افواہ طرازی: اسلامی تناظر میں (دوسری اور آخری قسط)

افواہوں کو روکنے کی تدابیر

 

دبیر احمد قاسمی مدرسہ اسلامیہ شکرپور بھروارہ

قرآن و سنت نے افواہوں کی روک تھام کے لیے ایسے کارآمد اصول وضع کئے ہیں کہ اگر ان کو صحیح طور پر روبہ عمل لایا جائے تو افواہوں کو بآسانی پھیلنے سے روکا جا سکتا ہے اور اُس کے نقصانات سے فرد اور معاشرے کو بچایا جاسکتا ہے ۔
اُن اصولی اور عملی ہدایات کے مطالعے سے اندازہ ہوگا کہ بلند پایہ مفکرین کے عقلی اور نظری اجتہادات ، حقوق انسانی کی علمبردار تنظیموں کی تجویز کردہ قراردادوں اور پارلیمنٹوں کے ذریعے وضع کردہ قوانین کے ذریعے ہرگز اُس طرح جھوٹی خبروں اور افواہوں کو نہیں روکا جا سکتا ہے ، جس طرح اسلامی تعلیمات اور ہدایات پر عمل کرکے معاشرے کوجھوٹی افواہوں سے بچایا جا سکتا ہے ۔

*جھوٹ معاشرے کا ناسور*
اِس سلسلے میں سب سے اہم اور بنیادی بات یہ ہے کہ جھوٹ سے حتی الامکان گریز کیا جائے اس لئے کہ اکثر و بیشتر افواہیں جھوٹی اور بے بنیاد خبروں پر مشتمل ہوتی ہیں ، اگر معاشرے سے جھوٹ کی لعنت کو ختم کر دیا جائے تو افواہیں خود بخود ختم ہو جائیں گی ۔
اس مسئلے کو اگر ایک دوسرے زاوئے سے دیکھئے تو یہ انتہا درجے کی خیانت ہے کہ آپ کا مخاطب آپ کی باتوں کو غور و توجہ سے اور آپ کو سچا جان کرسنے اور آپ کذب بیانی سے کام لیں
رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا :”كَبُرَتْ خِيَانَةً أَنْ تُحَدِّثَ أَخَاكَ حَدِيثًا هُوَ لَكَ بِهِ مُصَدِّقٌ وَأَنْتَ لَهُ بِهِ كَاذِبٌ”(سنن أبي داود :4971).
بڑی خیانت کی بات ہے کہ تم اپنے بھائی سے کوئی بات کہو ، وہ تمہیں سچا جان رہا ہو اور تم اس سے جھوٹ بول رہے ہو ۔
زیادہ تر اخلاقی اور سماجی برائیوں کی جڑ "جھوٹ” ہی ہے ، افواہیں اِسی سے جنم لیتی ہیں ، غیبت اور چغلخوری کے تانے بانے بھی اِسی سے جڑے ہوئے ہیں ، تہمت تراشی اور الزام سازی بھی جھوٹ ہی کی مروّجہ شکل ہے ، نفاق جیسی مہلک روحانی بیماری بھی جھوٹ ہی سے پیدا ہوتی ہے ، غرض ملی و جماعتی زندگی کے بیشتر مسائل جھوٹ کی لعنت سے پیدا ہوتے ہیں ، لہذا اگر جھوٹ کو معاشرے سے ختم کردیا گیا تو مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کے بہت سے مسائل از خود ختم ہو جائیں گے ۔

*غیبت سے اجتناب*
افواہیں کسی نہ کسی شخص کی غیبت پر مشتمل ہوتی ہیں ، اس لئے جھوٹ کی قباحت کے ساتھ غیبت کا گناہ بھی اس میں شامل ہو جاتا ہے ، غیبت کی قباحت زنا سے بھی بڑھی ہوئی ہے ، یہ اپنے حقیقی مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانے کے مرادف ہے ، جس کی غیبت کی جائے اس کے تو درجے بلند ہوتے ہیں لیکن غیبت کرنے اور سننے والے خواہ مخواہ اپنی دنیا اور آخرت تباہ کرتے ہیں ۔

*ہر بات کی تحقیق ضروری ہے*
کسی خبر کی باوثوق ذرائع سے جب تک تحقیق نہ ہو جائے اس وقت تک اس کو لوگوں سے بیان نہیں کرنا چاہئے ، یہ ہر آدمی کا فرض ہے کہ جب کسی شخص کے بارے میں کوئی خبر اس تک پہنچے تو پہلے اس کی اچھی طرح چھان بین کرے ورنہ اس کا قوی امکان ہے کہ وہ عجلت و جلد بازی میں کسی اچھے آدمی کے بارے میں بھی غلط رائے قائم کر لے گا جس پر بعد میں اس کو ندامت و شرمندگی ہوگی ۔
قرآن پاک میں بڑے بلیغ انداز میں یہ بات کہی گئی ہے
یا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَن تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ (سورة الحجرات ٦)
اے ایمان والو اگر کوئی شریر آدمی تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو خوب تحقیق کرلیا کرو کبھی کسی قوم کو نادانی سے کوئی ضرر نہ پہنچادو پھر اپنے کئے پر پچھتانا پڑے۔
ان آیات کے نزول کا پس منظر یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ولید بن عقبہ بن ابی معیط کو قبیلہ بنی المصطلق سے زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے بھیجا ، ولید میں اور اُن میں عہد جاہلیت میں کچھ عداوت و دشمنی تھی ، اس لئے ولید کو وہاں جاتے ہوئے کچھ خوف و اندیشہ ہوا ، اُن لوگوں کو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے قاصد کے آنے کی خبر پہنچی تو وہ لوگ بہت خوش ہوئے اور استقبال کیلئے اپنی سواریوں پر باہر نکل آئے ، اُن کو اس طرح دیکھ کر ولید کو گمان ہوا کہ یہ لوگ اس کے قتل کے ارادے سے آئے ہیں ، واپس آ کر ولید نے آپ ص سے یہ کہہ دیاکہ قبیلہ بنی مصطلق کے لوگ مرتد ہو چکے ہیں ، انہوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا اور مجھے قتل کرنے کی بھی کوشش کی ، آپ ص نے تحقیق حال کے حضرت خالد بن ولید کو بھیجا اور یہ ہدایت کر دی کہ ہر گز عجلت سے کام نہ لیں ، حضرت خالد بن ولید کو اُن لوگوں میں بجز خیر کوئی چیز نظر نہیں آئی ، انہوں نے آکر آپ ص کو اطمینان دلایا اُسی موقعے پر یہ آیات نازل ہوئیں ۔
آیت کے شان نزول سے سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر ایک جھوٹی خبر پر یقین کر لیا جاتا اور اُس کی باقاعدہ تحقیق نہ کی گئی ہوتی تو ارتداد اختیار کرنے کے الزام میں یہ سارے لوگ قتل کر دئے جاتے ۔
اس آیت کی تفسیر میں صاحب روح المعانی لکھتے ہیں
"فَتَبَيَّنُوا”
تَنْبِيهٌ عَلى أنَّهُ إذا كانَ الخَبَرُ شَيْئًا عَظِيمًا وما لَهُ قَدْرٌ فَحَقُّهُ أنْ يُتَوَقَّفَ فِيهِ وإنْ عُلِمَ أوْ غَلَبَ صِحَّتُهُ عَلى الظَّنِّ حَتّى يُعادَ النَّظَرُ فِيهِ .
اس میں تاکید ہے کہ جب کسی خبر کا کسی بڑے اور اہم معاملے سے تعلق ہو تو اگر چہ اُس خبرکے درست ہونے کا (بظاہر) یقین یا غالب گمان ہو لیکن اُس( کی اہمیت) کا تقاضہ یہ ہے کہ
جب تک خوب اچھی طرح اُس کی تحقیق نہ کر لی جائے ، اُس میں توقف سے کام لیا جائے ۔
"فَتَبَيَّنُوا”کی تفسیر میں امام نسفی فرماتے ہیں : فَتَوَقَّفُوا فِيهِ، وتَطَلَّبُوا بَيانَ الأمْرِ، وانْكِشافَ الحَقِيقَةِ، ولا تَعْتَمِدُوا قَوْلَ الفاسِقِ، لِأنَّ مَن لا يَتَحامى جِنْسَ الفُسُوقِ، لا يَتَحامى الكَذِب(تفسير النسفي)
ایسی خبروں میں توقف سے کام لو ، اورفاسق شخص کی خبر پر اعتماد نہ کرکے خود معاملے کی تہ تک پہنچنے اور حقیقت کو جاننے کی کوشش کرو ، اس لئے کہ جو شخص فسق و فجور سے نہیں بچتا ہے وہ جھوٹ بولنے سے بھی دریغ نہیں کرے گا ۔

*افواہ پھیلانے سے بچیں*
افواہوں کو روکنے کا سب سے موثر طریقہ یہ ہے کہ اس کے بارے میں سکوت کا طریقہ اختیار کیا جائے ، اس طرح افواہیں خود بخود ختم ہو جاتی ہیں
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حضرت صفوان بن معطل رض کے بارے میں جب منافقین نے افواہ طرازی شروع کی اور ان کے دامن عصمت کو داغدار کرنے کی کوشش کی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اُن سے بحث و گفتگو کے بجائے سکوت اور خاموشی کا طریقہ اختیار کیا تا آنکہ قرآن پاک میں سیدہ عائشہ رض کے پاک و بری ہونے کی آیات نازل کر دی گئیں ۔
ان آیات میں افواہوں کے سلسلے میں ایک خاص ہدایت یہ دی گئی کہ جب کوئی جھوٹی خبر یا الزام تمہارے کانوں تک پہنچے تو اپنی زبانوں کو اُس سے
آلودہ کرنے کے بجائے خاموشی کا طریقہ اختیار کرو
وَلَوْلا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ قُلْتُمْ مَا يَكُونُ لَنا أَنْ نَتَكَلَّمَ بِهذا سُبْحانَكَ هَذَا بُهْتانٌ عَظِيمٌ.
(سورہ النور ,١٦)
اور تم نے جب اس (بات) کو (اول) سنا تھا تو یوں کیوں نہ کہا کہ ہم کو زیبا نہیں کہ ہم ایسی بات منہ سے بھی نکالیں معاذالله یہ تو بہت بڑا بہتان ہے۔
علامہ آلوسی رح لکھتے ہیں
عِتَابٌ لِجَمِيعِ الْمُؤْمِنِينَ أَيْ كَانَ يَنْبَغِي عَلَيْكُمْ أَنْ تُنْكِرُوهُ وَلَا يَتَعَاطَاهُ بَعْضُكُمْ مِنْ بَعْضٍ عَلَى جِهَةِ الْحِكَايَةِ وَالنَّقْلِ،
اس آیت میں تمام ایمان والوں پر عتاب کا اظہار ہے ، یعنی مناسب یہ تھا کہ تم اس بہتان طرازی پر نکیر کرتے اورتم لوگ اس کو حکایت کے طورپر نقل در نقل نہ کرتے پھرتے ۔

*ستر پوشی*
خاص طور پر ایسی خبروں کو بیان کرنے سے گریز کرنا چاہیے جس سے کسی کی عزت مجروح ہوتی ہے ، کیوں کہ عزت و آبرو کی حفاظت ہر انسان کا بنیادی حق ہے ، کسی کو بے آبرو کرنا اور اس کے بارے میں غلط افواہیں پھیلانا شرعی اور اخلاقی تقاضوں کے مغائر ہے ۔
اِس کے برعکس اگر دوسروں کی عزت و آبرو کی حفاظت کے خیال سے افواہوں اور جھوٹی خبروں کو پھیلانے سے گریز کیا جائے تو ایسے لوگ نہ صرف دنیا میں سرخرو اور کامیاب ہوں گے بلکہ قیامت کے دن بھی اُن کے عیوب و نقائص کو اہل محشر کی نگاہوں سے مخفی رکھا جائے گا ۔
عَنْ ابْنِ عَبّاسٍ «عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قالَ مَن سَتَرَ عَوْرَةَ أخِيهِ المُسْلِمِ سَتَرَ اللَّهُ عَوْرَتَهُ يَوْمَ القِيامَةِ ومَن كَشَفَ عَوْرَةَ أخِيهِ المُسْلِمِ كَشَفَ اللَّهُ عَوْرَتَهُ حَتّى يَفْضَحَهُ بِها فِي بَيْتِهِ» (رواه إبن ماجة)
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو اپنے مسلمان بھائی کی پردہ پوشی کرے گا، قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اس کی پردہ پوشی فرمائے گا، اور جو اپنے مسلمان بھائی کا کوئی عیب فاش کرے گا، اللہ تعالیٰ اُس کا عیب فاش کرے گا، یہاں تک کہ وہ اُسے اس کے گھر میں بھی ذلیل کرے گا“۔

*بالمشافہ تحقیق*
جب کسی مسئلے میں افواہوں کا بازار گرم ہو اور متنوع اور مختلف قسم کی آراء سامنے آرہی ہوں تو کوشش کر کے مناسب انداز میں براہ راست اُس کی تحقیق کر لینی چاہئے ، جھوٹی خبروں پر یقین کر لینا اور افواہوں کے پیچھے بھاگنا دانشمندی نہیں ہے ۔
قرآن پاک میں بے بنیاد خبروں کے پیچھے بھاگنے اور افواہوں پر یقین کرنے سے سختی سے روکا گیا ہے ، یہ بتایا گیا ہے کہ کان آنکھ اور دل نہ صرف حصول معلومات کے اہم ذرائع ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی عظیم امانت بھی ہیں ، پس ان کا بے جا اور غلط استعمال موجب خسران اور باعث ہلاکت ہے ، قیامت کے دن اس کے بارے میں سخت باز پرس ہوگی ۔

*تنقیدی شعور*
اگر انسان کے اندر تنقیدی شعور ہو اور وہ قرائن اور حالات سے کسی معاملے کو سمجھنے کی اہلیت رکھتا ہو تو وہ اس قسم کی افواہوں سے متاثر ہو کر ہرگز بدگمانی کا شکار نہیں ہوگا ، جب منافقین نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے خلاف افواہوں کا طوفان برپا کیا تو ایک دن حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے اپنی زوجہ سے استفسار کیا کہ اگر تم عائشہ رض کی جگہ ہوتیں تو کیا کرتیں انہوں نے برجستہ جواب دیا کہ میں ایسے کسی گناہ کا ارتکاب نہیں کرتی حضرت ابو ایوب انصاری رض نے فوراً کہا فَعائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ تَعالى عَنْها واللَّهُ خَيْرٌ مِنكِ وأطْيَبُ إنَّما هَذا كَذِبٌ وإفْكٌ باطِلٌ
خدا کی قسم عائشہ صدیقہ رض تم سے زیادہ نیک اور پاک دامن ہیں ۔ بلاشبہ یہ ایک صریح الزام اور بے بنیاد جھوٹ ہے ۔
حضرت ابوایوب انصاری رض نے اس معاملے کی تہ تک پہنچنے کے لئے جس گہری بصیرت اور گہرے تنقیدی شعور سے کام لیا ، عجلت پسند قسم کے لوگوں سے ہر گز اس کی توقع نہیں کی جاسکتی ہے ۔
حضرت عائشہ رض نہ صر ف حرم نبوی کی زینت تھیں بلکہ وہ صدیق اکبر کی بیٹی بھی تھیں ، بچپن سے نبی کی صحبت میں رہی تھیں ، اُن کے اخلاقی اوصاف اور علمی کمالات کی بنا پر آپ ص اُن کو سب سے زیادہ چاہتے بھی تھے ،حضرت ابوایوب انصاری رض نے اِن ساری چیزوں کو پیش نظر رکھ کر سیدہ عائشہ رض کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کیا ، کسی طرح کی عجلت اور جلدبازی کا مظاہرہ نہیں کیا ۔
واقعہ یہ ہے کہ اگر انسان کو بدگمانی کا مرض لاحق نہ ہو اور وہ خبروں کی تحقیق و تفتیش کا مزاج اور کھرے کھوٹے میں امتیاز کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو تو وہ افترا پردازی اور افواہ طرازی سے متاثر ہوکر ہرگز کسی سے بدگمان نہیں ہوگا ۔

*حسن ظن*
ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان سے اچھا گمان رکھنا چاہئے ، خاص طور پر ایسے لوگ جن کو ہم پہلے سے نیک اور بہتر جانتے ہیں ان کے بارے میں جھوٹی افواہوں کی بنیاد پر بدگمان نہیں ہونا چاہئے ، اس کی مثال حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا واقعہ ہے ، افواہ طرازیوں کی بنیاد پر حضرت عائشہ جیسی نیک و پرہیزگار خاتون کے بارے میں جب لوگوں نے چہ میگوئیاں شروع کیں تو قرآن پاک میں نہ صرف اس پر سخت انداز میں نکیر کی گئی بلکہ زجر و توبیخ کے انداز میں "اچھا گمان” رکھنے اور بدگمانی سے بچنے کی بھی تلقین کی گئی ۔
فرمایا گیا {لَوْلا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ ظَنَّ المُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِأَنفُسِهِمْ خَيْراً وَقَالُوا هَذَا إِفْكٌ مُّبِينٌ}(النور:١۲)
( اُن قاذفین مومنین کو ناصحانہ ملامت ہے جنہوں نے افواہوں سے متاثر ہو کر چہ میگوئیاں شروع کردی تھیں ) جب تم لوگوں نے یہ بات سنی تھی تو مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں نے آپس والوں کے ساتھ نیک گمان کیوں نہ کیا اور ( زبان سے) کیوں نہ کہا کہ یہ (بہتان اور )صریح جھوٹ ہے۔
یعنی حضرت عائشہ صدیقہ اور اُن صحابی (صفوان بن معطل رض) کے ساتھ دل سے نیک گمان کیوں نہ کیا۔(بیان القرآن)

حضرت ابو ایوب انصاری اور اُن کی زوجۂ محترمہ نے اس نازک اور حساس موقعے پر جس ذہنی و فکری اعتدال اور بالغ نظری کا مظاہرہ کیا وہ بھی دراصل "حسن ظن” ہی کی کرشمہ سازی ہے ، ورنہ آدمی کیسا ہی بالغ نظر اور معاملہ فہم ہو اگر وہ بدگمانی کے مرض میں مبتلا ہے ، تو اچھے خاصے لوگوں کے بارے میں بھی وہ جلدی ہی بدگمان ہو جاتا ہے ۔
عام حالات میں بھی قرآن و حدیث کی یہی تعلیم ہے کہ ہمیں لوگوں کے بارے میں نیک اور اچھا گمان رکھنا چاہئے ، بدگمانی سے حتی الامکان گریز کرنا چاہئے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بدگمانی کو سب سے بڑا جھوٹ قرار دیا ہے (ابوداؤد ) ۔
بعض لوگ محض شکوک و شبہات اور پروپیگنڈے کی بنیاد پر کسی کے بارے میں غلط رائے قائم کر لیتے ہیں حالانکہ حقائق اس کے بالکل برعکس ہوتے ہیں ، اسی طرح بعض لوگ نیتوں اور ارادوں کو بنیاد بنا کر الزام تراشی شروع کر دیتے ہیں ، حالانکہ باطنی احوال و کیفیات کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے ، پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی اس سلسلے میں ہمہ دانی کا دعویٰ نہیں کیا بلکہ آپ نے تو یہاں تک فرمایا کہ میرا کام ظاہر کے مطابق حکم لگانا ہے ، مجھے یہ حکم نہیں دیا گیا ہے کہ میں لوگوں کے قلوب کو چاک کر کے دیکھوں کہ اس میں ایمان کا نور ہے یا نہیں ۔

*ایک صالح معاشرے کی تشکیل*
درج بالا ہدایات پر اگر سختی سے عمل کیا گیا تو نہ صرف یہ کہ پروپیگنڈوں اور افواہوں کی تشہیر بند ہو جائے گی بلکہ بیک وقت اس کے متعدد فائدے بھی ظاہر ہوں گے ، اِس سے آپس کے رابطے درست ہوں گے ، غلط فہمیاں ختم ہوں گی ، جھوٹ کا خاتمہ ہوگا اور سچ کی بالادستی ہوگی ، بہت سے حقائق جو افسانہ طرازیوں کے گرد و غبار میں چھپ چکے ہیں ، نکھر کر سامنے آجائیں گے ، مجموعی طور پر ان اصولوں کی مدد سے ایک ایسے صالح انسانی معاشرے کی تشکیل ہو سکے گی ، جو امن و آشتی محبت و ہمدردی اور سکون و اطمینان کا گہوارہ ہو ۔

Comments are closed.