افواہ طرازی: اسلامی تناظرمیں (١)
عزت و آبروکی حفاظت

دبیر احمد قاسمی مدرسہ اسلامیہ شکرپور بھروارہ
عزت و آبرو کی حفاظت ہر انسان کا بنیادی حق ہے ، دنیا بھر میں رائج دساتیر اور قوانین میں اس کو بنیادی حیثیت دی گئی ہے ۔
اسلامی قانون نے ایک قدم آگے بڑھ کر اِس کو "مقاصد شریعت” کے باب میں جگہ دی ہے ، چنانچہ جس طرح جان و مال ، فکر و عقیدہ اور عقل کا تحفظ شریعت کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے ، اسی طرح عزت و آبرو کا تحفظ بھی مقاصد شریعت کا لازمی حصہ ہے ۔
امام غزالی رح فرماتے ہیں :
"إن مقصود الشرع من الخلق خمسة : أن يحفظ عليهم دينهم ونفسهم وعقلهم ونسلهم ومالهم، فكل ما يتضمن حفظ هذه الأصول الخمسة فهو مصلحة، وكل ما يفوت هذه الأصول فهو مفسدة ودفعها مصلحة”……(المستصفی للغزالي ١/٢٨٧)
خلق کے بارے میں شریعت کے پانچ مقاصد ہیں ، اور وہ یہ ہیں کہ اس کے دین ، اس کی جان ، اس کی عقل ، اس کی نسل اور اس کے مال کی حفاظت کی جائے ، پس ہر وہ بات جو اِن اصول خمسہ کی حفاظت کی ضامن ہو وہ "مصلحت”قرار پائے گی اور ہر وہ چیز جو ان پانچوں امور کی حفاظت میں مخلّ ہو وہ "مفسدہ” قرار پائے گی اور اس کا ازالہ "مصلحت” ہوگا ۔
اسلامی شریعت میں "نسل و نسب” کی حفاظت سے متعلق جو احکام ہیں ان کی غرض وغایت دراصل عزت و آبرو ہی کی حفاظت ہے ۔
مثلاً تہمت زنا کی حدّ اس لئے مقرر کی گئی ہے کہ اس سے کسی کی آبرو داغدار ہوتی ہے ، اگر کوئی شخص کسی پر زنا سے کم درجے کی تہمت لگائے تو اس کے لئے بھی تعزیریں (سزائیں ) ہیں کیونکہ تہمت تراشی کا مقصد کسی کو بے آبرو کرنا ہوتا ہے ۔
"فقہِ مقاصد” کے مطالعے سے اندازہ ہوگا کہ شریعت کے سینکڑوں نہیں ہزاروں احکام کی غایت و منشاء لوگوں کی عزت و آبرو کی حفاظت ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاک ارشادات میں جگہ جگہ اس کی صراحت ہے کہ انسان کے جان و مال کی طرح اس کی عزت و آبرو بھی محترم ہے ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مومن کی آبرو کو کعبہ سے بھی زیادہ محترم قرار دیا ہے ۔
آپ ص نے حجۃ الوداع کے موقعے پر فرمایا تھا :عن حذيم بن عمرو السعدي: سمعتُ رسولَ اللهِ ﷺ يقولُ في خطبتِه يومَ عرفةَ في حجَّةِ الوداعِ اعلموا أنَّ دماءَكم وأموالَكم وأعراضَكم حرامٌ عليكم كحُرمةِ يومِكم هذا، كحُرمةِ شهرِكم هذا، كحُرمةِ بلدِكم هذا (ابن حزم (ت ٤٥٦)، حجة الوداع ١٧٠ •إسناده متصل صحيح)
حذیم بن عمرو السعدی روایت کرتے ہیں کہ میں نے حجۃ الوداع میں عرفہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اے لوگو! بلاشبہ تمہاری جان ، تمہارا مال اور تمہاری آبرو (تمہارے درمیان) اسی طرح محترم ہے جس طرح آج کا دن محترم ہے ، جس طرح یہ مہینہ اور یہ شہر قابل احترام ہے ۔
ایک حدیث میں آپ ص نے فرمایا :
عن أبي هريرة: كلُّ المسلمِ على المسلمِ حرامٌ مالُهُ وعِرْضُهُ ودَمُهُ (رواه ابن ماجه ٣١٩٢ )
ہر مسلمان کا دوسرے مسلمان پر ، اُس کا مال ، اُس کی عزت و آبرو اور خون حرام ہے ۔
*افواہوں کی تباہ کاری*
موجودہ دور میں جھوٹ ، حسد ، غیبت ، بہتان اور افواہوں کی کثرت کی وجہ سے *عزت و آبرو* جیسی بیش قیمت اور محترم چیز بھی متاعِ کوچۂ و بازار بن گئی ہے ۔
اب لوگ علی الاعلان ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے ہیں اور ایک دوسرے کی نکتہ چینی اور عیب جوئی کرتے ہیں ۔ اوربعض لوگ تو فرضِ منصبی کی طرح اِس فریضے کو انجام دیتے ہیں ، گھروں ، دکانوں اور بستیوں میں گھوم گھوم کر جھوٹ ، غیبت ، بہتان طرازی اور افواہ سازی کے ذریعے فضا کو اس قدر مسموم اور زہر آلود کردیتے ہیں کہ ایک گھٹن سی محسوس ہونے لگتی ہے ، ایسے ماحول میں نیک و متقی اور پرہیزگار قسم کے لوگ بھی مشتبہ اور داغدار ہوجاتے ہیں حالانکہ جیسا کہ ماقبل میں گزرا ہے کہ جس طرح شریعت نے تہمتِ زنا کی سزا مقرر کی ہے ، اسی طرح زنا کے علاوہ دوسری تہمتوں کے لئے بھی تعزیریں (سزائیں) ہیں ۔
معاشرے میں چونکہ جھوٹ اور افواہوں کا چلن بہت زیادہ ہے اور کانوں تک پہنچنے والی باتوں کی تحقیق کا مزاج مفقود ہے ، اس لئے اِس طرح کی افواہیں بہت تیزی سے پھیلتی ہیں اور "اصل حقیقت” افترا پردازی اور جھوٹ کے گرد و غبار میں مسخ ہو کر رہ جاتی ہے
"ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ”
*منافقین اور جھوٹی افواہیں*
اسلامی تاریخ پر ایک سرسری نگاہ ڈالئے تو اندازہ ہوگا کہ یہودومنافقین نے اسلامی معاشرے میں ہمیشہ جھوٹی خبروں اور افواہوں کے ذریعے اضطراب اور بے چینی کی فضا پیدا کرنے اور مقدّس شخصیات کو متہم اور داغدار کرنے کی کوشش کی ، جس سے بارہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے قلب اطہر کو چوٹ پہنچی اور آپ کو شدید رنج و غم لاحق ہوا ، "اِفک” کا واقعہ مشہور ہے جس سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے اصحاب رض کو سخت ذہنی اور قلبی اذیت پہنچی ۔ غزوۂ تبوک کے موقعہ پر قرآن پاک میں صراحت کے ساتھ یہ بات فرمائی گئی کہ اگر منافقین اِس مہم میں تمہارے ساتھ شریک ہوتے تو تمہارے درمیان طرح طرح کے فتنے پیدا کرتے اور دشمن کی طاقت و قوت کے من گھڑت قصوں اور افواہ طرازیوں کے ذریعے تم کو سراسیمہ اور خوف زدہ کرنے کی کوشش کرتے ۔
*لَوْ خَرَجُوا فِيكُمْ مَا زَادُوكُمْ إِلا خَبَالا وَلأَوْضَعُوا خِلالَكُمْ يَبْغُونَكُمُ الْفِتْنَةَ وَفِيكُمْ سَمَّاعُونَ لَهُمْ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ* (التوبة ٤٧)
اگر یہ لوگ تمھارے ساتھ شامل جاتے تو سوائے اس کے کہ اور زیادہ فساد کرتے اور کیا ہوتا اور تمھارے درمیان فتنہ پردازی کے فکر میں دوڑے دوڑے پھرتے اور (اب بھی) تم میں اُن کے کچھ جاسوس موجود ہیں اور ان ظالموں کو الله خوب سمجھے گا۔ (47)
حضرت تھانوی رح اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
یعنی لگائی بجھائی کرکے آپس میں تفریق ڈلواتے اور جھوٹی خبریں اڑا کر پریشان کرتے ، دشمن کارعب تمہارے قلوب میں ڈالنے کی کوشش کرتے اس لیے ان کانہ جاناہی اچھا ہوا ۔
صاحب روح المعانی لکھتے ہیں :
أيْ يَطْلُبُونَ أنْ يَفْتِنُوكم بِإيقاعِ الخِلافِ فِيما بَيْنَكم وتَهْوِيلِ أمْرِ العَدُوِّ عَلَيْكم وإلْقاءِ الرُّعْبِ في قُلُوبِكم (روح المعاني)
وہ چاہتے ہیں کہ تمہارے درمیان تفرقہ اندازی اور (جھوٹی خبروں اور افواہوں کے ذریعے ) تمہارے دلوں میں دشمن کی طاقت کا خوف اور رعب ڈال کر تم کو فتنے اور آزمائش میں مبتلا کریں ۔
حضرت علی رض اور حضرت عثمان غنی رض کے عہد خلافت کی جنگوں کے احوال پڑھئے تو اندازہ ہوگا کہ یہودو منافقین نے جھوٹی خبروں اور افواہ طرازیوں کے ذریعے کس طرح معمولی معمولی واقعات کو بڑی بڑی جنگوں میں تبدیل کر دیا ۔
*مغربی میڈیا اور افواہوں کی تشہیر*
جھوٹ اور افواہ کی تشہیر میں اہل مغرب کو جیسی مہارت حاصل ہے ، مسلمانوں سے زیادہ شاید کسی قوم کو اُس کا اندازہ نہیں ہوگا ۔
اسلام اور مسلمانوں کی شبیہ کو بگاڑنے کے لئے اہل یورپ صدیوں سے نہایت منظم انداز میں کوششیں کر رہے ہیں اور وہ اس میں بڑی حد تک کامیاب بھی ہیں ، انہوں نے ہردور میں مصنفین اور اصحاب قلم کی ایک مستقل اور علیحدہ جماعت کو اسلام کے خلاف برسر پیکار رکھا جن کا مقصد اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف جھوٹ گڑھنا اور افواہوں کی صورت میں اُس کی ترویج و اشاعت کرنا رہا ہے ۔
اِس سلسلے میں سب سے زیادہ منفی رول مغربی میڈیا کا رہا ہے ، مغربی میڈیا کا بنیادی طریقہ یہ ہے کہ کسی جھوٹ کو اتنے تواتر اور کثرت کے ساتھ بولا جائے کہ بالآخر وہ سچ معلوم ہونے لگے
اس کی واضح مثال "دہشت گردی” کا جھوٹ ہے ، مغربی میڈیا نے اِس جھوٹ کو اتنی ہوا دی اور کچھ اس انداز سے افواہ سازی کی کہ پوری دنیا میں مسلمانوں کو دہشت گردی سے جوڑ کر دیکھا جانے لگا اور لوگ یہ باور کرنے لگے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے ۔
اِسے مغربی میڈیا کی افسانہ طرازی کا کمال کہئے کہ خود مسلمانوں کا ایک طبقہ شام ، عراق اور افغانستان میں مغرب کی برپا کردہ جنگوں میں مسلمانوں ہی کو قصوروار سممجھتا ہے ، حالانکہ ان جنگوں کا پس منظر یہ ہے کہ ان جنگوں کا جواز ثابت کرنے کے لیے پہلے جھوٹی خبروں اور بے بنیاد الزامات کو میڈیا کے ذریعے ہوا دی گئی ، انسانوں کے بہیمانہ قتل اور خون خرابے کی فرضی ویڈیوز مشتہر کی گئیں ، آیات جہاد کے مفہوم کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا اور اس کے بعد نہتے شہریوں ، معصوم بچوں اور مجبور و لاچار عورتوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی ، اُن کے ہلاکت خیز ہتھیاروں ، بمبار جہازوں اور بڑے بڑے ٹینکوں نے اُن "معصوموں” کو خاک و خون میں تڑپایا جو "دہشت گردی” کے مفہوم سے بھی آشنا نہیں تھے ۔
مغرب کا "فرشتہ” یہی کہتا رہا کہ دنیا سے "دہشت گردی” کے خاتمے کے لئے یہ اقدام بہت ضروری تھا ۔
مغربی میڈیا نے ہمیشہ دنیا کو یہی تاثر دینے کی کوشش کی اور وہ اس میں کافی حد تک کامیاب بھی رہے کہ اگر ان "دہشت گرد گروہوں” کا جلد از جلد خاتمہ نہیں کیا گیا ہوتا تو عالمی امن کو سخت خطرہ لاحق ہو جاتا ۔مسلمانوں کے پاس چونکہ اہل مغرب جیسا طاقتور میڈیا نہیں ہے اور نہ ہم کو میڈیا کی اہمیت اور ضرورت کا صحیح طور پراحساس و ادراک ہے ، اس لئے ہم مغرب کی افواہ طرازیوں کے طوفان کا مقابلہ نہیں کر پائے ۔
حالانکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم کی حیات مبارکہ کا جائزہ لیجئے تو اندازہ ہوگا کہ آپ ص نے اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں میڈیا کے ذرائع کا خوب استعمال کیا ہے ، آپ ص نے اپنی نبوت کا اعلان صفا کی پہاڑی سے کیا ، جس کی حیثیت اس وقت کسی خاص اور اہم پیغام کو عام لوگوں تک پہنچانے کے لئے ایک میڈیا ہاؤس کی تھی ، آپ ص حج جیسے مجمعوں میں گھوم گھوم کر لوگوں کو اسلام کا پیغام پہنچاتے تھے ،
عرب کے دور دراز علاقوں سے لوگ جس طرح حج کے موقعے پر جمع ہو جاتے تھے ، شاید اُن کو اکٹھے دین کا پیغام پہنچانے کا اس سے بہتر موقعہ نہیں ہو سکتا تھا ، آپ ص نے حج ہی کے موقعے پر ایک لاکھ سے زیادہ کے مجمعے سے بھی خطاب فرمایا ہے ، اِن اشارات سے سمجھا جا سکتا ہے کہ اسلام کی صحیح تصویر دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لئے صحافت اور میڈیا کے ذرائع کی کیا اہمیت ہے ۔
*سوشل میڈیا کے ذریعے جھوٹی خبروں کی تشہیر*
موجودہ دور میں ذرائع ابلاغ کی وسعت اور سائنس و ٹیکنالوجی کی غیرمعمولی ترقی نے پرنٹ میڈیا کی اہمیت کو بڑی حد تک کم کر دیا ہے ، اب انگلیوں کی معمولی جنبش سے دنیا کے اِس گوشے سے اُس گوشے تک کی خبر چند سکینڈز میں معلوم کی جاسکتی ہے ، کسی خبر کو تھوڑے سے وقفے میں پوری دنیا میں عام کیا جاسکتا ہے ، علم و فن کے کسی بھی جزئیے کو خواہ وہ کسی بھی زبان میں ہو آسانی سے پڑھا اورسمجھا جا سکتا ہے ، یقیناً اِس دور کے صنعتی ، سائنسی اور علمی و فکری انقلاب میں اِس کا بڑا اہم رول ہے لیکن اِس کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے ۔ ان سائنسی ترقیات نے جہاں معلومات کی فراہمی اور ماضی کے علمی ، ادبی اور فکری سرمائے کی حصولیابی کو بہت آسان بنادیا ہے ، وہیں اس نے جھوٹی خبروں اور افواہوں کی تشہیر کو بھی بہت آسان کر دیا ہے ، اب *آن لائن جھوٹ* اور *آن لائن غیبت* کی ایسی وسیع اور ہمہ گیر صورتیں پیدا ہو گئی ہیں ، جس کا ماضی میں تصور تک نہیں تھا ، منفی اور تخریبی ذہن کے حامل افراد اِس *خوان پُر نعمت* سے خوب لطف اندوز ہو رہے ہیں ، وہ سوشل میڈیا کی مدد سے اپنے مدّمقابل کے خلاف جی بھر کر بھڑاس نکالتے ہیں اور کسی مدافعت کے خطرے سے آزاد ہوکر کیچڑ اچھالتے ہیں ۔
دعاۃ و مبلغین اور مصلحین کے لئے یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے ، یقیناً جیسے جیسے وقت گزرے گا اِس موضوع پر اسلامی لٹریچر میں بھی اضافہ ہوگا اور اصلاح احوال کی طرف توجہ بھی ہوگی ۔
Comments are closed.