میرے باباجان ‘ماضی اور حال ‘ (ایک سرگذشت

اشرف جاوید ملک
میرے بابا ہمارے وسیب کی تاریخ میں قد آور زوردار اور بہادری کا نشان رہے ۔
فن پہلوانی کا تاج ہمیشہ ان کے سر رہا ۔ نوری لعل ‘شیرشاہ’ کھوکھراں میلہ بااہتمام پیر بخش کھوکھر ‘ کوڑی والا شریف ‘ ٹاٹے پور گنگو والہ درباروں کے میلے ان کے پٹھوں شاگردوں اور ان کی کشتیوں سے سجا کرتے تھے ۔ طاقت اتنی کہ ساڑھے بارہ من کا لکڑی کا میڑا اٹھا کر
کچھ قدم تک لے گئے ۔ علاقے میں کوئی ان جیسا طاقتور نہ تھا۔ صادق ارائیں کے نام سے معروف رہے۔ وسیب میں دو آدمی ایسے تھے جو سر پر مشدی باندھتے تھے اور اپنے ساتھ یار بیلیوں کا لشکر رکھتے تھے ۔ ایک معروف سرائیکی شاعر اور دانشور رفعت عباس کے والد حسن بخش ارائیں اور ایک میرے والد صادق محمد ارائیں ۔جس نے للکارا اس کی خیر نہیں ۔
بابا جان محنتی اور خدا ترس بھی تھے ۔ ملتان براستہ لاڑ شجاع آباد سڑک بنی تو بابا جان نے میرے دادا ملک نبی بخش کے ساتھ اس سڑک کی تعمیر میں بطور مزدوران حصہ لیا۔ زمینیں خریدیں اور بیلوں کی سفیدجوڑی خریدی ۔ ایک بار چور ایک بیل کھول کر لے گئے تو ہم نے اپنے دادا کا صبر دیکھا ۔انہوں نے بیلوں کی تلاش کےلئے کوئی کاروائ نہ کی اور کہا کہ چور کے حصے میں چوری اور خواری ہے اور ہمارا کام محنت اور رزق حلال کی تلاش ہے ۔وہ ناشتہ کر کے کسی ہاتھ میں لئے زمینوں کی طرف روانہ ہوگئے ۔گھوڑی پال سکیم کے تحت انگریز نے دو مربعہ اراضی حوالے کر کے کہا کہ قبضہ کرلو ۔مگر انہوں نے اسے قبول نہ کیا ۔ کہ اس میں ان کی محنت شامل نہیں تھی ۔ تمام عمر بطور کسان کام کرتے ہل بیل چلاتے دادا جان 1979 میں دنیا سے آخرت کی طرف ہجرت کر گئے ۔ہم بچے تھے ایک عکس یاد ہے کہ دادا جان سر پر نمازیوں والی ٹوپی پہنے نوک دار چمڑے کا جوتا پہنے برآمدے میں کھاٹ پر حقہ پی رہے ہوتے تھے اور دادی اماں ان کےلئے تازہ چھاچھ تیار کر رہی ہوتی تھیں جب دادا 83 سال کے اور دادی اماں 80سال کی ہوں گی ۔دادا کا چہرہ کسی بات پر غصہ آنے پر سرخ سیب جیسا ہو جایا کرتا تھا یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے چائے کو بطور دوا استعمال کیا اور لسی سے کبھی ناغہ نہیں کیا تھا۔ دادا چلے گئے ۔ تو مجھے اس سوٹی سے کچھ عرصہ تک انس رہا جو ہمارے کسی پیڑ پر چڑھنے یا کوئ شرارت کرنے کی سزاکے طور پر میزائل کی طرح سے ہمارا تعاقب کرتی اور عین پاوں کے گٹے یا پھر پنڈلی کی ہڈی کو داغدار کرکے دور جا گرتی ۔ اور کڑکدار آواز سے دادا جان فرماتے کہ لاٹھی اٹھا کر ادھر لاو ۔ اور ہم آنسو بہاتے ہوئے مرتے کیا نہ کرتے کے مصداق لاٹھی کو چوم کر واپس دادا کے پاس لاتے ۔وہ پیار سے ہمیں سمجھاتے کہ بیٹا پیڑ ماں باپ کے سائے کی طرح ہیں ان کی چھاوں خراب نہیں کرتے ۔سر پر ہاتھ پھیر کر دادا فرماتے کہ ان کی پنڈلیاں دبائی جائیں ۔
ہم گچھادار رگوں سے بھری پنڈلیاں دباتے ۔ اور جیسے ہی دادا جان کونیند آتی ۔
آہستہ سے بنا شور کئے چند قدم دور تک بلی کی چال چلتے اور پھر آواز کی رفتار سے زیادہ تیز دوڑ لگاتے کہ دادا کی آواز آنے سے پہلے اوجھل ہو جائیں تاکہ ان کی آواز نہ سن پانے کا جواز رہے۔دادا کے بعد دادی کی قربت بھی خوب رہی ہم وہ خوش قسمت پوتے تھے تھے کہ جن کےلئے دادی ہمیشہ دوپہر کا کھانا کھاتے ہوئے روٹی کا کچھ نہ کچھ حصہ اور تھوڑا سا سالن بچا لیتیں اور چچا جعفر کے گھر کے برآمدے سے زور سے آوازیں دیتیں۔اشرے ۔۔۔۔اے اشرے ۔۔۔اڈے آ۔۔۔ اور ہم بھاگے ہوئے جاتے ۔دادی سر پر ہاتھ پھیرتیں اور بچا ہوا بابرکت کھانا ہمیں پیش کرتیں کہ میرے پاس بیٹھ کر کھا لو ۔۔۔۔ سارا دن کھدو ہو یا ڈاں ہو بس ۔ ((گیند ))تم تھکتے نہیں ہوکبھی دوپہر کے وقت سو بھی جایا کرو ۔۔ویرانوں میں جنات ہوتے ہیں ۔ اب میں سوچتا ہوں کہ جو کچھ میں نے آج تک پایا ہے یہ سب دادا دادی کی دعا ہے میرے والدین کی دعا ہے ۔دادی کو کھانسی ہوئی دو چار دن سینے میں جکڑن اوربخار نے انہیں لاچار کر دیااور پھر ایری براون کی گولیاں بھی دادی کی کوئ مدد نہ کر سکیں ۔
دادی نے عصر کے کے وقت اگلے جہان کی تیاری باندھ لی اور ان کے زاد سفر میں ہم سب کی آہیں اور دعائیں تھیں ۔
دادی اماں نے کبھی برف والا پانی نہیں پیا تھا وہ نزلہ ہونے سے ڈرتی تھیں ۔ان کی رنگت اور سراپا ۔۔رتھ فاو ۔۔جیسا تھا۔ وہ بہادر اتنی تھیں کہ ایک بار بغیر اجازت کے گھر میں داخل ہونے پر تھانہ شجاع آباد کے ایک پولیس کانسٹیبل کو چارپائی کی ادوائن سے باندھ دیا تھا ۔اور بعد از مذاکرات باامن طریقے سے اس کی رہائی ممکن ہو پائی تھی ۔مگر آج دادی بے بس تھیں جس برف والا پانی نہیں پیتی تھیں شام سے لے کر صبح تک اسی برف کے بلاک پر سوئی رہیں کیونکہ شدید گرمیوں کے دن تھے اور لاش خراب ہونے کا ڈر تھا ۔ صبح ان کا جنازہ ہوا اور یوں ہم اپنی دادی سے بھی محروم ہوگئے بلکہ اپنے الگ گھر میں اداسی کو سہیلی بنا لیا ۔
اب باباجان تھے اور اماں کی چھاوں ۔بابا جان کی مضافات میں زمینداروں سے تنازعات بھی رہے جن کے نتیجے میں انہوں نے ایک بار ہماری سو من کے نزدیک گندم بھی جلادی اور ہم اپنے بھائ کے ساتھ گندم کے آگ ناک پہلو سے جان بچا کر گھر بھاگ آئے ۔
وہ آگ ہمیں قیامت کی آگ کی طرح آج بھی نہیں بھول پائ کہ اس کے بعد ہم نے تین سال تک قحط زدہ فاقے اور غربت کا دکھ سہا اور بطور مزدور ہمارے خاندان کو پرائی گندم کاٹنا پڑی ۔ باباجان کا ایک الگ صندوق تھا جس کی چابی ان کی تہمد کی ٹیبک میں اور اس صندوق کو کھول کر دیکھنے کا تجسس ہمارے ذہن میں رہا کرتا تھا ایک بار وہ چابی ہمارے ہاتھ لگی اور ہم نے وہ صندوق کھول لیا۔ اماں نے ہمیں رنگ ہاتھوں اس وقت پکڑ لیا جب ہم باباجان کا ریوالور ہاتھ میں لے کر اس سے چھیڑاچھاڑی کر رہے تھے پھر اماں نے خود ان ساری چیزیوں کی ہمیں زیارت کروائی ۔
گوجرانوالہ سے خریدا ہوا سات گراری پستول ۔ کسی بھی چیز کو دوٹکڑوں میں تقسیم کرنے والا لوہے کا فنر ‘ غلیل نما ایک لٹو جو دور سے گھما کر مارا جاتا تھا تاکہ حملہ آور زیادہ ہوں تو ڈور سے بندھے اس لٹو کو دائروی صورت میں تیز گھمایا جائے اور لوگوں کو زخمی کیاجائے ۔ ایک چھ گولیوں کی چرخی والا انگریز دور کا ریوالور لکڑی کے دستے میں چھپی ایک تیز دھار برچھی اور کچھ خنجر ۔
اماں نے وعدہ لیا کہ تم ان چیزوں کا ذکر کسی سے بھی نہیں کرو گے۔
باباجان رات کے پچھلے پہر جاگتے جانگیا یا چوتا کس کر باندھتے اور باہر ویرانے میں جاکر ورزش کرتے ۔
واپس آکر جانوروں کو چارہ ڈالتے اور پھر بھینسوں کا دودھ نکالتے ان کا تھان صاف کرتے اور گوبر ڈھوتے بڑے بھائی ان کی مدد کرتے ۔ نماز کے بعد نہاتے اور لسی کے پانچ سات گلاس پی جاتے ۔
مکھن کا آدھا پیڑہ اور ایک روٹی کھانے کے بعد درختوں کی کٹائ چھنڈائ کے کام کی طرف نکل جاتے ۔
جب میں انہیں سکندرآباد کے مضافات کے دہیہاتوں میں جہاں درخت کاٹے جارہے ہوتے تھے دوپہر کا کھانا دینے جاتا تھا تو حیرت ہوتی تھی کہ ڈیڑھ سے دو سو من وزنی درخت جڑوں سمیت زمین سے باہر گرے ہوے پڑے ہیں یہ محنت بابا جان کی تھی بطور مزدور اور پھر بطور لکڑ مرچنٹ سیٹھ بن جانے کے مراحل تک انہوں نے سینکڑوں لیٹر پسینہ بہایا۔
درختوں کو آری یا کلہاڑے سے کاٹنے کا عمل چھ چھ گھنٹے تک جاری رہتا اور ہم دیکھتے کہ پسینہ نکل کر پاوں سے نالی کی طرح زمین پر بہہ رہا ہے اور بابا جان کام کر رہے ہیں۔
وہ دوپہر کو پاو بھر باداموں سے سردائی بناکر پیتے عصر کے وقت ایک سیر تک بکرے کا گوشت ہر دوسرے دن کھاتے اور روزانہ رات کو ایک سے ڈیڑھ کلو دودھ پیینے کے علاوہ دودھ میں آدھ پاو دیسی گھی اور شکر ڈال کر پیا کرتے تھے اسے ہم سرائیکی میں تریوڑ کہا کرتے ہیں ۔
شام کو گاوں سے باہر ایک مخصوص قطعہ اراضی پر ایک اکھاڑے میں اترتے اور اپنے شاگردوں کو کشتی لڑنے کا فن سکھلایا کرتے تھے جو کہ ان کا محبوب مشغلہ تھا۔
بابا جان کے وسیب میں دشمن بھی بہت تھے اور دوست بھی ۔ ایک بار ایک گاوں سے گزرتے وقت ان پر ایک بہت بڑے پالتو کتے نے حملہ کردیا ۔ مگر طاقت اور اعتماد اتنا تھا کہ انہوں نے حملہ آور کتے کے منہ کھلنے پر اپنے ہاتھ اس کے جبڑے میں ڈال کر اس کی باچھیں اس کی گردن تک چیر دیں اور اس واقعے کے بعد وسیب سکندرآباد اور شجاع آباد میں ان کا نام صادق ڈبل کے ” نام سے مشہور ہو گیا۔
فونیکس کی بائیسکل 1950 میں ملتان میں جن چند لوگوں کے پاس ہوا کرتی تھی ان میں میرے بابا ایک تھے ۔ جب لاہور سٹوڈیو میں پاکستان بننے کے بعد فلم آغاز ہوا تو لاہور سے باباجان نے تھالی والا گراموفون ریکارڈر منگوایا اور اسے فونیکس سائیکل پر فٹ کروایا جو تھالی پر ناب کے گھومنے سے چلتا تھا۔
یہ پروفیسر دیناناتھ کا زمانہ تھا۔ جب ملتان میں نئے نئے سینما بنے تھے ۔چک اسٹیشن پر لنڈی نام کی گاڑی پر سکندرآباد سے لوگ فلم دیکھنے ملتان آیا کرتے تھے ۔یہ چک اٹھارہویں صدی میں نواب شجاع خان نے بسایا تھا جوکہ برصغیر میں آباد کیا جانے والا پہلا چک تھا جسے انگریز کے آنے کے بعد ماڈل کےطور پر لیا گیا اور برصغیر میں نئے چکوک اسی طرز پر بسائے جانے لگے ۔
ملتان میں 1960 تک پہلی موٹر سائیکل قصبہ مڑل کے زمیندار خالد مڑل نے خریدی تھی جو میرے ایک عزیز رشتہ دار چچازوار کے دوست تھے اور ان کی کوٹھیاں ملتان کے بازار حسن ‘حرم گیٹ میں اس جگہ پر تھیں جہاں آج کل تکہ شاپس ہیں ۔ یہ فلم’ مجرا ‘ بازارحسن اور ملتان کی رونقوں اور تھیٹر کا دور تھا ملتان میں تانگے اور بگھیاں چلتی تھیں اور رات کو ملتان کی کچی سڑکوں خاص طور پر چودہ نمبر سے حرم گیٹ روڈ پر سرکاری لالٹین جلا کر رکھے جاتے تھے ۔اور اس کچی سڑک پر سایہ دار اشجار ہوا کرتے تھے ۔
ملتان کی پہلی تماشہ ٹولی یا نجی تھیٹر چک ‘ شجاع آباد میں بنائی گئ تھی اسے چک تماشہ ٹولی کہا جاتا تھا۔ جو قیام پاکستان کے بعد 1987 تک کام کرتی رہی پھر جب یہ ختم ہوئی تو اس کے معروف کردار "ڈیوایا اور نورا بتی بے روزگار ہو گئے ۔
مجھے نور محمد عرف نورا بتی یاد ہے ۔جو اس فن سے وابستگی چھوڑ کر اب رانامنظور ملاں والا کے ساتھ کبوتر اڑایا کرتے تھے اور 1990 تک وہ بھی دنیا چھوڑ گئے۔
بابا جان کا کاروبار چمکاتو انہوں نے پچیس سال کا طویل عرصہ نزد چاہ ٹبی والا چک ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر اپنے ٹمبر کے کاروبار میں گزارا ۔
میں انہیں بائیسکل پر عصر کے وقت کھانا دینے کےلئے ریلوے اسٹیشن چک جایا کرتا تھا جہاں وہ کیکر کی گیلیوں اور ٹمبر سے چھال اتار کر الگ کر رہے ہوتے تھے ان کا جسم پسینے سے شرابور کپڑے بھیگے ہوئے اور چہرہ سرخ ہوا کرتا ۔
مجھے اپنے دادا جان یاد آیاکرتے جب ان کا چہرہ بھی مزدوری کرتے ہوئے سرخ ہو جایا کرتا تھا۔
بابا جان کھانا لے کر اسٹیشن ماسٹر کے کمرے میں مجھے لے جاتے اور کہا کرتے کہ یہ پردیسی بابو ہے یہ خود اپنے لئے کھانا کیسے بنائے !
بابا جان اور اسٹیشن ماسٹر کھانا کھاتے اور میں ٹیلی گرام مشین اور دوسرے مشینی آلات کو گھور گھر کر دیکھتا رہتا تھا کہ انہیں چھونے سے بابا جان نے منع کیا ہوا تھا۔ کھرڑ کھٹ کھٹ کھرڑ کی آواز آتی ۔ایک پیلے سے کاغذ پر کچھ مخفف الفاظ لکھے ہوئے ہوتے ۔اسٹیشن ماسٹر انہیں پڑھتا اور باہر آکر گھنٹی بجانے والے کو بلاتا ۔اسٹیشن پر سامنے ہی گول ہینڈل والے سرکاری نلکے کے پاس پیپل کے بڑے بڑے درختوں کے نیچے ایک تار کے ساتھ گھنٹی بندھی ہوتی ۔
اسٹیشن ماسٹر گھنٹی والے کو کہتا کہ پندرہ منٹ تک گاڑی شجاع آباد پہنچے گی اور آدھے گھنٹے تک چک اسٹیشن پر پہنچے گی ۔
یوں گاڑی آنے سے کچھ دیر پہلے گھنٹی بجا دی جاتی ۔
ہماری پھوپھیوں کے گھر ٹاٹے پور میں ہیں میں نے کئی بار دن ڈیڑھ بجے آنے والی لنڈی ٹرین پر ٹاٹے پور کا سفر کیا ۔یہ یادیں کبھی نہیں مٹنے والی۔ یہ وہ دور تھا جب ملک رفیق رجوانہ ملتان ہائیکورٹ کے وکیل تھے اور میرا بڑا بھائ ان کا پرائیویٹ سیکریٹری اور سٹینو ۔ ہم آٹھ بہن بھائی اماں اور بابا. کا ساتھ ۔ ان دنوں ملتان اوچ روڈ براستہ ناگ شاہ ٹوٹی پھوٹی ہوئ ایک سڑک تھی جس پر ڈیڑھ دوگھنٹے کے بعد ایک بس سانپ کی طرح رینگتی ہوئی آتی تھی ۔زیادہ بسیں کھوکھر برادرز کی تھیں جیسا کہ 3832 اور 2750 ہم ان کے ہارن بجنے کی نقل کیا کرتے تھے ۔اور ان کی چھت پر سوار ہوکر ملتان کا قصد کرتے تھے ۔ بابا جان نے ہمیں پابند کیا ہوا تھا کہ فلاں فلاں لوگوں سے ہمارے تنازعات ہیں اس لئے رات دس بجے کے بعد کبھی بھی کوئ بھی مرد گھر سے باہر نہیں جائے گا اور گھر میں سوتے ہوئے بھی ہوشیار رہنا ہوگا ۔ہم نے جوانی میں ہی خنجر زنی چاقو زنی اور پستول چلانا سیکھ لیا تھا اور اس امر پر ہمارے بابا ہم پر خوش تھے ۔ وقت گزرتا چلا گیا۔ انہوں نے رنگین اور خوش گوار زندگی گزاری عشق ومحبت کی کئ داستانیں ہیں جو یہاں رقم نہیں کی جاسکتیں ۔ اس حوالے سے غالب کا یہ شعر کافی ہے کہ :
قیس سا پھر نہ اٹھا کوئی بنو عامر میں
فخر ہوتا ہے گھرانے کا سدا ایک ہی شخص
اتنا یاد ہے کہ 1970 میں بابا جان نے ہیلی کاپٹر کرایہ پر لے کر دس ہزار روپے کی ادائیگی کی اور اپنی محبت کی یادوں سے جڑے ہوئے علاقوں پر ان پرچیوں کی برسات کروائی جس پر عشق ومحبت کی ایک نظم درج تھی اور ساتھ بابا جان کا نام درج تھا ۔
ایک بار چک اسٹیشن پر جب وہ ٹرین میں سوار ہوئے کچھ پٹھان ان کی سیٹ پر قابض ہو گئے ۔پہلے انہوں نے اخلاق برتا اس نے اثر نہ کیا توپھر انہوں نے مکہ بازی اور تھپڑوں کی تیز بارش کی اور مطلع صاف ہو گیا ۔۔ او بئی بیٹھو بیٹھو یہ تمہارا سیٹ اے ۔ اور بابا جان اپنی سیٹ پر بیٹھ گئے ۔ ایک بار جب وہ کچھ نامہربانوں کے نرغے میں تھے تو صرف ایک راستہ ان کے بچنے کی امید تھا رات کے اندھیرے میں دو چار قدم پیچھے ہٹ کر انہوں ایسی چھلانگ لگائی کہ زیر زمین چاہ کے پار جا کھڑے ہوئے اور دشمن پیچھے بھاگتا رہ گیا۔ ایک اور موقع پر بھی یہی ہوا کہ وہ سات کلومیٹر دور تک پیدل دوڑتے رہے اور پھر ایک نہر پر سے چھلانگ لگا کر پیچھا کرنے والوں کو حیران کر دیا ۔ ان کی زندگی بہادری محبت عشق محنت طاقت اورشہرت سے بھری ہوئی ہے انہوں نے شاندار زندگی گزاری ہے جس کی گواہی خود ان کی زبان پر ہے ۔اب جبکہ وہ دو بار حج کر چکے ہیں اللہ کی قربت اور مہربانی کی امید پر دوسال سے علیل ہیں ۔
وہ خود کہتے ہیں کہ زندگی فنا پذیر ہے انسان کے پاس طاقت جتنی بھی ہو صرف اللہ پاک ہی پرجلال وجمال اور مالک کن و قدرت ہے ۔
سر اور داڑھی کے بال کالے ہونے لگے ہیں ۔
ذرا طاقت آئی تھی سیدھی کمر کے ساتھ لاٹھی کے سہارے چلنے بھی لگے تھے کہ گرپڑے ۔
آج کل کندھے میں تکلیف ہے اور علیل ہیں ۔ مگر امید نہیں ہارے ۔
میں دوچار دن پہلے انہیں کہہ آیا تھا کہ میں آکر آپ کو ڈاکٹر کے پاس کندھے کے علاج کےلئے لے جاوں گا ۔ میری اپنی طبیعت کچھ بہتر نہیں تھی اب تندرست ہوں انشاءاللہ اب جاکر انہیں ڈاکٹر کے پاس لے جاناہے کہ انہوں نے ہمیں تعلیم دلوائ محنت کی ہمیں پالا سنبھالا اور بہت سا پیار دیا یہ کچھ یادیں میرے حافظہ میں محفوظ تھیں جو آپ تک منتقل کر رہا ہوں ۔
آپ سے باباجان کی صحت کےلئے دعاوں کی درخواست ہے۔
اشرف جاوید ملک
Comments are closed.