فلسطین: تاریخ کے آئینے میں!! (١١)

حماس کی جہد مسلسل

 

 

محمد صابر حسین ندوی

 

ان سب کے باوجود حماس اپنی مجاہدانہ کوشش اور بلند حوصلہ و ایمان کیلئے جانے جاتے ہیں، انہوں نے اپنی مجاہدانہ کاوش کے ذریعہ غزہ پٹی کو آزاد کروا لیا، اور اب یہ چاہتے ہیں کہ پورا فلسطین آزاد ہو، بیت المقدس پر مسلمانوں کا حق ہو، ان کی ریاست قائم کی جائے اور اس سلسلہ میں کوئی رعایت نہ برتی جائے، مگر ان مجاہدین کی کاوشوں کے درمیان اسرائیل اور فلسطین کے مابین ایک ایسا معاہدہ ہوجاتا ہے جو عالمی قوانین کے اعتبار سے بھی غلط ہے اور فلسطینیوں کیلئے سنہرے خواب سے زیادہ کچھ نہیں – بات ١٩٩٢ء کی ہے جب اسرائیل میں نام نہاد کچھ کم شدت پسند یترک ربین – Yitzhak Rabin – وزیر اعظم بنتے ہیں، جو فلسطین کو ایک ریاست، زندگی کا مستحق اور انتظامیہ کی حقدار بتاتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ دونوں ممالک اپنی اپنی جگہ امن و آشتی کے ساتھ آگے بڑھیں؛ ساتھ ہی فلسطین میں بھی یاسر عرفات کا دور آتا ہے جو کہ الفتح کے قائد ہیں ان کا جھکاؤ بھی نرمی کی جانب ہوتا ہے، وہ مسئلہ کو حل کرنے کیلئے متاہنت اور مصالحت کو درست جانتے ہیں، پچھلی مزاحمتوں اور قربانیوں کو فراموش کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ایک نیا راستی تلاش کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں، یاسر عرفات دیار مغرب کے پروردہ اور خوشہ چیں ہوتے ہیں، انہیں کے سینے سے دودھ پی کر اسلامی نام اور عربیت قوم کی پہچان کے ساتھ بڑے ہوتے ہیں، ان کے خون عربی اور اسلامی غیرت کے ساتھ مغربی کلیساؤں کی فکریں سرایت کی ہوئی رہتی ہے، چنانچہ جب اسرائیلی وزیر اعظم الفتح (PLO) کو قبول کرتے ہیں تو یاسر عرفات اسرائیل کو تسلیم کرلیتے ہیں، یہ ادا یورپی لابی کو اتنا پسند آتا ہے کہ انہیں نوبل امن انعام سے بھی نوازا جاتا ہے، خوب قالینوں پر استقبال ہوتا ہے، یہ تعلقات ثمرآور ہوتے ہیں اور ١٩٩٣ء میں ایک معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان طے پاتا ہے، اسے اوسلو – Oslo accord – کہا جاتا ہے، اس کے اعتبار سے مغربی کنارے کو تین حصوں میں تقسیم کردیا جاتا ہے- A – جس میں فلسطینی اتھارٹی رہے گی، ان کا انتظامیہ اور حکومت قائم ہوگی، یہ حصہ رقبے کے اعتبار سے بہت چھوٹا ہے- B- اس حصے پر دونوں ملکوں کی حکمرانی رہے گی؛ جبکہ C – اس بلاک میں صرف اسرائیلی اتھارٹی رہے گی، یہ حصہ بڑا بھی ہے، اس معاہدے کے رو سے ١٩٩٤ء میں فلسطینی حکومت بنی مگر اس کی حقیقت یہ ہے کہ وہ کچھ بھی نہیں ہے، بَس زیادہ سے زیادہ ایک میونسپلٹی کی طرح ہے، اگرچہ صدر، وزراء اور کابینہ ہے؛ لیکن وہ سب امریکہ و اسرائیل کی کٹھ پتلی ہیں، جس کا اظہار خود اسرائیلی وزیر اعظم کرتے رہتے ہیں، مزید تماشہ یہ ہے کہ اس وقت الفتح کے قائد محمود عباس ہیں جو زبردستی صہیونی اور امریکی پشت پناہی پر اقتدار سنبھالے ہوئے ہیں، سنہ ٢٠٠٦ء میں بغاوت کے بعد اب تک وہی براجمان ہیں، لگاتار انتخابات کی آوازیں اٹھتی ہیں مگر دبا دی جاتی ہیں، عالمی برادری میں سرگوشیاں ہوتی ہیں اور جمہوریت کے ٹھیکیدار امریکہ تک کو برا بھلا کہا جاتا ہے؛ لیکن سناٹا پسرا ہوا ہے، انہیں وہاں جمہوریت کی بحالی اور انسانی حقوق کی فراہمی کا کوئی خیال نہیں ہے، ساتھ ہی اسرائیلی فوج کا انہیں اتنی حمایت حاصل ہے کہ عوامی تحریکیں اور آوازیں گم ہوجاتی ہیں، جب کبھی نوجوانوں کی جماعت سراپا احتجاج ہوتی ہے تو انہیں پوری طاقت کے ساتھ کھدیڑ دیا جاتا ہے، عجیب بات ہے کہ یہ سب کچھ امریکی اور یورپین کی امن پالیسیوں کے سامنے اور جمہوریت کے علم کے نیچے ہورہا ہے-

حقیقت یہ ہے کہ اوسلو معاہدہ کے ذریعہ اسرائیل نے فلسطینیوں کو بے وقوف بنایا، انہیں ایک چھوٹے سے قطعے کے مقابلہ زیر کر لیا، الفتح نے جلد بازی کردی، اگر وہ غور کرتے یا ماہرین کی مدد لیتے تو انہیں پتہ چلتا کہ اسرائیل اقوام متحدہ کے خلاف جارہا ہے، یہ کوئی تک نہیں بنتا کہ مزید انہیں اتھارٹی دی جائے، اسی طرح وہ جس تقسیم پر راضی ہو رہے ہیں وہ نہ صرف ناجائز ہے؛ بلکہ انہیں پھنسانے کی کوشش ہورہی ہے، جس میں وہ پھنسے اور الفتح کی اہمیت مٹی میں مل گئی اور مغربی کنارے پر اسرائیلی فوجوں کا زور چل پڑا- دوسری طرف حماس لگاتار علم جہاد بلند کئے ہوئے ہے، ان کی جانب سے سخت جان حملوں کی وجہ سے اسرائیل نے ٢٠٠٥ء میں وہاں سے اپنی فوجیں واپس لے لی تھیں، جس کے بعد اس نے غزہ میں اپنی حکومت قائم کی اور اسرائیل کو چیلنج کرتا رہا، نتیجتاً اسرائیل سے جنگ تو تھی ہی ادھر مغربی کنارے پر مصالحانہ حکومت کرنے والے الفتح سے بھی رسا کشی ہونے لگی، سنہ ٢٠٠٦ء کے عام الیکشن میں حماس نے کامیابی پائی، جو اس بات کی علامت تھی کہ وہاں عوام الفتح کو ناپسند کرتی ہے، وہ جنگی راہ کو مناسب سمجھتی ہے اور بیت المقدس کو آزاد کروانا ان کا اولین مقصد ہے؛ لیکن یہ عالمی طاقتوں کو ہضم نہ ہوسکا، اور ناہی الفتح جماعت نے اسے قبول کیا؛ کیونکہ ان کے دلوں میں منافقت اور بیت المقدس کیلئے خیانت تھی، وہ سلطنت کی فکر میں اسلامی شعار کا تقدس بھی بھول گئے تھے، چنانچہ ٢٠٠٧ء میں خانہ جنگی کی بھی نوبت آئی، جس سے قدس کا تقدس پامال ہوا، عربوں کی غیر دانشمندی بھی ہنسی ٹھٹھولے کا باعث بنی، اب حال یہ ہے کہ قضیہ فلسطین صرف اور صرف حماس کی وجہ سے زندہ ہے، بلکہ کہا یہ جاتا ہے کہ انہیں کی مدد و تعاون سے ہی بیت المقدس کی بازیابی بھی ممکن ہے، ان ہی کے جھنڈے تلے عالم اسلام ایک نئی صبح رقم کرسکتا ہے، حماس مسلسل برسر پیکار ہے، اس نے متعدد جنگیں اسرائیل سے لڑی ہیں، وہ ہر محاذ پر کام کر رہے ہیں، جہاد کے ساتھ ساتھ عملی میدان میں عوام اور مسلمانوں کے اندر بیداری اور ضروریات بھی پوری کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، سنہ ٢٠١٤ء میں پچاس روزہ ایک سخت جنگ لڑی گئی تھی، جس میں بائیس سو فلسطینی اور تریسٹھ اسرائیلی جاں بحق ہوئے تھے، مگر غالباً اس سے سخت جنگ ٢٠٢١ء میں گیارہ روزہ لڑی گئی ہے، جب رمضان المبارک کے اخیر عشرہ میں بیت المقدس کے اندر نمازیوں کے ساتھ بدسلوکی کی گئی اور فوجیوں نے غنڈہ گردی کی تو ان کے مابین جھڑپیں ہوئیں، حماس نے سخت ایکشن لیا اور راکٹوں سے حملے کئے، یہ حملے اس قدر تابڑ توڑ تھے کہ گیارہ دن بعد خود اسرائیل نے مصالحت کی اور جنگ بندی کا اعلان کردیا، اگرچہ یہ جنگ بندی کردی گئی مگر ابھی یہ قصہ تمام نہیں ہوا ہے، اسرائیلی کی خونخواری اور درندگی کا حقیقی جواب اب بھی باقی ہے، فیصلہ کن جنگ کا انتظار ہے اور بیت المقدس کی فتح اور مسلمانوں کی سربلندی باقی ہے، ابھی تاریخ کے صفحات باقی ہیں جن پر مجاہدین کے خون سے سرخی لالہ و گل لکھا جانا ہے، سو تیار ہوجائیں! بیت المقدس کی آہیں آپ کو بلا رہی ہیں، مظلوم و مقہور لوگوں کی سسکیاں دعوت جہاد دے رہی ہیں، باطل کے گھروندے حق کو پکار رہے ہیں۔

اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے

مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے

حوالہ جات –

١= مسئلہ فلسطین – سامراج اور عالم اسلام — سید محمد واضح رشید حسنی ندوی

٢= عالم عربی کا المیہ – – – – مولانا سید ابو الحسن حسن علی حسنی ندوی

٣= فلسطین :کسی صلاح الدین ایوبی کے انتظار میں – – مولانا نور عالم خلیل امینی

٤= صلیبی صہیونی جنگ – – – مولانا نور عالم خلیل امینی

٥= ظفرالاسلام خان) – – palestine documents

 

 

[email protected]

7987972043

Comments are closed.