آہ! امارتِ شرعیہ بہار کو یہ دن بھی دیکھنا تھا

سید فضیل احمد ناصری
اتنا صدمہ پہلے نہیں ہوا تھا
منصب کوئی بھی ہو، صاحبِ منصب کی میعاد پوری ہونے یا اس کے گزر جانے سے ایک نہ ایک دن خالی ہو ہی جاتا ہے۔ پھر کوئی نیا بندہ آتا ہے اور اس خلا کو پر کر دیتا ہے۔ اس گیتئ رفت و بود میں یہی ہوتا آیا ہے اور یہی ہوتا رہے گا۔ مولانا محمد ولی رحمانی صاحب کی وفات کے بعد سے امیرِ شریعت کا منصب خالی ہے اور اسے بہر حال پر ہونا ہے، 3 /جولائی کو مولانا کے انتقال کو تین ماہ پورے ہو جائیں گے۔ دستورِ امارت کے مطابق تین ماہ کے اندر نئے امیر کا انتخاب ہو جانا چاہیے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کسی با فیض، صالح اور بزرگ شخصیت کو امیر چن کر اس قضیے کو جلد از جلد اسی طرح نمٹا دیا جاتا، جس طرح جمعیۃ علمائے ہند میمی نے حضرت مولانا قاری محمد عثمان منصور پوریؒ کے بعد صدارتی مرحلے کو طے کر لیا ہے، لیکن یہ ہو نہیں سکا، اور لگتا ہے کہ محبوب کی زلفوں کی طرح یہ انتظار مزید طول کھینچے گا۔
انتخابِ امیر کے سلسلے میں اس وقت جو اٹھا پٹخ اور پینترے بازیاں چل رہی ہیں، مضمون نگاریوں کا بازار جیسا گرم ہے، ناوک فگنی اور بہتان طرازی کی جیسی ریل پیل ہے، انتہائی افسوس ناک اور شرم ناک ہے۔ یہ بلاشبہ ہم اہلِ بہار کے لیے رنج و غم کا مقام ہے۔ سچ کہوں تو مولانا کی وفات پر مجھے اتنا صدمہ نہیں ہوا، جتنا الم ان درد ناک حالات نے مجھے دیے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ مولانا کا ارتحال عذابِ اکبر کا پیش خیمہ تھا۔ ولنذیقنہم من العذاب الادنیٰ دون العذاب الاکبر۔
*اب تو شرم سی آنے لگی ہے*
بہار، اڑیسہ اور جھارکھنڈ ہمیشہ زر خیز صوبے کے طور پر متعارف رہے ہیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک انمول ہیرے یہاں کی خاک دان سے اٹھے اور انفس و آفاق پر چھا گئے۔ بالخصوص بہار اس معاملے میں ہمیشہ مثال بنا رہا۔ آج کے انحطاطی دور میں بھی اہلِ علم و فضل اور اصحابِ دانش و کمال کی یہاں کوئی کمی نہیں ہے، لیکن صورتِ حال جیسی بنا دی گئی ہے، فضا کو جس طرح سیاست زدہ کر دیا گیا ہے، ہم بہاری کہیں منہ دکھانے کے لائق نہیں رہے۔
*ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی*
انتخابِ امیر کے سلسلے میں اس سے پہلے میں نے بھی اپنی رائے پیش کی تھی اور نام بھی ظاہر کیا تھا، اگرچہ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ یہ کام امارت کے 851 افراد پر مشتمل اربابِ حل و عقد کا ہے۔ وہی کسی بہترین شخصیت کا انتخاب کریں گے، مگر جس طرح کی خبریں مسلسل آ رہی ہیں اور ہر چہار جانب ان کے چرچے ہیں، سوہانِ روح بنی ہوئی ہیں۔ ہر مکمل صاحبِ قلم، یا نیم قلم کار ایک نام لے کر سامنے آتا ہے اور اس کے لیے ایسی پر زور تحریک چلاتا ہے گویا بعد از خدا بزرگ وہی ہستئ محترم ہے۔ یاس و حرمان کی گردن فرازی دیکھیے کہ گم نام، بے نام اور کندۂ نا تراش جیسے لوگ بھی اب اس دوڑ میں شامل ہو گئے ہیں اور جنہیں پہلا انتخاب ہونا چاہیے تھا وہ اپنی عزت بچانے کے لیے سات پردوں میں چھپ رہے ہیں:
اسپِ تازی شدہ مجروح بزیرِ پالاں
طوقِ زریں ہمہ در گردنِ خر می بینم
غالب کا یہ شعر اس موقع پر کس قدر چست اور چسپاں ہے:
ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوۂ اہلِ نظر گئی
شرم ناک بات یہ بھی ہے کہ مقابلے بازی اور یہ ہوڑ علمائے دین اور پڑھے لکھے افراد کی جانب سے لگائی اور چلائی گئی ہے۔ وہ امارت، جس کے امیر کبھی مولانا منت اللہ رحمانیؒ جیسی عبقری شخصیت رہی، ان سے پہلے اور بعد بھی جلیل و عظیم رجال رہے، اسی زریں اور تاریخی مسند پر بٹھانے کے لیے اب ایسے ایسے لوگوں کے نام پیش کیے جا رہے ہیں، معلوم ہوتا ہے کہ بہار میں اب محض عوام کا ہی بسیرا ہے۔ نشیمن عقابوں سے محروم ہو گئے ہیں۔ علم و تحقیق کے جیالوں سے یہ پر اسرار زمین یکسر خالی ہو گئی ہے:
آہ اے گردشِ دوراں! مجھے لائی ہے کہاں!
اس منصب پر ظاہر ہے کوئی نہ کوئی تو بیٹھے گا، مگر لازم ہے کہ ایسے شخص کو بٹھایا جائے جس میں امیرِ شریعت بننے کی تمام شرطیں موجود ہوں۔ امارتِ شرعیہ کے بانی مفکرِ اسلام حضرت مولانا ابوالمحاسن سجاد صاحبؒ نے جو شرائط بیان کی ہیں، ان پر بھی ایک نگاہ ڈال لی جائے۔
*شرائطِ امارتِ شرعیہ*
1: عالمِ با عمل ہو، یعنی کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ ﷺ کے معانی اور حقائق کا معتد بہ علم رکھتا ہو۔ اغراض و مصالحِ شریعتِ اسلامیہ و فقہِ اسلامی وغیرہ سے واقف ہو اور احکامِ شریعت پر عمل پیرا ہو۔
2: سیاسیاتِ ہند و سیاسیاتِ عالمِ اسلامیہ سے واقفیت رکھتا ہو اور حتی الامکان تجربہ سے اکثر صائب الرائے ثابت ہو چکا ہو۔
3: ذاتی قابلیت و وجاہت کی وجہ سے عوام و خواص کے اکثر طبقات کی ایک معتد بہ جماعت پر اس کا اثر ہو۔
4: حق گو، حق شنو اور صاحبِ عزیمت ہو۔
5: فقہی تعبیر میں اس کی ذات ایسی نہ ہو، جس سے امارتِ شرعیہ کا مقصد ختم ہو جائے۔
*یہ سیاسی الیکشن نہیں*
ان شرائط کا خلاصہ یہ ہے کہ امیر وہ شخص ہو، جو عالمِ با عمل ہو، روحِ اسلام سے واقف ہو، فقہ سے گہری مناسبت رکھتا ہو، حالات کی نبض پر اس کی پکڑ ہو، صائب الرائے اور پختہ نظر ہو، عوام و خواص پر اس کی شخصیت کا اثر ہو، حق گوئی اور حق نوازی اس کے خمیر میں ہو، امارتِ شرعیہ کے مقاصد سے مکمل آگاہ ہو۔ جو لوگ امارت کے الیکشن میں اپنے اپنے امیدوار کھڑے کیے ہوئے ہیں، ذرا ان شرائط اور اوصاف پر بھی ایک نظر ڈال لیں کہ ان کی مقدس گائے میں پائے جاتے بھی ہیں یا نہیں؟ یہ لوک سبھا اور اسمبلی کا الیکشن نہیں ہے، جس میں ہر ایرے غیرے نتھو خیرے قسمت آزمائی کرتے ہیں اور فضا کی رعنائی و دل کشی کو مسموم بنا دیتے ہیں، پھر بالآخر ایسا بندہ منتخب ہوتا ہے، جس کی نحوست سے پورا ملک ویران ہو جاتا ہے:
جائے کہ بود آں دل ستاں با دوستاں در بوستاں
شد زاغ و کرگس را مکاں، شد مرغ و ماہی را وطن
*امیر کسے بنایا جائے؟*
امارتِ شرعیہ کا امیر کیسا ہو؟ اس کے اوصاف کیا ہوں؟ اس کی شان کیسی ہو؟ شرائط سے واضح ہیں۔ انتخابِ امیر میں ان کا بہر حال خیال کیا جانا چاہیے۔ ان کے ساتھ ہی یہ بھی عرض ہے کہ ایسے شخص کو بالکل امیر نہ بنایا جائے جو امیر بننے کا خواہش مند ہو، خواہ علم و فضل میں اپنے ہم عصروں پر کتنا ہی فائق کیوں نہ ہو، کیوں کہ اس میں خیر نہیں ہوگی۔ احادیثِ رسولﷺ یہی کہتی ہیں۔ اسے بھی منصبِ امارت نہ دیا جائے جو اپنے لیے لابنگ کر رہا ہو۔ نت نئے انداز اپنا رہا ہو۔ اپنے لیے ماحول بنا رہا ہو۔ اپنی امیدواری کے لیے لوگوں سے رابطے کر رہا ہو۔ سوشل میڈیا کا سہارا لے رہا ہو۔ بلکہ امیر اسے چنا جائے جو ان ہنگاموں سے دور اور ان غلاظتوں سے سراسر پاک ہو۔
*امارت کسی خاص شخص کی جاگیر نہیں*
یہاں یہ یاد دہانی کرا دینا بھی ضروری ہے کہ امارت کسی خاص فرد یا خانوادے کی جاگیر نہیں۔ یہ متعلقہ تمام صوبوں کی مشترکہ امانت ہے۔ افسوس کہ بہار سے جو اوٹ پٹانگ خبریں آ رہی ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایک خاص شخص کی امارت کے لیے دستخطی مہم چلائی جا رہی ہے۔ یہ بالکل ویسا ہی ہے، جیسے امت شاہ نے سی اے اے کی تقویت کے لیے مسڈ کال مہم جاری کی تھی۔ جو لوگ بھی ایسا کر رہے ہیں، وہ امارتِ شرعیہ کی بنیاد کھود رہے ہیں۔ مسڈ کال مہم فیل ہو گئی تھی، ان شاءاللہ یہ بھی پٹ جائے گی۔
*تو امارت کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے*
ہندوستان کی تاریخ ہے کہ ہر وہ دینی ادارہ، جس نے صدی پوری کر لی، اس کے کئی لخت ہو کر رہے۔ دارالعلوم دو ٹکڑے ہوا، مظاہر بھی دو نیم ہے، جمعیۃ علمائے ہند کا انگ انگ الگ ہو گیا۔ مسلم پرسنل لا بورڈ تقسیم در تقسیم دیکھ چکا۔ حد تو یہ کہ مولانا محمد الیاس کاندھلویؒ کی تحریک گشت و رفت بھی رفت و گزشت ہو گئی۔ نحوست کے خونیں قہر سے اگر کوئی ادارہ بچا ہے تو یوپی کا ندوۃ العلماء ہے اور بہار کی امارتِ شرعیہ۔ امارت نے بھی اپنا سو سالہ سفر پورا کر لیا ہے۔ انتخابِ امیر کے سلسلے میں زورا زوری پہلے بھی ہوئی، مگر جیسی سر پھٹول اب جاری ہے، فیصلے میں نفسانیت کا کوئی عمل دخل رہا، شفافیت کو کوئی راہ نہیں دی گئی تو امارت کے حصے بخرے ہو جائیں گے۔ جھارکھنڈ کی امارت الگ ہوگی۔ اڑیسہ والوں کا امیر اپنا ہوگا اور بہار ایک علیٰ حدہ امیر تلے کھڑا ہوگا۔ پھر یہ تقسیم کسی مرحلے پر رکے گی نہیں، لا الیٰ نہایہ چلے گی۔ ہرگز نہ سوچیے کہ یہ خدشہ طبع زاد اور قوتِ متخیلہ کی ایجاد ہے کہ اسے نظر انداز کر دیا جائے، بغاوت کا نقطۂ آغاز ہو چکا ہے۔ پٹنہ جوالہ مکھی بن کر پھٹنے کو تیار ہے۔ تحفظِ امارتِ شرعیہ کمیٹی بھی حرکت میں آ چکی ہے۔ چہ می گوئیاں ہر علاقے میں ہو رہی ہیں، بہاری اخبارات کے صفحات گواہ ہیں۔ اگر ان چنگاریوں کا نوٹس بر وقت نہیں لیا گیا۔ نوشتۂ دیوار کو پڑھا نہیں گیا تو خدا نہ کردہ ایسا ہو کر رہے گا۔
*ایک رائے اور تمنا*
میں تو یہ کہتا ہوں کہ امیر جامعِ شرائط ہی منتخب کیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی ہر صوبے سے ایک ایک نائبِ امیرِ شریعت کا تقرر ہو تاکہ متحدہ بہار کی ہم آہنگی باقی رہے۔ امارت میں اور اس کے اربابِ حل و عقد میں ایسے لوگ لائے جائیں جن کی ملک بھر میں علمی و عملی شناخت ہو۔ ایسے افراد کو برطرف کیا جائے جنہوں نے اس ادارے کی ساکھ کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے۔ دعا خوانی کے ساتھ امید کناں ہوں کہ یہ تاریخی ادارہ، اسلاف کی یہ میراث، ملت کی یہ گراں قدر متاع خورد برد کرنے والوں کی دست برد سے محفوظ رہے گی:
چمن میں تلخ نوائی مری گوارا کر
کہ زہر بھی کبھی کرتا ہے کارِ تریاقی
Comments are closed.