Baseerat Online News Portal

ڈرامہ 8: داغدار لوگ 

 

 

محمدیوسف رحیم بیدری، بیدر۔ کرناٹک

موبائل:9141815923

 

پہلامنظر :(اخبار کا دفتر ہے، جس میں مختلف کیبن بنے ہوئے ہیں۔ ان کیبن میں بیٹھے پانچ چھ افراد مختلف کام انجام دے رہے ہیں۔ چیف رپورٹر فون پر کسی سے بات کررہاہے)

چیف رپورٹر : ڈیوڈ داس سے بات ہوسکتی ہےـ

آواز :ہم ڈیوڈ داس بات کرتا ـ

چیف رپورٹر :تمہارے شہر میں صحافتی ادارے ہیں نا

ڈیوڈ :ہاں ہیں، اور ان سے ہمارافرینڈ شپ بھی ہےـ

چیف رپورٹر :تم نے جوتازہ تازہ فورم بنایا ہے، اس میں ان جرنلزم انسٹی ٹیوشن کی خدمات کاذکر نہیں کیاہے، جبکہ دوسرے اداروں سے تعاون لینے کی بات کہی ہے۔

ڈیوڈ(رک کر): سر، بھول ہوگئی ہوگی، ہم دیکھتاـ

چیف رپورٹر :اتنا ہی نہیں شہر کے Literary Institution کابھی ذکر نہیں ہے، کیا تم سمجھتے ہوڈیوڈ کہ یہ لٹیریری انسٹی ٹیوشن اپنے رائٹ اپ سے، اپنے فکشن اور اپنی پوئم سے زندگی بھر بھٹے بھنتاہے؟یاملک اور سماج کی خدمت کرتاہے؟

ڈیوڈ :بھٹے نہیں بھنتا، یہ لوگ تو ہمارے شہر کاIntellectuals طبقہ ہے۔ ہم انھیں سلیوٹ کرتاہے۔

چیف رپورٹر :جب انھیں سلیوٹ کرتاہے تو انکاذکر تمہارے فورم نے کیوں نہیں کیا ہے۔

ڈیوڈ(جلدی سے):سوری سو سوری، ہم ابھی اپنے فورم کے ذریعہ ان کاذکر کرے گا اور اس کا Press Note بھی دے گا

چیف رپورٹر :تھینکس ڈیوڈ

دوسرا منظر (اسی اخبار کادفتر ہے لیکن ایڈیٹر کے چیمبر میں ایڈیٹر اور چیف رپورٹرکے درمیان گفتگو ہورہی ہے)

ایڈیٹر :شہر میں بنائے جانے والے نئے نئے فورم،قدیم ادارے، مذہبی جماعتیں یاسیاسی جماعتیں صحافتی اداروں کانام بطور اظہار تشکر یا ان کی خدمات کے طورپر نہیں لیتی ہیں تو اس میں ہمارا کیاجاتاہے مسٹر چیف رپورٹر؟

چیف رپورٹر :نہیں سر، ان بنائے جانے والے فورموں، قدیم اداروں، مذہبی اور سیاسی جماعتوں کی حقیقت کیا ہے،اوران کاکام کرنے کاطریقہ کیاہے،انہیں فنڈنگ کہاں سے آتی ہے،کتنی رقم خرچ کی جاتی ہے اور کتنی پس پشت ڈالی جاتی ہے یہ سب ہم جانتے ہیں۔ یہ دودھ کے دھلے نہیں ہیں۔ ان میں سے اکثر چور ہیں، خود غرض اور دغا باز ہیں۔

ایڈیٹر :اگرا ن میں سے اکثر چورہیں،خود غرض ہیں، دغا باز ہیں یعنی قوم کو دھوکادیتے ہیں، تو قوم انھیں دیکھ لے گی، ہم کیوں ایسے خود غرض اوردغاباز لوگوں سے ہماری خدمات کاذکر کرنے کے لئے کہیں گے۔

چیف رپورٹر : سر، سر، یہ لوگ سارے اداروں کو اہمیت دے کر ان کانام لیتے ہیں۔ صرف صحافتی اور ادبی اداروں کا نام اپنے فورموں میں نہیں لیتے۔ ایساکیوں ہورہا ہے؟

ایڈیٹر :اگر کوئی سورج کی مہربانی کاذکر نہیں کرتاہے تو اس سے سورج کوکیافرق پڑے گا؟

چیف رپورٹر :سورج کو فرق بھلے نہ پڑے، تاریخ میں صحافتی اور ادبی اداروں کی خدمات کاذکر نہیں ملے گا

ایڈیٹر :صحافتی اورادبی اداروں کی خدمات کا ذکر اخبارورسائل کے صفحات اور ان کے چینلس دیکھنے سے پتہ چل جائے گا۔ اور پھر جو ادارے ہر دن کسی نہ کسی کوآئینہ دکھاکر سارے سماج کو نارض کرتے ہو، ان کی خدمات کا اعتراف کرنے کی حماقت آخرکون کرے گا؟ مسٹرچیف رپورٹر تم دیکھوگے کہ ہمارے سماج کامذہبی، سماجی، تعلیمی،اور سیاسی طبقہ ہمارے بارے میں نفرت اگر پھیلارہاہے تو اس کی وجہ ہماری کچھ غلطیاں ضرور ہیں، لیکن یہ غلطیاں ایسی نہیں ہیں جیسی کہ وہ خود سال کے 365دن کیاکرتے ہیں۔ ہمارے ملک کو آزاد کرانے میں صحافتی اداروں کا رول رہاہے۔ ہر بڑا مجاہد آزادی،صحافی رہاہے۔ یاپھر شاعر او ررائٹر رہاہے۔ یہ اس بات کااقرار کبھی نہیں کریں گے کیونکہ ہوا جب خلاف میں چلتی ہے توانصاف پسند افراد کوبھی اچھائیاں نظر نہیں آتیں۔

چیف رپورٹر :سرمیں بھی تو وہی کہہ رہاہوں کہ ہمارے بڑوں اور ہماری اپنی خدمات پر یہ لوگ پانی پھیر رہے ہیں

ایڈیٹر :لیکن میں یہ کہنا چاہتاہوں کہ اس حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے بھی ہمارایہ بیمار سماج ہماری صحافتی خدمات، ہماری سوشیل خدمات، ہماری انکشافاتی خدمات،سیلاب اور فسادات کے موقع پر کی جانے والی خدمات، جرائم پر کنڑول کرنے میں ہمارارول وغیرہ کو بھلادیں گے۔ فکشن، شاعری وغیرہ کے بارے میں میں زیادہ نہیں کہوں گالیکن صحافت کی ہر دن، ہرگھنٹہ پیش کی جانے والی خدمات کامعاشرہ معترف نہیں ہے تو یہ اس بیمار معاشرے کاوہ عمل ہے جس کو نظرانداز کیاجانا چاہیے۔

چیف رپورٹر (تیوری پر بل ڈالتے ہوئے):سر میں سمجھانہیں،

ایڈیٹر :میرے سرکے یہ بال ہیں نا، اسی شہر میں اسی بیمارمعاشرے کی خدمت کرتے ہوئے سفید ہوئے ہیں۔ والد صاحب کے انتقال کے بعد میں نے اخبار سنبھالاتھا۔ پچھلے 75سال سے ہماری صحافتی خدمات اس شہر میں ہیں بلکہ پورے ضلع میں ہیں اور گذشتہ 25سال سے میں اس میدان میں ہوں۔میں نے دیکھاہے کہ اس شہرمیں صحافت اورصحافیوں کی بڑی قدر تھی۔لیکن اب صحافت کو ”گودی میڈیا“ کالیبل لگاکر حقیقی صحافت کرنے والوں کااعتراف نہ کرنے کی سازش رچی جارہی ہے۔ گذشتہ 75سال میں میرے والد نے صرف ایک گھر بنایاہے۔ میں بھی کچھ کرنہ سکا۔ اور آج یہاں ایک لونڈادیکھتے ہی دیکھتے سیاست میں آتاہے اور سیاہ وسفید کامالک بن جاتاہے۔ ایک شخص تعلیمی ادارہ قائم کرتاہے اور اس کے پاس دولت کے انبار لگ جاتے ہیں۔ ایک مذہبی شخص دوسری ریاست سے خالی ہاتھ شہر میں داخل ہوتاہے، آج اس شہر میں اور اس کی اپنی ریاست میں اسکی کئی جائیدادیں ہیں۔ وہ بی ایم ڈبلیو جیسی گاڑی میں بیٹھ کر گھومتاہے۔ مذہبی جماعتیں شہر کا 60فیصد چندا حاصل کرلیتی ہیں، این جی اوز کا حال یہ ہے کہ حکومت کا30فیصد تک مالیہ اپنے ہاتھوں غریب عوام میں تقسیم کرنے کاڈھونڈوراپیٹتی ہیں۔ ساراشہر ان لوگوں کے رحم وکرم پر ہے لیکن پھر بھی صحافتی اداروں کو بدنام کیاجاتاہے۔ہم جیسے حقیقی خدمت کرنے والے کنارہ کردئے جاتے ہیں تواس کی وجہ کیاہوسکتی ہے، تم بتاؤ ـ

چیف رپورٹر(برجستگی کے ساتھ) :سر یہ لوگ بدنیت ہیں۔

ایڈیٹر :تمہاری بات درست ہوسکتی ہے لیکن دراصل یہ داغدار لوگ صحافت سے ڈرتے ہیں، اسی لئے صحافتی اداروں کی خدما ت کااعتراف نہیں کرتے۔ادبی اداروں سے بھی ڈرتے ہی ہوں گے اسلئے ان کی خدمات کابھی اعتراف نہیں کرتے ـ

چیف رپورٹر (پرجوش لہجے میں):میں کراؤں گاصحافتی اداروں کی خدمات کا اعتراف اور ساتھ میں شعرا اور ادباء کی خدمات کابھی اعتراف ہوگا

ایڈیٹر :میں نے کہاناکہ میرے سرکے بال ایسے ہی سفید نہیں ہوئے۔ میں اس بیمار معاشرے اور آنے جانے والی حکومتوں کو گذشتہ 25سال سے دیکھ رہاہوں۔ایسا کچھ نہیں ہوگا، جیسا تم سوچ رہے ہو۔ اس لئے اپنے کام سے کام رکھو۔ دباؤ ڈال کر اعتراف کروانا ہمارا مقصد نہیں ہوناچاہیے۔ خدا کی ذات سے امید ہے کہ وہ ہماری خدمات کا اجر ہمیں دنیا اور آخر ت دونوں جگہ عطا کرے گا۔ہم جس قدر حکومت اور معاشرے سے بے نیازہوں گے اس قدر خدمت کرتے ہوئے اجر حاصل کرسکیں گے۔ (ایڈیٹر کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے، چیف رپورٹر نے ایڈیٹرکے چہرے کو دیکھا اور کہا)

چیف رپورٹر (بوکھلاکر):جی سر، میں کوشش کرتاہوں۔ بھلے میرے گھر میں چولہا نہ جلے لیکن صحافت کی اعلیٰ اقدار کو اپنائے رہوں گااور کوشش کروں گاکہ آپ کی آنکھوں میں کبھی آنسو نہ آئیں۔

(اسٹیج سے غمگین موسیقی پھیل رہی ہے۔روشنی اچانک گل کردی جاتی ہے۔ پھر دائرے نما روشنی ایڈیٹر اور چیف رپورٹر پر پڑتی ہے اور وہ بھی آہستہ آہستہ معدوم ہوجاتی ہے)

پردہ گرتاہےـ

Comments are closed.