خبر ، ڈیبیٹ اور میڈیا ٹرائل

 

 

تحریر : مسعود جاوید

 

بالجبر تبدیلی مذہب پر ڈیبیٹ کے دوران جب مولانا عبدالحمید نعمانی صاحب نے غیر ضروری میڈیا ٹرائل پر اعتراض کیا تو اینکر برہم ہوگیا اور کہا کہ سماج میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی خبر چلانا ہمارا فریضہ منصبی ہے۔ اب اسے کون سمجھائے کہ خبر چلانے اور ڈیبیٹ کرنے میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے۔ ڈیبٹ اور ” ماہرین ” کی راۓ بعض اوقات تفتیشی ایجنسیوں اور عدالت کی رائے پر اثر انداز ہوتی ہے۔

خبر یہ ہے کہ ” پولیس نے یا ایجنسی نے دو شخص کو مبینہ طور پر بالجبر یا لالچ دے کر تبدیلی مذہب کے جرم میں گرفتار کیا۔ ” مزید تفصیل دینی ہو تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ ” پولیس ، ایجنسی یا تبدیلی مذہب سے متاثرین کا بیان یہ ہے اور گرفتار شدہ لوگوں اور ان کے اقرباء و متعلقین کا بیان یہ ہے۔

لیکن نام نہاد دھرم گروؤں اور سیاسی پنڈتوں کو چینل پر بلا کر بحث کرانا اور تحقیق ہونے سے پہلے ہی ان پینلسٹ کا اصرار کے ساتھ کسی کو مجرم ثابت کرنے کی کوشش کرنا اور اس کے لئے سچی جھوٹی باتیں بیان کرنا ، یہ عوام کو گمراہ کرنے کے مترادف ہے۔

اینکر کا یہ کہنا کہ خبر چلانا میڈیا چینلز کی ڈیوٹی ہے اس سے انکار نہیں مگر کیا پچھلے سال تبلیغی جماعت کے تعلق سے میڈیا نے جو پورے ملک میں مسلمانوں کے خلاف زہر پھیلایا وہ خبر چلانا تھا ؟

 

اگر غیر جانبدار میڈیا ہوتا تو وہ ان لوگوں کی بھی بائٹ لیتا جو غیر مسلم عمر گوتم سے ملتے جلتے رہے ہیں۔

 

کیا میڈیا ان لوگوں کے بیانات کو اپنے پروگرام کا حصہ بناۓگا ؟ اگر نہیں تو آپ کے پاس آپشن کیا ہے ؟ ظاہر ہے سوشل میڈیا ۔ گرچہ سوشل میڈیا کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا مگر یہ اس کا حقیقی متبادل نہیں ہے۔ سوشل میڈیا بالخصوص یوٹیوب پروگرام دیکھنے کے لئے ارادہ کر کے اسے دیکھنا ہوتا ہے جبکہ ٹی وی چینل پر اس طرح کے پروگرام بن بلاۓ مہمان کی طرح چلتے رہتے ہیں۔ اس کی رسائی پڑھے لکھے خواندہ نا خواندہ امیر غریب ہندو مسلم سکھ عیسائی سب تک ہے جبکہ سوشل میڈیا بالخصوص ٹویٹر اور یو ٹیوب کا حلقہ پڑھے لکھے لوگوں تک محدود ہے ۔

یہ سوال پھر بھی باقی ہے کہ ملی تنظیمیں کسی کل ہند سطح کے ملٹی لنگول اخبار اور ایک چینل کے قیام کے لیے کوشاں کیوں نہیں ہیں ؟

Comments are closed.