وہ جو امید کو سہارا ملا

 

 

محمد تعریف سلیم ندوی

جامعہ صدیقیہ عین العلوم ہوڈل روڈ نوح

 

منزلیں کسی کے گھر حاضری نہیں دیتیں

راستوں پہ چلنے سے راستے نکلتے ہیں

 

شیخی و مرشدی اپنے بیانات میں یہ شعر بار بار دہراتے ہیں،یہ مصرع حوصلوں کو اڑان دیتا ہے، یاس کو آس کے پر لگاتا ہے، امیدوں کے چراغ روشن کرتا ہے،ہراس و نراس سے بُعد برقرار رکھتا ہے، آسرے کا سہارا بنا رہتا ہے۔

شکیل بھائی کا قضیہ تصفیہ کا متقاضی تھا، مولانا مبارک آلی میؤ نے ایک شریف النفس شخص کی رائے دی، جس پر اتفاق ہوا، مولانا موصوف کا تھکاوٹ و ٹھہراؤ سے کوئی رابطہ نہیں ہے، ایک راہ رو ہیں جو بغیر سایہ کی تلاش میں منزل کو کشاں کشاں قریب کرتے ہیں ، زبانِ حال سے کہہ رہے ہیں:

نقاب الٹ کر اگر ساتھ چل سکو تو چلو

سنا ہے زیست کی راہوں میں تیرگی ہوگی

 

بایں لحاظ دارالسلطنت میں مقیم میواتی گاؤں چاندن ہولا کے سماجی خدمت گزار محترم اسلم گوروال سے امید و توقع کا آسرا لئے نکل کھڑے ہوئے، ہندوستان کے ترقی پذیر شہر گڑگاؤں کے سیکٹر 62 اُلَّہاباس گاؤں کی فراخ و کشادہ شاہراہ سے گزر ہونے لگا تو یقیناً ترقی یافتہ ممالک کا نقشہ ذہن میں ابھر آیا، لمبی چوڑی پہاڑ سے گزرتی شاہراہ، فلک بوس عمارتیں، چمچماتی مہنگی ترین گاڑیاں، شاہراہ پر دو رویہ خوبصورت و خوشنما شجرکاری کا سلسلہ….

چاندن ہولا سے مفتی عارف دہلوی میواتی کو ہمرکاب کیا، مفتی صاحب نے گجرات کی مشہور دینی تعلیم گاہ کفلیتہ سے درسِ نظامی کی تکمیل کی،نیز انگریزی زبان میں مرکز المعارف سے معرفت جام تر ہونے تک پیا،

تدریس کا آغاز آر،کے، پورم سیکٹر 3 دہلی سے کیا اور پانچ سال تک یہ علمی سوتا پوری آب و تاب سے جاری رہا، پھر دوبارہ طلب علم تڑپ ہوئی اور افتاء کر مفتی بنے۔

اور آج ملکی سطح پر جدید تعلیمی ارسال و ترسیل کے وسائل و وسائط کے سلسلے سے جڑ کر اپنا فیض عام کئے ہوئے ہیں، ہندوستان کے تمام نامور مفتیان سے مستقل رابطے میں رہتے ہیں،اب اپنی رہائش گاہ میں ہی بہترین مکتب کا ذمہ اٹھا رکھا ہے۔

بہر کیف انہیں ساتھ لیکر ریئل اسٹیٹ کمپنی کے مالک Aslam Khan Gorwal صاحب (مفتی صاحب کے تایا زاد بھائی ہیں) کے آفس تک رسائی حاصل کی ، پہنچتے ہی ہم مشہور سماجی کارکن نوید چودھری سے بھی روبرو ہوئے ،باہمی تعارف ہوا اور انہوں نے جامعہ آنے کا وعدہ کیا.

اسلم خان گوروال مشہور و معروف سماجی شخصیت اور بڑے میواتی بزنیس مین ہیں،اپنی فطری صلاحیت اور تخلیقی ذہنیت سے بڑی ترقی کی ہے آپ کے والد ٹرک ڈرائیور تھے اور آج انٹر پاس یہ نوجوان بیٹا بے شمار املاک کا مالک ہے، علماء سے محبت رکھتے ہیں اور میواتی قوم کو بحیثیتِ قوم ملکی سطح پر پہچان دلانے کی خواہش بھی،راجا حسن خاں میواتی کو ملکی سپوت کے طور پر درج کرانے کا عزم اور میواتی قوم کو خصوصی درجہ بندی میں اندراج دیکھنا چاہتے ہیں، اس کے بابت ان کی پیہم کوششیں جاری ہیں.

ہم نے اپنا قضیہ کہہ سنایا ،انہوں نے سنجیدگی سے ہماری بات سنی، اور مفید مشورے کے ساتھ اپنی ذات کو پیش کر دیا، آج بیس دن سے شروع یہ تگ و تاز اور کد و کاوش ایسی جگہ بارآور ہوئی، جہاں سے امید کی کرن تھی، چراغ نہیں، انہوں نے اپنا اثاثہ برائے تائید پیش کرنے کی حامی بھر لی،تیرگی میں جگنو ٹمٹمانے لگا تھا،دھند بکھر چکی تھی، حبس ہَوا ہو گئی تھی

 

چونکہ انگلینڈ کا ویزہ سخت شرائط سے بندھا ہوا ہے،

اسلم گوروال صاحب سے میری چند ملاقات پہلے بھی ہوئی ہیں، وہ بڑے سادہ مزاج و نیک طبیعت شخص ہیں. دیکھ کر خوشی کا اظہار کیا،کھانے سے اچھی ضیافت کی ہمارے آسرے کو سہارا مل گیا تھا،نماز عصر ادا کی، شکیل بھائی کے چہرے پر اطمینان و سکون کے آثار جھلک رہے تھے، بعد ازاں مفتی عارف صاحب کے مکتب کا دورہ کیا جہاں کم و بیش پانچ سو مقامی طلبہ تعلیم پا رہے ہیں اور مغرب کی نماز بھی وہیں پر ادا کی، رات میں ان بلند و بالا و چکا چوند عمارتوں کی لڑی سے انسانی فنی مہارت ثابت ہو رہی تھی، اندورنی لطافت و حس انہیں سیاروں کا جہاں بتا رہی تھی، سراب و خواب نظر آتا لیکن وہ حقیقت میں روشن برج و ٹاور تھے.

ہم ذہنی عافیت کے جہاں میں کھوئے ہوئے لوٹ رہے تھے، محنت رنگ لا چکی تھی۔

Comments are closed.