نکاح وطلاق کے چند احکام ہندو مذہب اور اسلامی شریعت میں!

 

فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب مدظلہ العالی
کارگزار جنرل سیکرٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ

سماج کے دو افراد کے درمیان باہمی تعلقات کے جو دائرے بنتے ہیں، ان میں سب سے اہم خاندانی تعلقات ہیں، انسان اور دوسرے جانوروں کے درمیان جن بنیادوں پر امتیاز قائم ہے، وہ یہی خاندان کی تشکیل ہے؛ اسی لئے ہر مہذب گروہ میں خاندانی زندگی کے قوانین کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے، اس نقطۂ نظر سے اگر شریعت اسلامی کے قوانین کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ حد درجہ عدل، اعتدال اور انسانی فطرت کی رعایت پر مبنی ہے، مگر افسوس کہ فرقہ پرست گودی میڈیا آج کل اسلام کے عائلی قوانین پر انگلی اٹھاتا اور شیشہ کے گھر میں بیٹھ کر پتھر پھینکنے کا کام کر رہا ہے ، آئیے اس پس منظر میں ہم اسلامی شریعت اور برادران وطن کی بعض مذہبی تعلیمات کا جائزہ لیتے ہیں:

۰ نکاح جو خاندان کی بنیاد ہے، اس کا آغاز رشتہ طے کرنے سے ہوتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلہ میں واضح ہدایت دی ہیں کہ نکاح چار اسباب کے تحت کئے جاتے ہیں: خاندان (نسب)، خاندانی وجاہت (حسب)، مال ودولت اور دین واخلاق، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ چوتھی بنیاد درست ہے؛ اس لئے دین واخلاق کی حامل بیوی کا انتخاب کرو،یہی معیارشوہر ، داماد اوربہو کے انتخاب میں بھی ہونا چاہئے، اس میں کامیابی ہے: فاظفر بذات الدین (صحیح البخاری، کتاب النکاح، باب الاکفاء فی الدین، حدیث نمبر: ۵۰۹۰) عربوں میں ذات پات اور برادروی کو بڑی اہمیت دی جاتی تھی، غیر عرب لوگوں کو بالخصوص سیاہ فاموں اور غلاموں کو چاہے وہ آزاد کر دئیے گئے ہوں، بہت نیچا سمجھا جاتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پھوپھی زاد بہن کا نکاح اپنے آزاد کردہ غلام سے کیا، (السنن الکبریٰ للبیہقی، باب لا یرد نکاح غیر الکفؤ اذا رضیت بہ الزوجۃ، حدیث نمبر: ۱۳۷۸۲) نیز حضرت بلال حبشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دوسرے عجمی نژاد صحابہؓ کا نکاح عرب کے معزز قبائل میںکرایا؛ تاکہ اس تصور کو ختم کیا جائے۔

اس کے بر خلاف برادران وطن کے یہاں رشتہ طے کرنے میں ذات برادری کو بنیادی اہمیت حاصل ہے؛ چنانچہ منوجی کہتے ہیں:

’’ایک شودرکی بیوی صرف شودر عورت ہی ہو سکتی ہے، جب کہ ایک ویش کی بیویوں میں سے ایک اس کی ہم مرتبہ یعنی ویش اور دوسری شودر ہو سکتی ہے، کشتری کی بیویوں میں سے ایک اس کی ہم مرتبہ یعنی کشتری اور دوسری ویش یا شودر ہو سکتی ہے، جب کہ برہمن کی بیویوں میں سے ایک اس کی ہم ذات اور باقی کشتری یا ویش یا شودر ہو سکتی ہیں‘‘ ۔(منو دھرم شاستر، باب ۳؍ اشلوک ۱۳)

۰  ہندو مذہبی کتابوں میں رشتہ کے لئے لڑکی کی بعض خصوصیات کا بھی ذکر کیا گیاہے:

’’شادی کسی ایسی لڑکی سے نہ ہو، جس کے (بال) سرخ ہوں، نہ اس سے جس کا کوئی عضو زائد ہو، نہ اس سے جو طبعاََ علیل ہو، نہ اس سے جس کے بال نہ ہوں، یا بہت زیادہ ہوں، اور نہ ہی اس سے جو سرخ آنکھوں والی ہو، یا باتونی ہو، نہ اس کے ساتھ جس کا نام کسی ستارے کے مجمع، درخت یا دریا کے نام پر ہو، نہ اس کے ساتھ جس کے نام کا کوئی حصہ نچلی ذاتوں یا کسی پہاڑ کے لئے مخصوص نام پر مشتمل ہو، اس کا نام یا نام کا کوئی حصہ کسی پرندے ، سانپ یا غلام کے نام پر نہیں ہونا چاہئے، اور نہ ہی (ایسی چیز کے نام پر جو )دہشت انگیزی کا تاثر دیتی ہو، شادی ایسی لڑکی سے ہو، جس کے اچھے معانی ہوں، چال، ہنس یا ہاتھی جیسی، سر اور جسم کے بال زیادہ ہوں نہ کم، دانت چھوٹے اور اعضاء کامل ہوں‘‘۔ (منو دھرم شاستر، باب :۳؍ اشلوک: ۱۰۸)

اسلام کی نظر میں نکاح کے لئے اس بات کی اہمیت نہیں ہے کہ اس کا نام کیا ہے، رشتہ کے انتخاب میں اپنی پسند کالحاظ کرنا جائز تو ہے؛ لیکن ایسا نہیں ہے کہ کسی خاص صورت کی لڑکی سے نکاح کرنے کو ناپسند کیا گیا ہو، اسی طرح نکاح کا تعلق نکاح کرنے والے مردوعورت سے ہوتا ہے؛ اس لئے اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ لڑکی کا بھائی ہے یا نہیں ہے؟ اللہ نے اس دنیا میں مختلف شکل وصورت اور الگ الگ صلاحیتوں کے لڑکے اور لڑکیوں کو پیدا فرمایا ہے، کسی کو بھائی دئیے ہیں اور کسی کو بھائی نہیں دئیے ہیں، اگر نکاح کے لئے ایسی شرطیں لگائی جائیں تو یہ غیر فطری ہوں گی، اور بہت سے لڑکے اور لڑکیاں نکاح جیسی ضرورت سے محروم ہو جائیں گے۔

اسی طرح ہندو مذہب میں بیوہ عورت سے نکاح نہیں ہو سکتا، جب کوئی عورت بیوہ ہو جائے تو اسے زندگی بھر تجرد کی زندگی گزارنی ہے، اسلام میں چاہے کوئی کنواری لڑکی ہو یا مطلقہ اور بیوہ عورت ہو، تجرد کی زندگی گزارنا بہتر نہیں ہے، اور اس بات کو پسند کیا گیا ہے کہ وہ ازدواجی رشتہ میں بندھ جائے : فلا تعضلوھن أن ینکحن ازواجھن (البقرہ:۲۳۲) اور ان کے سرپرستوں کو بھی حکم دیا گیا ہے کہ وہ ان کے نکاح کی فکر کریں : وأنکحوا الایامیٰ منکم (النور:۳۲) ظاہر ہے کہ کسی بیوہ عورت کو نکاح سے روک دینا اس کے فطری تقاضوں کا خون کرنا اور اس کو بے سہارگی کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور کرنا ہے، نیز یہ کھلی ہوئی نا انصافی ہے کہ بیوی کے گزر جانے کے بعد مرد کو دوسرے نکاح کی اجازت ہو اور عورت کو اس کی اجازت نہیں ہو۔

۰ اسلام میں لڑکے اور لڑکی کے لئے شادی کی کوئی عمر متعین نہیں ہے؛ اگرچہ بہتر ہے کہ بالغ ہونے کے بعد نکاح کرے، جس کا اشارہ قرآن مجید میں موجود ہے، (النساء:۶) لیکن اگر مناسب رشتہ میسر آجائے تو نابالغ کا نکاح بھی کیا جا سکتا ہے، ہندو مذہب بھی یہی کہتا ہے؛ چنانچہ سیتا جی کہتی ہے:

’’جب ہماری شادی کو بارہ برس گزر گئے، اس وقت میرے شوہر کی عمر پچیس اور میری عمر اٹھارہ برس تھی‘‘۔ (راماین: ارنیہ کانڈ، سرگ ۴۷؍ اشلوک :۱۱،۱۰،۴)

سیتا جی کے اس بیان سے واضح ہوتا ہے کہ چھ سال کی عمر میں ان کی شادی ہوئی؛ بلکہ ہندو مذہب میں ترغیب دی گئی ہے کہ لڑکیوں کی شادی کم عمری میں کر دینی چاہئے:

’’ چار سے دس برس کی عمر کے اندر ہی باپ کو اپنی لڑکی کا بیاہ کسی صاحب علم، معروف جوان اور اچھے خاندان کے لڑکے سے کر دینی چاہئے، جو باپ اپنی یہ ذمہ داری ادا نہیں کرتا، وہ جہنم میں جائے گا‘‘ ۔ (برہی پران: ادھیائے، ۱۶۵، اشلوک: ۷)

بلکہ بعض مذہبی ماٰخذ میں تو بلوغ سے پہلے ہی لڑکی کی شادی کا حکم دیتے ہوئے جو ایسا نہ کرے، اس کو گناہ گار قرار دیا گیا ہے:

’’ بلوغت کو پہنچنے سے قبل ہی لڑکی بیاہ دینی چاہئے، جو شخص (یعنی لڑکی کا سرپرست)) ایسا نہیں کرتا، وہ گنہ گار ہوگا، حتی کہ بعض (علماء) کے مطابق لڑکی کپڑے پہننے (کی عمر) سے پہلے ہی بیاہ دینی چاہئے‘‘۔ (گوتم دھرم سوتر، ادھیائے: ۱۸، اشلوک: ۲۱؍ تا ؍۲۳)

۰  ہندو مذہب میں اس کی بھی تلقین کی گئی ہے کہ مرد عورت کے درمیان عمر کے اعتبار سے زیادہ فرق ہونا چاہئے؛ چنانچہ منوجی فرماتے ہیں:

’’ تیس سال کا مرد بارہ سال کی لڑکی سے شادی کرے گا، جو اسے خوش رکھ سکے، یا چوبیس سال کا مرد آٹھ سال کی لڑکی سے شادی کرے، تاہم دوسرے فرائض حائل نہ ہوں تو اسے جلد شادی کر لینی چاہئے‘‘۔ (منو دھرم شاستر:باب، ۹، اشلوک: ۹۴)

اسلام میں عمر کے فرق کے سلسلہ میں کوئی تصور نہیں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سے زیادہ عمر کی خاتون سے بھی نکاح فرمایا ہے، برابر عمر کی خاتون سے بھی اور اپنے سے کم عمر کی خواتین سے بھی۔

۰ کن رشتہ داروں سے نکاح حلال ہے اور کن سے نکاح حرام ہے؟ اسلام میں اس سلسلہ میں تفصیلی ہدایت دی گئی ہے، اور قرآن مجید کا پورا ایک رکوع اسی مسئلہ سے متعلق ہے(النساء: ۲۳) ہندو مذہب میں اس کے لئے گوتر قانون ہے، گوتر سے مراد ہے: قبیلہ اور خاندان ، یعنی اپنے خاندان میں نکاح نہیں ہو سکتا۔

اولاََ تو ہندو دھرم میں ذات پات کا تصور بہت گہرا ہے، جس ذات کو نیچ سمجھا جاتا ہے، اونچی ذات والی لڑکی سے اس کا نکاح نہیں ہو سکتا؛ لیکن خود اپنی برابری میں نکاح کے لئے یہ بات بھی ضروری ہے کہ وہ ایک ہی گوتر سے تعلق نہ رکھتے ہوں، اسی قانون کے تحت چچا زاد، خالہ زاد، ماموں زاد وغیرہ کے ساتھ نکاح نہیں ہو سکتا، اگر سات نسلوں میں بھی ان کا رشتہ مل جاتا ہے تب بھی وہ ایک دوسرے کے لئے حرام ہیں، اس طرح رشتوں کے انتخاب کے مواقع بہت محدود ہو جاتے ہیں۔

اسلام میں سگے بھائی بہن کے درمیان نکاح نہیں ہو سکتا، سگے بھائی بہن سے یہ مراد ہے کہ دونوں ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہوں، یا مائیں الگ ہوں دونوں کے باپ ایک ہوں، یا باپ الگ ہوں اور مائیں ایک ہوں، ان کے درمیان حرمت کی ایک تو اخلاقی مصلحت ہے، دوسری طبی، اخلاقی مصلحت یہ ہے کہ جن دو لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان دائمی طور پر حرمت کا رشتہ ہوتا ہے، ان میں طبعی طور پر جنسی تعلق کا تصور ختم ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ اگر کسی کو اس کی بہن کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے تو وہ اس کو بدترین گالی تصور کرتا ہے، اور مرنے مارنے پر اُتر آتا ہے، عام طور پر سگے بھائی بہن ایک گھر میں زندگی گزارتے ہیں، ایک ساتھ رہن سہن ہوتا ہے، اور بے تکلفی ہوتی ہے، اگر ان کو ایک دوسرے کے لئے حرام قرار نہ دیا جائے تو ان دونوں کے درمیان جنسی تعلق سے جو طبعی نفور ہوتا ہے وہ ختم ہو جائے گا، بھائیوں اور بہنوں کے درمیان ناجائز تعلقات کے واقعات بڑھ جائیں گے، اب اگر ان کے درمیان جسمانی رشتے قائم نہ ہوں، تب بھی کسی اور مرد سے لڑکی کا نکاح ہوگا، تو لڑکی کے شوہر کے دل میں اپنی بیوی کے بارے میں شبہ پیدا ہوگا، اور زندگی میں کڑواہٹ کا سبب بن سکتا ہے؛ طبی مصلحت یہ ہے کہ قریب ترین رشتہ دار سے نکاح کی صورت میں خلقی نقص کے ساتھ اولاد کے پیدا ہونے کا قوی اندیشہ ہے، جن قبائل میں اس طرح کی شادیاں ہوتی ہیں، وہاں ایسے واقعات پیش آتے ہیں، موجودہ دور میں جنیٹک سائنس بھی یہی کہتی ہے کہ شادی اجنبیوں سے یا دور کے رشتہ داروں سے ہونی چاہئے۔

اسلام نے بہت قریبی خونی رشتہ داروں کے علاوہ لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان رشتہ نکاح کو جائز قرار دیا ہے، جیسے: چچا زاد، خالہ زاد، ماموں زاد وغیرہ، اس کا ایک فائدہ تو یہ ہے کہ رشتے تلاش کرنا آسان ہوتا ہے، دونوں پہلے سے ایک دوسرے کی شکل وصورت اور اخلاق وعادات سے واقف ہوتے ہیں؛ اس لئے بعد میں اختلاف اور جھگڑے کی نوبت نہیں آتی، دوسرے: خاندان میں کچھ ایسے بزرگ ہوتے ہیں، جو دونوں کے نزدیک قابل احترام سمجھے جاتے ہیں، جب کبھی میاں بیوی میں اختلاف پیدا ہوتا ہے تو یہ بزرگ شخصیتیں مسئلہ کو سلجھانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں اور زندگی کی گاڑی پٹری سے ہٹ کر پھر اپنی پٹری پر واپس آجاتی ہے۔

۰ اسلام اور ہندو مذہب کے درمیان نکاح کے سلسلہ میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ اسلام کی نظر میں نکاح عقد ہے، عقد کے معنیٰ ہیں: باہمی معاہدہ، یعنی شوہرو بیوی معاہدہ کے دو فریق ہوتے ہیں، اس میں ایک فریق مالک اور دوسرا فریق مملوک نہیں ہوتا، قریب قریب  دونوں کا درجہ برابر ہوتا ہے ؛ اسی لئے قرآن مجید نے کہا ہے: ولھن مثل الذی علیھن (البقرہ: ۲۲۸) ہندو مذہب میں نکاح کو’’ کنیا دان‘‘ کہا جاتا ہے، کنیا کے معنیٰ دلہن کے ہیں، اور دان کے معنیٰ عطیہ کے ہیں، گویا لڑکی کا باپ لڑکی کو اپنے داماد کو عطیہ کر دیتا ہے، شوہر کی حیثیت مالک کی اور عورت کی حیثیت اس کی ملکیت کی ہوتی ہے، اس تصور سے ہندو معاشرہ میں دو اور تصورات پیدا ہوئے، ایک: ستی کا رواج کہ جب شوہر کا انتقال ہو اور ہندو رسم ورواج کے مطابق اس کی لاش جلائی جائے تو بیوی کو بھی اس کے ساتھ جل جانا چاہئے، یہ رسم ہندو سماج میں بہت قوت کے ساتھ رائج تھی، ہندوستان کے مسلم حکمرانوں نے اگرچہ ہندو رعایا کے لئے ان کے مذہبی قوانین باقی رکھا اور ان میں دخل نہیں دیا؛ لیکن ستی کی ظالمانہ اور غیر انسانی رسم کو منع کر دیا، اس کے باوجود بعض دفعہ ہندو معاشرہ میں ستی کے اکا دکا واقعات پیش آہی جاتے ہیں۔

دوسرا تصور یہ پیدا ہوا کہ جب کوئی لڑکی کسی مرد کے نکاح میں چلی جائے تو پھر ان کے درمیان طلاق نہیں ہو سکتی، اُن کو ہمیشہ کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ ہی زندگی گزارنا ہے، شاید اسی لئے شادی کی رسم انجام دیتے وقت دلہا دلہن کے کپڑے ایک دوسرے کے ساتھ باندھے جاتے ہیں، آگ جلائی جاتی ہے اور یہ دونوں اس آگ کے گرد سات چکر لگاتے ہیں، یہ اس بات کا وعدہ خیال کیا جاتا ہے کہ سات جنم کے لئے شوہر وبیوی ایک دوسرے کے ساتھی ہیں؛ اسی لئے اصل ہندو مذہب میں طلاق کا تصور نہیں ہے، یہاں تک کہ شوہر کے مرنے کے بعد بھی نکاح ختم نہیں ہوتا اور عورت دوسرا نکاح نہیں کر سکتی؛ البتہ چوں کہ یہ ایک غیر فطری قانون ہے؛ اس لئے ہندوستان میں ۱۹۵۵ء میں ہندو میرج ایکٹ کے نام سے ایک قانون بنا، جس میں طلاق کی گنجائش فراہم کی گئی اور ہندو بیوہ عورت کو نکاح کی اجازت دی گئی۔

۰ چوں کہ ایک عورت کے بیوہ ہونے کے بعد ہمیشہ تجرد کی زندگی گزارنا ایک غیر فطری بات ہے؛ اس لئے اس کا حل نیوگ کی شکل میں تلاش کیا گیا ہے کہ وہ اپنے دیور یا کسی اور مرد سے صنفی تعلق قائم کر کے اولاد حاصل کرے، پھر اس قانون کو وسعت دی گئی کہ اگر شوہر موجود ہو؛ لیکن باپ بننے کی صلاحیت نہ ہو تو عورت کسی اور مرد سے صنفی تعلق قائم کر کے اولاد پیدا کر سکتی ہے، مشہور ہندو عالم پنڈت دیانند جی سرسوتی نے اپنی معروف کتاب ’’ ستیہ پرکاش‘‘ میں اس پر تفصیل سے گفتگو کی ہے، اس عمل کو ’’ نیوگ‘‘ کہتے ہیں؛ چنانچہ سوامی جی لکھتے ہیں:

’’ جب شوہر اولاد پیدا کرنے کے قابل نہ ہو تب وہ اپنی عورت کو اجازت دے کہ اے نیک بخت اولاد کی خواہش کرنے والی! تو میرے علاوہ دوسرے شوہر کی خواہش کر؛ کیوں کہ اب مجھ سے اولاد نہیں ہو سکے گی، تب عورت دوسرے مرد کے ساتھ نیوگ کر کے اولاد حاصل کرے؛ لیکن اس بیاہے مہاشے (خاوند) کی خدمت میں کمربستہ رہے، ایسے ہی عورت جب بیماری وغیرہ میں پھنس کر اولاد پیدا کرنے کے قابل نہ ہو تو اپنے شوہر کو اجازت دے کہ اے مالک! آپ اولاد کی امید مجھ سے چھوڑ کر کسی دوسری بیوہ عورت سے اولاد حاصل کر لیجئے‘‘۔

آج کل بعض ہندو رہنما نیوگ کا انکار کر تے ہیں؛ لیکن یہ صحیح نہیں ہے ، ہندو دھرم کی مشہور کتاب ’’ مہا بھارت‘‘ کے مطابق وید ویاس جی نے اپنے بھائیوں چترانگ اور وچتر ویرج کے مرنے کے بعد ان کی بیویوں سے نیوگ کیا، جس سے دھرت راشٹر، پانڈو اور داسی پیدا ہوئے، سوامی دیا نند سرسوتی نے پوری قوت کے ساتھ ویدوں اور مذہبی کتابوں سے ثابت کیا ہے کہ نیوگ ایک جائز مذہبی بلکہ قابل ثواب عمل ہے، منوجی کی تعلیمات کو ہندو مذہب میں شریعت اور فقہ کا درجہ حاصل ہے، ان کے یہاں بھی بار بار اس کا ذکر ملتا ہے؛ چنانچہ فرماتے ہیں:

’’ اولاد حاصل نہ کر سکنے والی عورت اپنے دیور یا جیٹھ یا کسی اور مرد کے ساتھ اولاد کے لئے مباشرت کر سکتی ہے‘‘۔ (منو شاستر: باب،۹، اشلوک: ۵۹)

ایک اور موقع پر کہتے ہیں:

’’ مباشرت کے لئے مقرر کیا گیا مرد جسم پر گھی لگا کر خاموشی سے رات کو رجوع کرے گا‘‘۔ (منوشاستر: باب،۹،۔ اشلوک: ۶۰)

اگرچہ منوجی نے یہ نصیحت بھی کی ہے کہ:

’’ مقصد پورا ہو جانے کے بعد دونوں فریق ایک دوسرے کے لئے باپ اور بہو کی طرح ہوں گے‘‘۔ (منو شاستر: باب،۹ ؍اشلوک: ۶۲)

لیکن یہ بات قابل غور ہے کہ نیوگ کا تعلق قائم ہونے کے بعد پھر کیا ان کے روابط میں ایسا تقدس قائم رہ سکتا ہے!!
(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.