آسام کے بعد اب اترپردیش میں دو سے زیادہ بچے والے سرکاری مراعات سے محروم کا قانون زیر غور۔ 83 فیصد دو سے زیادہ بچے والے ہندو ہیں –

 

تحریر : مسعود جاوید

الیکشن کے فوائد کے بارے میں بات کی جائے تو عام لوگوں کو اس کا ایک ہی فائدہ نظر آتا ہے کہ ایک دن کے لئے انہیں احساس ہوتا ہے کہ وہ ملک کے اصل مالک ہیں وہ جسے چاہیں اسے اقتدار سونپیں ۔ بحیثیت جمہوری ملک کی عوام اور ووٹرز اصل میں وہ مالک ہیں اور حکومت کے تمام کارندے وزیر اعظم سے لے کر ادنی سرکاری ملازم تک پبلک سرونٹ خادم اور سیوک ہیں۔‌
یہ اور بات ہے کہ ووٹ دینے کے بعد حکومت کی تشکیل ہوتی ہے اور حکمران اور ان کا دستہ راجہ اور عوام پرجا میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ ایک ایسی پرجا جسے ملک کی تعمیر و ترقی سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا۔ حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لینا، اس کے بارے میں سوال کرنا اور رفاہی اسکیموں کا مطالبہ کرنا اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتا ہے۔ وہ اپنی عقل اور اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھتا وہ وہی دیکھتا ہے جو حکومت نواز میڈیا دیکھاتا ہے۔

حکومت کی تشکیل کے لئے جمہوری نظام میں انتخابات کرانا لازمی شرط ہے۔ انتخابات سے کئ مہینے قبل اس کی تیاری کی جاتی ہے۔ پہلے ہر سیاسی جماعت اور امیدوار اپنی پچھلی کارکردگی بتاتے تھے جو کمیاں رہ گئیں اسے پورا کرنے کا عہد دہراتے تھے۔ نۓ ترقیاتی منصوبوں پر مبنی انتخابی منشور لوگوں تک پہنچاتے تھے۔ اپنے اپنے حلقوں میں نکڑ میٹنگ کر کے ملک میں امن امان برقرار رکھنے اور قائم کرنے کا عہد و پیمان کرتے تھے کثرت میں وحدت جو تمام ہندوستانیوں کی شناخت ہے اس کی بلا جھجک تشہیر کرتے تھے۔‌ مقامی ایشوز بجلی پانی سڑک سیور آپسی بھائی چارے کی بات ہوتی تھی۔
ان دنوں امیدوار کے مذہب اور جات برادری سے ووٹرز کو مطلب نہیں ہوتا تھا وہ تو تو بس اپنے مسائل کے حل کے لیے اپنا نمائندہ چنتے تھے۔
اس کے بعد یہ دور آیا کہ سارے مسائل ثانوی، سکنڈری ہو گۓ اور مذہبی بنیاد پر لام بندی پولرائزیشن پرائمری ہو گئی اور نزلہ عضو ضعیف پر ہی گرتا ہے کے مطابق پولرائزیشن کے سب سے زیادہ شکار اقلیت بالخصوص مسلمان ہوتے ہیں۔
اکثریتی طبقے کو ذاتی طور پر اس کا کچھ فائدہ ہو یا نہ ہو ، ملک میں یہ مزاج بنانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے زک پہنچے تو اکثریتی فرقہ کے بہت سارے لوگ خوش ہوتے ہیں۔ تین طلاق بل کے پاس ہونے سے لے کر قانون بننے تک اکثریتی فرقہ کا کوئی ایک شخص بھی آپ کو نہ ملا ہوگا جو یہ کہتا ہو کہ تین طلاق قانون سے اسے یا غیر مسلموں کو کسی طرح کا کوئی فائدہ پہنچا۔ لیکن بی جے پی اسے بطور تمغہ غیر مسلموں کو پیش کرتی ہے کہ دیکھا ہم نے یہ قانون بنا دیا۔ ایسا ہی ایک قانون یکساں سول کوڈ کا بھی زیر غور ہے۔

آبادی پر کنٹرول کرنے کے تناظر میں پچھلے پچاس برسوں میں بہت ساری تجویزیں پیش ہوتی رہیں کوششیں بھی کی گئیں اس کے لئے معقول وجہ بھی ڈھونڈ نکالی گئی کہ سماج میں تعلیم سے محروم اور معاشی ابتری کے شکار لوگوں کے یہاں کثرت اولاد کا ظاہرہ پایا جاتا ہے۔ جیسے جیسے ان دونوں مسائل پر قابو پایا جا رہا ہے شرح پیدائش میں کمی درج ہو رہی ہے۔
لیکن چونکہ شرح پیدائش میں کمی کرنے کے تعلق سے مسلمانوں کا دینی نظریہ جڑا ہوا ہے اس لئے کہ شرعی طور پر مسلمان ترتیب اسرہ اور تنظیم اسرہ تو کر سکتا ہے افزائش نسل پر مکمل پابندی نہیں۔
تنظیم اسرہ ضرورت کے تحت دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے بعد کے ادوار میں #عزل کی روایات ملتی ہیں۔‌فقہی طور پر ضرورت کے تحت عزل کر کے کثیر العیال ہونے سے بچنے کا جواز ملتا ہے۔ اور دنیا بھر میں اس پر مسلمان عمل بھی کرتے ہیں۔
لیکن جذبات انگیختہ کرنے کے لئے ایک مخصوص سیاسی پارٹی اور تنظیم کی حکومتیں اس مسئلہ سے مسلمانوں کو زک پہنچا کر فرقہ وارانہ منافرت کو ہوا دینا اور پولرائز کرنا چاہتی ہیں۔‌
تین طلاق کی طرح اس مسئلہ سے بھی غیر مسلموں کا ذاتی طور پر کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ علی العموم غریبوں کا نقصان ہوگا۔ آسام میں بی جے پی حکومت دو سے زائد بچے والے کنبوں کو سرکاری مراعات اور اسکیموں سے محروم کرنے کے قانون پر غور کر رہی ہے اس وقت اترپردیش میں اسمبلی انتخابات سر پر ہیں تعمیر وترقی اور رفاہی خدمات کے میدان میں کوئی خاص قابل ذکر کارنامے نہیں ہیں جس کا حوالہ دے کر ووٹ مانگا جائے اس کے برعکس کورونا وائرس نے ہسپتالوں میں دوائیوں ، بیڈز، آکسیجن کی قلت، لاشوں کے جلانے میں بدنظمی نے ترقی کے دعووں کی پول کھول دی ہے ایسے میں سب سے زیادہ محفوظ و مجرب نسخہ ہندو مسلم کے نام پر پولرائزیشن ہے ۔ چنانچہ اسی پولرائزیشن کے مقصد سے اترپردیش حکومت بھی دو بجے سے زائد والے کنبوں کو سرکاری مراعات سے محروم کرنے کے قانون پر غور کر رہی ہے۔۔

دنیا میں سب سے زیادہ آبادی والا ملک چین ہے اس نے آبادی کنٹرول کرنے کے لئے 1980 میں "ایک فیملی ایک بچہ” یا بچی کا قانون بنایا اس کا اثر شرح پیدائش کو گھٹانے پر اچھا تو پڑا لیکن منفی اثر یہ ہوا کہ ایک مدت کے بعد بوڑھوں کی تعداد بڑھ گئی اور جوانوں کی تعداد گھٹ گئی جو تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشت اور صنعت کی ضرورت کو پورا کرنے میں ناکافی ثابت ہونے لگی ۔ چنانچہ ایک بچہ والی پالیسی میں ڈھیل دیتے ہوئے 2016 میں ایک فیملی دو بچے کا قانون نافذ کیا گیا۔ مگر جس رفتار سے چین کی معیشت ترقی کر رہی ہے اس کے مدنظر یہ بھی کافی نہیں تھی چنانچہ پانچ سال بعد 2021 میں ایک شادی شدہ فیملی کے لئے تین بچے کی اجازت دی گئی ہے۔
تاہم انسانی حقوق کی تنظیم ایمنیسٹی نے چین کی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ریاست (ملک اور حکومت) کا معاملہ نہیں ہونا چاہیے کہ وہ طے کرے کہ کسے کتنے بچے چاہیے۔

ہندوستان میں زیر غور دو ریاستوں میں دو بچے والے قانون اگر نافذ کیا گیا تو کیا اس سے صرف مسلمان متاثر ہوں گے ؟ کیا مسلمانوں کو اس قانون پر واویلا کرنا چاہیے ؟ ہرگز نہیں۔ مسلمان اس کو ایشو نہ بنائیں اور اپنے جذبات پر قابو رکھیں۔ 83% اس سے متاثر ہونے والے ہندو ہوں گے جیسا کہ آج انگریزی روزنامہ ہندوستان ٹائمز نے اپنے اداریہ میں لکھا : –

کثرت آبادی پر خیالی خوف
غلط مفروضے اور فرقہ وارانہ سب ٹیکسٹ متن سے ریاست کی پالیسی کی تشکیل گائیڈ نہیں ہونی چاہیے۔ ایسا ہر وہ قانون جو دو سے زائد بچوں والے کنبہ کے ساتھ امتیازی سلوک کرنے والا ہو گا وہ غریبوں اور کم تعلیم یافتہ افراد کو سزا دے گا۔
اگر سیاسی لیڈران اس قسم کی قانون سازی کے لیے زور دے رہے ہیں تو وہ اس بھرم میں نہ رہیں کہ اس قانون سے انہیں سیاسی فائدہ ہوگا۔ اس لئے کہ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ 83 فیصد سے زائد فیملی جن کے دو سے زیادہ بچے ہیں وہ ہندو ہیں ،” ۔

 

اداریہ :ہندوستان ٹائمز

Comments are closed.