داستان گوشہ جگر – – -!! (٩)

محمد صابر حسین ندوی
پھر یادوں کے پردے پر ہمارے سردار، تاجدار مدینہ، سید الکونین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ روحی) کی زندگی بھی گھومنے لگی، جنہوں نے کئی نرینہ اولادیں اپنے ہاتھوں سے پیوند خاک کئے، ایک ابراہیم (علیہ السلام) نامی کی وفات سنہ دس ہجری میں سترہ ماہ کی زندگی کے بعد ہوئی تھی، غور کرنے کا مقام ہے کہ آپ نے اخیر عمر میں اولاد کا یہ غم برداشت کیا، وہ بھی سترہ کی مدت تک اپنے سینے سے چمٹانے، لار دلار کرنے اور محبتیں لٹانے کے بعد فراق کی گھڑیاں برداشت کیں، آپ کی باندی ماریہ قبطیہ نے اس اولاد کو جنم دیا تھا؛ اس سے پہلے تین صاحبزایوں کو اپنے ہاتھوں کالی مٹی تلے رکھا، جن سے محبت کی کوئی انتہا نہ تھی، جو سب سے محبوب اور اولین معشوق حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی یادیں تھیں، جو آپ کی آنکھوں کیلئے ٹھنڈک اور سکون قلب کا باعث تھیں، تبلیغ اسلام، مشرکین مکہ کی سرکشی، اہل مدینہ کی منافقت اور عالمی سازشوں میں یہی آوازیں گداز پیدا کرتی تھیں، اور اپنے بابا کو راحت پہنچاتی تھیں، مگر آزمائش کا یہ حال تھا کہ اس کڑی محنت میں بھی اپنے کلیجے کے ٹکڑے سے محروم کردیئے گئے – اف – -!! پیارے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کیسے اس درد کو برداشت کیا ہوگا؟ متعدد مضامین میں آپ کے شب و روز کو لکھنے کا موقع ملا، دانائے سُبل نامی کتاب بھی سیرت طیبہ پر راقم کے قلم سے نکلی؛ لیکن شاید اس احساس میں شریک نہ ہوسکا جو اپنی اولاد پر ہوا ہے، صحیح کہتے کہ درد کو صاحب درد ہی جانتا ہے یا پھر جو ہمدرد ہو وہی سمجھ سکتا ہے؛ بلاشبہ آپ ہمت و عزیمت کا پہاڑ تھے، اللہ تعالی کی خصوصی محبت حاصل تھی، جسمانی و روحانی تقویت کا کوئی اندازہ بھی نہیں کرسکتا، اس کے باوجود سیرت نگاروں نے اس موقع پر ایک واقعہ بھی نقل کیا ہے جو انسانی فطرت کی متقاضی اور عین جذبہ انسانی کی نمائندہ ہے، جس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ آپ کوئی مافوق الفطرت شخص نہ تھے بلکہ ہم میں سے ہی ایک نبی اور رسول تھے، جنہیں خصوصی مقام حاصل تھا، چنانچہ جب آپ کے ہاتھوں میں آپ کے جگر نے دم توڑا، وہ سانس کی جد وجہد کر رہا تھا اور آخر میں جب اس نے داعی اجل کی طرف رخت سفر باندھا تو آپ کی آنکھیں نم ہوگئیں، وہاں پر راوی سے – تذرف – کا لفظ مذکورہ ہے جس کے معنی موٹے موٹے آنسو کے ہوتے ہیں جو بے ساختہ نکل پڑیں، مگر آپ نے زبان سے کوئی حرف شکایت نہ نکالی؛ بلکہ وہی کچھ کہا جس کی اجازت رب کی جانب سے ہے، یہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و رأفت کا حصہ تھا، مگر عموماً عرب تو ترش اور بے دل واقع ہوئے تھے، ان کا عہد ابھی زمانہ جاہلیت سے قریب بھی تھا، جب وہ اپنی اولاد زندہ درگور کردیا کرتے تھے، خصوصاً بچیوں کو زندگی کا کوئی حق نہ تھا؛ ایسے میں ایک ننھی جان کی وفات پر یوں آنسو بہانا اور استرجاع کے الفاظ کہنا ان کیلئے غیر مانوس تھا، وہ حیران تھے کہ ایک شخص اپنے نومولود کی وفات پر کیسے اشکبار ہوسکتا ہے، اس کی آنکھیں کیوں کر نَم ہوسکتی ہیں؟
اس حیرانی کا اظہار عبدالرحمن بن عوف نے یہ کہتے ہوئے کر ہی دیا کہ حضور آپ رو رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دانا و حکیم تھے، یہ سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ اس سوال کا محرک کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ آپ نے کوئی سائنٹفک دلیل، استدلال کی بات نہ کہی بلکہ فطرت اور ودیعت پر مبنی ایک جملے پر بَس کیا اور فرمایا: یہ تو رحمت ہے – (صحیح بخاری:١٣٠٣) ظاہر سی بات ہے کہ اب جو کوئی اس رحمت، اندرونی سوز اور نرمی سے دور ہو اس کیلئے کیا کیا جاسکتا ہے؟ وہ گویا قابل تَرس اور رحم شخصیت ہے، البتہ میت کی بےجا تعریف کرنا، نوحہ کرنا، کپڑے پھاڑنا ، رخساروں کو پیٹنا اور اس طرح کی دوسری باتیں جائز نہیں ہیں؛ کیونکہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’وہ ہم میں سے نہیں جو رخساروں کو پیٹے ، گریباں پھاڑے اور زمانہ جاہلیت کے کلمات کہے۔‘‘(صحیح بخاری:١٢٩٤) یہ بھی نبی ﷺ سے ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے نوحہ کرنے والی اور نوحہ سننے والی پر لعنت فرمائی ہے اور آپ ﷺ نے فرمایا:’’ نوحہ کی وجہ سے میت کو قبر میں عذاب ہوتاہے ۔‘‘ (صحیح البخاری:١٢٩٢) یہ روایات بجلی کی ترنگوں کی طرح آنکھوں کے سامنے ہلچل مچارہی تھی تو ساتھ ہی یہ خوشخبریاں بھی کانوں میں گونجنے لگیں – جس مسلمان کے تین بچے نابالغ مریں گے وہ جنت کے آٹھوں دروازوں سے اس کا استقبال کریں گے کہ جس سے چاہے داخل ہو۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یا دو؟ فرمایا: دو (پر بھی اجر ہے)، عرض کیا گیا: یا ایک؟ فرمایا: یا ایک (پر بھی اجر ہے)۔ پھر فرمایا: قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ جو بچہ اپنی والدہ کے پیٹ میں (روح پھونکے جانے سے پہلے ) ہی ساقط (ضائع) ہو گیا اگر ثواب الہی کی امید میں اس کی ماں صبر کرے تو وہ اپنی نال (ناف سے ملا ہوئے حصے) سے اپنی ماں کو جنت میں کھینچ لے جائے گا- (مسند احمد:٢/٥١٠) اسی طرح حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب مسلمان کا بچہ مرتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرماتا ہے: تم نے میرے بندے کے بچے کی روح قبض کرلی۔ عرض کرتے ہیں: ہاں۔ فرمایا: تم نے اس کے دل کا پھل توڑ لیا؟ عرض کرتے ہیں: ہاں ، فرماتا ہے: پھر میرے بندے نے کیا کہا؟ عرض کرتے ہیں: تیرا شکر کیا اور ’انا للہ و انا الیہ راجعون‘ پڑھا۔ فرماتا ہے میرے بندے کیلئے جنت میں ایک گھر بناؤ اور اس کا نام (بیت الحمد) حمد کا مکان رکھو۔ (مسند احمد:٤/٤١٥) بَس پھر کیا تھا؟ ان روایات نے قلبی سکون میں اضافہ کیا اور تمہارے بابا نے کئی روز بعد شب بھر کی نیند پائی، تمہاری والدہ کو بھی جب یہ سب سنایا تو اس کے چہرے پر بھی کئی دنوں بعد مسکان لوٹی، دل کھِل گیا اور تمہاری یادیں لئے ہم نے راحت کی سانس لی، اب کیا کیا لکھوں! دل کی تختی پر اتنا کچھ ہے کہ دفاتر تیار ہوجائیں، شاعر آسیؔ کی زبانی صرف اتنا جان لو!
آپ جب بزمِ تصور میں چلے آتے ہیں
کتنے خنجر ہیں جوسینے میں اترجاتے ہیں
مگر اب کیسے لکھوں قلم کام نہیں کرتا، روشنائی ختم ہوئی جارہی ہے، زخم بھی طعنے دینے لگا ہے کہ اب بَس بھی کرو! کب تم مجھے کرودتے رہوگے، اس لئے اب قلم کو آرام دیتا ہوں، میرے بچے! تم ناراض نہ ہونا کہ بابا نے میرا قصہ کتنا طویل کردیا؟ دراصل یہ لکھ کر میں خود کو تسلی بہم پہنچا رہا ہوں اور تمہارا ذکر قلب لوح پر محفوظ کر رہا ہوں تاکہ کل قیامت کے دن بھی تم اسے پڑھو کہ تمہارے بابا تم سے کیسی محبت کرتے تھے، تمہاری والدہ تم پر کیسے جان چھڑکتی تھی، تمہارے داد، دادی، نانا نانی اور تایا ماموں بلکہ تمام خاندان کتنی محبت کرتے ہیں؟
درد دل لکھوں کب تک جاؤں ان کو دکھلا دوں
انگلیاں فگار اپنی خامہ خونچکاں اپنا
7987972043
Comments are closed.