” کسان اور معاشرہ”

آمنہ جبیں ( بہاولنگر)
ہر دور ہر زمانے میں کسان کی تعریف مختلف کی گئی ہے۔ ہر انسان نے اپنے علم،مشاہدے اور تجزیے کے مطابق اس شخصیت کو بیان کیا ہے۔ بالکل اسی طرح میرے نزدیک بھی کسان کی ایک تعریف ہے۔ ” کسان ایک ایسی شخصیت ہے۔ جو مٹی سے کھیل کر خوبصورت زندگی کو پروان چڑھاتا ہے” کسان کا مٹی سے اور ماحول سے بہت گہرا تعلق ہوتا ہے۔ آج معاشرے میں کسان کو کوئی خاص مقام حاصل نہیں ہے۔ نہ ہی کسان کو عزت و تکریم کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ آخر کیوں؟ کیونکہ وہ مٹی سے بن کر مٹی میں رہتا اور مٹی سے الجھ کر زندگی بناتا ہے۔ چونکہ وہ مٹی کی اور درختوں کی دنیا سے وابستہ ہوتا ہے۔ اور اپنی اصل کو کبھی نہیں بھولتا۔ ہمیشہ سے ہم نے یہ جملا کتابوں میں پڑھا اور سنا ہے۔ کہ ” کپاس معشیت کی ریڑھ کی ہڈی ہے” لیکن سوال یہ ہے کہ کپاس کہاں سے آتی ہے۔ کون اس کے لیے محنت کرتا ہے۔ بے شک وہ ہستی کسان ہی ہے۔ جو اسے اگا کر محنت کرتی ہے۔ اور ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کو ٹوٹنے سے بچاتا ہے۔ جیسے معیشیت کی ریڑھ کی ہڈی کپاس ہے بالکل اسی طرح ملک کی ریڑھ کی ہڈی کسان ہے۔ اگر معشیت گرتی ہے تو ملک گرتا ہے۔ اور معشیت تب گرے گی جب کسان اندھیروں سے ٹکرا جائے گا۔ مایوس اور بدحال ہو جائے گا۔ ہمارے معاشرے میں کسان کو پینڈو اور جاہل تک تصور کیا جاتا ہے۔ اور دوسری طرف بڑی بڑی فیکٹریوں کے مالک اور جدید دنیا کے مطابق فقط کرسی پہ بیٹھ کر گھومنے والے لوگوں کو عزت اور مقام دیا جاتا ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ کیا ان امیر زادوں کے گھر میں روٹی نہیں بنتی ہے۔سبزی نہیں بنتی ہے۔ جو وہ کسان کو نچلے طبقے کا چھوٹا سا کارکن سمجھتے ہیں۔ آج لوگ اپنے بچوں کو یہ بھی کہتے ہیں ۔کہ پڑھ لو ورنہ یہی کیتھی باڑی اور مال مویشی سنبھالنا مقدر ہو گا۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ آج ایک کسان اپنی اولاد کے لیے یہ سوچنے پہ مجبور ہو چکا ہے۔ کہ کسان ہونا جرم ہے۔ کیونکہ یہ دنیا جینے نہیں دیتی۔ ہم پڑھے لکھے جاہل ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔یہاں تک کہ نوجوان نسل کو کیتھی باڑی کرتے وقت عجیب محسوس ہوتا ہے۔ کہ نہ جانے وہ کیا گناہ سرزد کر جائیں گے۔ افسوس کے ساتھ تلخ حقائق بیان کر رہی ہوں۔ کہ بہت سی نوجوان نسل کسان بننے سے کیتھی باڑی سے اس لیے بھی ڈرتی ہے۔ کہ پھر ان کی شادیاں اچھے گھروں میں نہیں ہوں گی۔ اور لوگ انہیں غریب اور نچلا سمجھیں گے۔ یہ بالکل حقیقت ہے۔ آج ہمارا معاشرہ صحیح معنوں میں زوال کا شکار اسی لیے ہے کہ وہ اپنے قدم زمین سے اکھاڑ کر آسمان اور چاند پر جما لینا چاہتا ہے۔ جب کہ زندگی کی بقا زمین کی زندگی میں ہی ہے۔ اگر کسان اپنا کام چھوڑ دے تو یہ دنیا کہاں جائے گی۔ کہاں سے روٹی کھائے گی۔ بیشک خالق اور رازق اللّٰہ پاک ہیں۔ لیکن اللّٰہ پاک لوگوں کو ایک دوسرے کا وسیلہ بنا دیتے ہیں۔ کسان بھی اسی طرح دنیا بھر کے لوگوں کے لیے روٹی کا وسیلہ ہیں۔
چنانچہ ارشاد خداوندی ہے ”اور ان لوگوں کے لیے ایک نشانی مردہ زمین ہے، ہم نے اسے زندہ کیا اور ہم نے اس سے غلے نکالے سو وہ اس میں سے کھاتے ہیں،اور ہم نے اس میں کھجوروں کے اور انگوروں کے باغ پیدا کیے اور ہم نے اس میں چشمے جاری کردئیے،تاکہ وہ اس کے پھلوں سے کھائیں اور اسے ان کے ہاتھوں نے نہیں بنایا، سو کیا وہ شکر ادا نہیں کرتے(سورہ یس : ۳۳، ۳۵)
ایک تو معاشرے کی اس تنگ نظری کا بوجھ ہے تو دوسری طرف حکومت نے کسان کی بدحالی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ہر سال حکومت کسان پیکج رکھ دیتی ہے۔ قرض دینے کے لیے بڑھ چڑھ کر بولتی ہے۔ لیکن افسوس! زرعی آلات وہی مہنگے ہیں۔ کھادیں اور سپرے کی قیمت وہی آسمان کو چھوتی ہے۔ ڈیزل کبھی مہنگا تو کبھی تھوڑا سستا ہوتا ہے۔ اتنے میں وہ کسان بیچارہ مارا جاتا ہے۔ فصل اگانے سے پک کر گھر آنے اور پھر بازار میں بک کر پیسے ہاتھ میں آنے تک اس کا ہر لمحہ ہر رات ہر دن کشمکش میں گزرتا ہے۔ راتوں کو اٹھ اٹھ کر اندھیری نگری میں بھٹک کر فصل کو سیراب کرتا ہے۔ دھوپ اور گرمی کی پرواہ کیے بغیر ہلکان ہوتا ہے۔ محنت کرتا ہے۔ ایک محنتی کسان وہ سب خرچ کر دیتا ہے۔ جو اس کے پاس جمع ہوتا ہے کہ سال کے آخر پر فصل اسے اچھا منافع دے گی اور سارے خسارے دور ہو جائیں گے۔ وہ ہمت سے چلتا رہتا ہے۔ چاہے قرض لینا پڑے لیکن وہ اپنی فصل اور کھیت کو ہر حال میں ہرا بھرا اور امید سے بھرپور کرتا ہے۔ اور پھر اگر دیکھا جائے تو موسم کے ناساز گار حالات سے بھی رگڑیں کسان ہی کھاتا ہے۔ جب کے دوسرے طبقے کے لوگ استاد ، ڈاکٹر اور دیگر پیشوا نے تو ہر حال میں تنخواہ لے ہی لینی ہے۔ لیکن کسان کی کُل جمع پونجی تو لگ چکی ہوتی ہے۔ جب بے موسمی بارشوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ تو وہ رات وہ دن وہ لمحات کسان کے لیے ایک عذاب کی طرح ہوتے ہیں۔ کیونکہ اسے اپنی فصل کے تباہ ہونے کا ڈر ہوتا ہے۔ اہم بات تو یہ ہے کہ حالات جیسے بھی ہو جائیں کسان جس مرضی بری حالت سے گزرے لیکن یہ معاشرہ پھر بھی جینے نہیں دیتا۔ جب گندم، آٹا ،سبزیاں دالیں ذرا سی مہنگی ہوتی ہیں۔ تو سب سے پہلے ہم کو ان کے دام بڑھنے کی پریشانی کھاتی ہے۔ اور حکومت اس احتجاج پہ قیمتیں کم بھی کر دیتی ہے۔ لیکن کبھی کوئی تصور نہیں کرتا کہ اس کے پیچھے جو انسان ہے اس نے کتنی کوشش اور محنت کی ہے۔ اسےبھی اس سے کچھ بچے گا یا نہیں؟ یہ سوچے بغیر ہم ان تمام چیزوں کے مہنگے ہونے کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں۔ جبکہ موسمی حالات کے پیشِ نظر کسان جن بھی حالات سے گزرے چاہے آخر میں لگائی گئی اینویسٹ کی گئی رقم بھی پوری نہ ہو۔ لیکن ہم پھر بھی روتے ہیں۔ اس کے حالات نہیں سمجھتے ہیں۔ یہ ان مختلف قسم کے پیکجز، قرضوں اور سبسڈی کا کسان کو کیا فائدہ جب باقی ضرورت کی تمام اشیا مہنگی ہوتی ہیں۔ اگر حکومت کسان کے لیے صحیح طریقہ سے کچھ کرنا چاہتی ہے۔ تو اسے زرعی آلات،ادویات ڈیزل اور کھادوں کہ قیمتیں بہت ہی معقول کرنی ہوں گی۔ قرض سے ذیادہ یہ سہولیات کسان کے لیے کار آمد ثابت ہو سکتی ہیں۔ اور معاشرے کو یہ سمجھنا ہو گا کہ کسان ہونا اور کیتھی باڑی کرنا کوئی جرم نہیں۔
قرآن میں ایک جگہ زراعت کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد باری عز وجل ہے :”اللہ وہی ہے جس نے تمہارے لیے آسمان سے پانی اتارا اور اس میں پینے کا پانی ہے اور اس کے ذریعے درخت پیدا ہوتے ہیں جن میں تم چراتے ہو،وہ تمہارے لیے اس کے ذریعہ کھیتی اور زیتون اور کھجوریں اور انگور اور ہر قسم کے پھل اگاتا ہے، بلاشبہ اس میں ان لوگوں کے لیے نشانی ہے جو غور کرتے ہیں(النحل: ۱۱، ۱۲)۔
اللّٰہ پاک خود زراعت کو اختیار کرنے کا حکم دے رہے ہیں۔ زمین کو تسخیر کر کے پھل پھول سبزیاں اناج اگا کر کسان معاشرے کا اہم حصہ بن جاتا ہے۔ اس لیے خدارہ کسان کو بھی قدر اور اہمیت کی نگاہ سے دیکھیں۔ جو وہ ہے وہ آپ نہیں ہیں کیونکہ وہ اس کی ہی خوبی ہے۔ اس لیے کسانوں اور زراعت سے وابستہ لوگوں کو نچلی نظر سے دیکھنے کی بجائے انہیں بھی عزت اور احترام بخشو تا کہ وہ بھی بغیر کسی بوجھ کے جی سکیں۔
Comments are closed.