اعلانیہ دعوت دین اور اس کی تشہیر

یاسر ندیم الواجدی
جناب عمر گوتم اور مفتی جہانگیر قاسمی صاحبان کی گرفتاری سے سوشل میڈیا پر یہ بحث شروع ہوگئی کہ دعوت دین کی تشہیر موجودہ حالات کے تناظر میں درست ہے یا نہیں۔ بعض مرتبہ دعوت دین کے میدان میں کام کرنے والے کچھ افراد مبالغہ آرائی کے ساتھ اپنی کارکردگی وکارگزاری سنانے لگ جاتے ہیں، یہ عمل یقینا مخلصانہ طور پر کام کرنے والوں کے کام لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔ خلاف واقعہ باتوں کو بیان کرکے اپنی شخصیت تو تعمیر کی جاسکتی ہے، لیکن اس رویے سے دعوت کا کام جہاں تھا وہیں رہے گا، البتہ کچھ حضرات کی طرف سے اس رویے کو بنیاد بناکر اعلانیہ دعوت کو یا اس کی عوامی کارگزاری کو مطلقاً مسترد کردینا بھی نادرست رویہ ہے۔
آج کچھ لوگ عمر گوتم صاحب کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں کہ انھیں یا ان کے لوگوں کو ڈاسنہ کے ابوجہل کے پاس جاکر تبلیغ دین کرنے کی کیا ضرورت تھی، یہی لوگ اس وقت عمر صاحب کے لیے رطب اللسان ہوتے اگر یہ ابوجہل ان کی دعوت کو قبول کرلیتا یا کم از کم متاثر ہوجاتا۔ داعی کا کام دعوت دیںا ہوتا ہے، وہ نتائج پر نظر نہیں رکھتا، خواہ سامنے فرعون ہو یا ابوجہل۔ اللہ تعالیٰ جو کہ ہر زمان ومکان کے ایک ایک واقعے سے مکمل باخبر ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیتا ہے کہ فرعون کے پاس جاکر تبلیغ کریں۔ وہ یہ بھی بتادیتا ہے کہ کیسے تبلیغ کریں، جب کہ اللہ جانتا تھا کہ نتیجہ کیا نکلنے والا ہے، لیکن اتمام حجت کے مقصد سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو وہاں بھیجا گیا۔
کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ بھارت میں دعوتی سرگرمیاں سِرّاً ہونی چاہییں۔ ملک کے حالات ایسے نہیں ہیں کہ اعلانیہ دعوتی عمل جاری رکھا جائے۔ اگر یہ حضرات سمجھتے ہیں کہ بھارت کے حالات فرعون کے زمانے کے حالات سے بدتر ہوگئے ہیں، تو بات الگ ہے، لیکن درحقیقت ایسا ہرگز نہیں ہے۔ آپ قرآن کریم میں انبیاء کی دعوتی سرگرمیاں پڑھیں تو ان کے یہاں سِرّی دعوت بھی ملے گی اور جہری بھی۔ حضرت نوح علیہ السلام کے تعلق سے اللہ کا ارشاد ہے: "پھر میں نے انھیں پکار پکار کر دعوت دی، پھر میں نے ان سے علانیہ بات کی اور چپکے سے بھی سمجھایا”۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت دین کا آغاز سرّی طور پر فرمایا تھا۔ جب مسلمانوں کی تعداد اڑتیس ہوگئی تو صدیقِ اکبرؓ نے رسول اللہ ﷺ سے اصرار کیا کہ اب کھل کر اسلام کی دعوت دی جائے۔ آپ نے فرمایا: اے ابو بکرؓ! ابھی ہم لوگ تھوڑے ہیں، لیکن حضرت ابوبکرؓ اصرار کرتے رہے۔ جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھلم کھلا دعوت وتبلیغ کی اجازت دے دی، چناں چہ مسلمان مسجد حرام کے مختلف حصوں میں بکھر گئے اور ہر آدمی اپنے قبیلہ میں جاکر بیٹھ گیا۔
آج کچھ لوگ یہ طعنہ بھی دیتے ہیں کہ کھلم کھلا دعوت کی حمایت کرنے والے دراصل جذباتی لوگ ہیں، اگر ان کے نزدیک یہی پیمانہ ہے تو حضرت ابو بکر صدیق اس امت کے پہلے "جذباتی” فرد ہیں اور ہمارے لیے معیار وحجت ہیں۔ آج ملک کے کروڑوں مسلمانوں کی موجودگی میں یہ کہنا کہ کھلم کھلا دعوت نہ دی جائے، منہج انبیاء سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔
رہی بات دعوتی سرگرمیوں کی تشہیر کی، تو بعض مرتبہ یہ بھی کرنی پڑتی ہے۔ شریعت نے اعمال صالحہ کے اخفاء کا حکم دیا ہے، خصوصا صدقات وخیرات کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اس طرح چھپاکر دو کہ بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہو کہ دائیں ہاتھ نے کیا دیا ہے، دوسری طرف قرآن کہتا ہے کہ "اگر تم صدقات ظاہر کرکے دو تب بھی اچھا ہے” بقرہ 272۔ یہ طریقہ اس صورت میں اچھا ہے جب کہ دوسروں کو اس سے ترغیب ہو۔ آج دعوت دین کے میدان میں مسلمانوں کو پہلے سے زیادہ ترغیب کی ضرورت ہے۔ اس مقصد سے داعیان اسلام اگر اپنی کارگزاری بیان کریں تو یہ ایک مستحسن قدم ہے۔ اس تشہیر کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ آر ایس ایس نے گزشتہ نصف صدی سے ہندوؤں کو یہی سکھایا ہے کہ مسلمانوں کے آبا واجداد کو زور زبردستی مسلمان بنایا گیا تھا، ورنہ اسلام کون قبول کرتا ہے، لیکن جب دعوتی سرگرمیاں سامنے آتی ہیں تو یہ بیانیہ خود بخود ختم ہو جاتا ہے۔ عمر گوتم صاحب سے وابستہ بہت سے نو مسلم حضرات اب کھل کر سامنے آرہے ہیں، وہ بتارہے ہیں کہ کیسے ہم نے اسلام قبول کیا، ان حضرات کی جتنی تشہیر ہو اتنا ہی مفید ہے، ائمة الكفر کے پروپیگنڈوں کا جواب قرآن میں جابجا ملتا ہے، پہلے زمانے میں ان کا پروپیگنڈا یہ تھا کہ قرآن خدا کا کلام نہیں ہے بلکہ ایک شعری مجموعہ ہے، قرآن نے جواب دیا کہ شعر تو تم بھی کہہ سکتے ہو، تو ایک سورت تم بھی اس جیسی بنا کر دکھا دو۔ آج کفار کا پروپیگنڈا یہ ہے کہ اسلام صرف تلوار کے زور سے پھیلتا ہے، لہذا دعوتی سرگرمیوں کی تشہیر کی جانی چاہیے، تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ اسلام دعوت وبرہان سے پھیلتا ہے تلوار کے زور سے نہیں۔ اس لیے ایک "سویپنگ اسٹیٹمنٹ” کے ذریعے تشہیر کے عمل کو غلط قرار دینا قطعا غلط ہے۔
کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کو اسی تشہیری مہم نے نقصان پہنچایا، تو سب سے پہلے تو یہ ثابت کیا جائے کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کو نقصان ہوا ہے۔ واضح رہے کہ داعی کے لیے مادی نقصان کوئی پیمانہ نہیں ہے۔ ذاکر نائیک کی ویڈیوز دیکھ کر آج بھی لوگ اسلام قبول کررہے ہیں۔ دو دن پہلے جن دو نو مسلموں کی ویڈیو میں نے یوٹیوب پر اپلوڈ کی تھی ان میں سے ایک ذاکر نائیک کی ویڈیوز دیکھ کر ہی حلقہ بگوش اسلام ہوا ہے۔ ایسے نو مسلموں کی ایک بڑی تعداد ہے۔ یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ ان کا کام تھوڑا متاثر ہوا ہے، لیکن اس کی وجہ دعوتی تشہیر نہیں تھی، بلکہ ان کے پلیٹ فارم پر روی شنکر کی شرمناک شکست تھی۔
اس امت میں پہلے ہی دعوت دین کے تعلق سے سخت غفلت پائی جاتی ہے، اس کے باوجود وہ چند لوگ جو ہماری طرف سے فرض کفایہ ادا کر رہے ہیں، انہیں ہم بلا چوں وچرا اخلاقی سپورٹ کے بجائے اگر بیجا تنقید کا نشانہ بنانے لگیں، تو اس سے زیادہ افسوسناک رویہ اور کیا ہوسکتا ہے۔
Comments are closed.