مولانا عمر گوتم صاحب اور ہمارا کرد

 

محمد صابر حسین ندوی

 

واقعہ یہ ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی خواہ ایک بڑی آبادی بستی ہو، وسائل زندگی میں کسی سے کم نہ ہوں پھر بھی ان میں دینی حس اور ملی شعور اتنا کمزور اور لاغر ہوچکا ہے کہ وہ اپنی ذاتی زندگی کے آگے کچھ نہیں سوچتے، بعض لوگوں کا استثناء کر دیا جائے تو عموماً لوگوں میں حب جاہ و حب مال الغرض شکم سیری اور شکم پرستی کے آگے کوئی فکر اور خیال کارگر نہیں ہے، خاکم بدہن یہ کہنا پڑتا ہے کہ اس قوم کی بالائی سطح جو علماء، فضلاء اور قائدین کی ہے وہ خود عوام الناس اور ان کی سطحی فکر سے اوپر نہیں اٹھ پارہے ہیں؛ بلکہ لگاتار ایسی تنزلی دیکھی جارہی ہے کہ وہ اپنے گھروندے کے علاوہ کسی کی فکر نہیں کرتے، افسوس کہ وہ جس گھروندے کی فکر کرتے ہیں وہ بھی مسمار ہوا جاتا ہے، لوگوں سے چندے، مال و جاہ پر اپنا قبضہ جمالینے اور خاندانی وجاہت حاصل کرلینے کے بعد وہ سرمایہ داروں سے کم نہیں ہوتے، اجارہ داری کا مزاج، انا پرستی اور خود پسندی کا چلن اتنا ہوچکا ہے کہ اجتماعی مفادات اور ملی اغراض پس پشت پڑ گئے ہیں، صد حیف! مسلمانوں نے جن باریش اور سفید ریش لوگوں کو اپنا سب کچھ سمجھا انہوں نے صرف اپنے ایک خاص جزیرے کو ہی اپنا دائرہ عمل بنا کر سبھی کو پیچھے دھکیل دیا، اب کوئی مرتا ہے تو مرے، جیتا ہے تو جئے! بَس ان کے قلعوں اور چھوٹے چھوٹے نام نہاد ٹاپؤوں پر کوئی انگلی نہ اٹھائے، چنانچہ سیاست، تعلیم اور سماجی حیثیت سے کورے ہوتے جارہے مسلمان اپنے محبین، مخلصین اور صاحب دل افراد سے بھی بچھڑتے جارہے ہیں، اگر کوئی کسر باقی رہ جاتی ہے تو وہ فاشسٹ حکومت اپنیمے ڈنڈے کے زور پر کر گزرتی ہے، ان کے بچے کھچے شیرازے کو بکھیر کو انہیں میں سے منافقین پیدا کر کے انہیں کے گلے کی ہڈی بنادیتی ہے، پھر وہ رنگ بے رنگ کے مسائل سے الجھتے رہتے ہیں اور تعمیر و ترقی کا غبارہ مزید خام خیالی کا ہوا لئے آسمان چھونے لگتا ہے، پھر بھی کوئی مزاحمت کرے اور دعوت و تبلیغ کا عظیم کارنامہ کرنے نکلے تو انہیں جیلوں میں ٹھونس دیا جاتا ہے، ان کاؤنٹر کر دیا جاتا ہے، نت نئے الزامات لگا کر بدنام زمانہ کیا جارہا ہے، ابھی تازہ واقعہ عمر گوتم صاحب کا ہے جو دل دردمند کے حامل ہیں، ان کی داستان سنی اور دیکھی جاسکتی ہے، متعدد ویڈیوز سے پتہ چل جاتا ہے کہ کس قدر فنا فی اللہ اور اسلامیت کے حامل ہیں، دفعتاً اے ٹی ایس اترپردیش انہیں اٹھا لیتی ہے، زبردستی تبدیلی مذہب کا چارج لگاتی ہے؛ لیکن ہماری صفوں میں سانپ سونگھ جاتا ہے، کوئی بولتا نہیں، کوئی کچھ کرتا نہیں، جب بعض بہی خواہ کڑوے کسیلے گھونٹ پلاتے ہیں تو مذمتی تحریریں (وہ بھی اردو زبان میں) بھیج کر جہاد اکبر کا ثواب کمانا چاہتے ہیں، بعضوں نے تو دامن جھاڑ لیا ہے اور وہ سیکولرازم کا بھونپو بجا رہے ہیں، غیروں کی زبان اپنے منہ میں لئے اپنوں کو ہی ڈَنک مار رہے ہیں، کبھی کبھی دل سے بد دعا نکلتی ہے کہ اللہ ان خاندانی اجارہ داروں پر بھی یہی عذاب نازل کردے؛ لیکن آمین کہنے سے پہلے دل دہل جاتا ہے اور اسلامیت آڑے آجاتی ہے، پھر بھی یہ نظام الہی ہے کہ ظلم. پر خموش تماشائی بننے والے ایک نہ ایک دن خود ظلم کا شکار ہوجاتے ہیں، کچھ دنوں پہلے ڈاکٹر ظفرالاسلام خان صاحب مدظلہ نے – مسئلہ عمر گوتم کا نہیں، ہمارے بے حسی کا ہے – کے عنوان سے ایک تحریر نشر کی ہے جس نے مردہ ضمیروں کو جھنجھوڑا ہے۔

مولانا محترم کی یہ تحریر زیادہ سے زیادہ پڑھنے اور خواب غفلت میں پڑے دانشوروں کو پہنچانے کی ضرورت ہے، آپ بھی پڑھیے اور ہوش کے ناخن لیجیے! "عمر گوتم اور ان کے ساتھی مفتی جہانگیر کی گرفتاری کو کئی دن گذر چکے ہیں۔ ایک معمولی مسئلے میں، جس میں ان کا براہ راست کوئی تعلق نہیں تھا، ان کو گرفتار کر کے ان پر الزام پر الزام لگایا جا رہا ہے: ایک ہزار پھر تین ہزار لوگوں کو زبردستی مسلمان بنانے کا الزام ہے۔ گونگے بہرے لڑکوں کو دھوکے سے مسلمان بنانے کا الزام ہے۔ بدنام زمانہ آئی ایس آئی سے اس کام کے لئے پیسے لینے کا الزام ہے۔ گودی میڈیا دن رات چنگھاڑ رہا ہے۔ سنگھ کے پیشہ ور نفرت پھیلانے کے ٹھیکیدار صبح شام زہریلے بیانات دے رہے ہیں۔ عمر گوتم اور ان کے ساتھی مفتی کی کوئی بھی بات سامنے نہیں آ رہی ہے۔ صرف پولیس کے بیان آرہے ہیں یا سنگھی بول رہے ہیں۔ زبردستی لوگوں کا مذہب بدلوانے ، مسئلے کو دہشت گردی کے جوڑنے اور اب ان پر این ایس اے قانون لگانے کی بات ہو رہی ہے جو کہ صرف ان لوگوں پر لگتا ہے یا لگنا چاہئے جو ملک کی سلامتی کے لئے خطرہ ہوں۔ اس سب کے درمیان سب سے عجیب بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی طرف سے بالکل خاموشی ہے! جو لوگ ملت کے چودھری بنے ہوئے ہیں، بڑی بڑی تنظیمیں چلا رہے ہیں، روز اپنے کارناموں کی پریس ریلیز نکالتے ہیں اور اردو اخبارات میں محنت کرکے چھپواتے ہیں ، ملت کے لئے کام کرنے کے نام پر بڑے بڑے چندے جمع کرتے ہیں، یہ سب لوگ خاموش ہیں جیسے اس مسئلے کا ان سے کوئی تعلق نہیں۔ شائد وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح یہ آگ یا ایجنسیوں کی دستک ان تک نہیں پہنچے گی۔ عمر گوتم کا مسئلہ ان کا ذاتی مسئلہ نہیں ہے۔ وہ تو دستور ہند کی دفعہ ۲۵ کے مطابق اپنا کام کر رہے تھے۔ اگر انہوں نے کوئی غلطی کی ہے تو اس کی صاف ستھرے طور سے چانچ ہونی چاہئے لیکن میڈیا ٹرائل اور اتر پردیش حکومت کی ان کو پھانسنے کے لئے بےچینی بتاتی ہے کہ معاملہ کچھ اور ہے۔ در اصل اترپردیش کے الیکشن سے پہلے ماحول کو خوب گرم کرنا ہے، ہندو مسلم کر کے پولرائزیشن کرانا ہے، فسادات کرانے ہیں اور اس کے لئے اس طرح کی کارروائیاں ضروری ہیں۔ اس ظالمانہ سیلاب کو روکنے کے لئے ہمیں متحد ہوکر آواز بلند کرنی ہوگی، متحد ہوکر سیاسی اور عدالتی چارہ جوئی کرنی ہوگی۔ ورنہ سب ایک ایک کر کے پھنسائے جائیں گے اور اس وقت بولنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ اب بھی وقت ہے کہ ملی تنظیمیں اور قائدین مسئلے کو سنجیدگی سے لیں اور ایک پلیٹ فارم پرآکر اس طوفان بد تمیزی کا مقابلہ سیاسی اور عدالتی سطح پر کریں ورنہ ایک وقت ایسا بھی آسکتا ہے جب اس کی بھی اجازت سنگھی بادشاہت میں نہیں ہوگی۔”

 

 

[email protected]

7987972043

Comments are closed.