساتھ اس بات کی کوشش وفکر کرنا ہے کہ امت محمدیہ کا ہر ہر فرد اخروی زندگی میں کامیابی حاصل کرے۔ اخروی زندگی کو نظر اندار کرکے ڈاکٹر یا انجینئر یا ڈیزائنر بنانا مدارس کے قیام کا مقصد نہیں۔ جس طرح دنیاوی تعلیم میں بھی انجینئرنگ کرنے والے طالب علم کو میڈیکل کی تعلیم نہیں دی جاتی، وکالت کی تعلیم حاصل کرنے والے طالب علم کو نقشہ بنانا نہیں سکھایا جاتا، کیونکہ میدان مختلف ہیں، اسی طرح قرآن وحدیث کی تعلیم میں تخصص کرنے والے طالب علم کو انگریزی وحساب وسائنس وغیرہ کے سبجیکٹ ضمناً ہی پڑھائے جاسکتے ہیں۔
Comments are closed.