اپنے ماتحتوں کا خیال رکھیں!!

محمد صابر حسین ندوی
انسان اتنا خود غرض ہوچکا ہے کہ وہ منفعت کے سوا کچھ نہی دیکھتا، مادیت کا غلبہ اس قدر ہے کہ اب روحانیت دم واپسیں میں ہے، مزاج میں استحصال کا عنصر اتنا غالب ہوچکا ہے کہ ہر کوئی بَس موقع کہ تلاش میں رہتا ہے کہ اسے ایک بار ایسا کوئی عہدہ مل جائے، کوئی مقام نصیب ہوجائے جس سے اس کا بخیہ ادھیڑ سکے، مشاہدہ ہے کہ بہت سے عام حالات میں انسانیت نوازی، اخلاص اور اخلاقی اقدار کی باتیکرتے ہیں اور بہت حد تک برتتے بھی ہیں؛ لیکن عہدے کی گرمی وہ برداشت نہیں کر پاتے، عموماً لوگ حسن سلوک اور بہتر رویہ کو بھول چکے ہیں، انسان اگر اپنے سے بڑے کی عزت کرے، اس کی خوشامد کرے، ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر توقیر کا اظہار کرے، زبان بند کرے، ہونٹوں کو سِل لے اور ان کی مرضی کے خلاف ایک حرف نہ نکالے تو یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے؛ اکثر انسان جب کسی کی ماتحتی میں ہو، کمتر عہدہ پر ہو یا کسی بھی طرح کرم فرمائی سے لطف اندوز ہوتا ہو تو یہ بہت مشکل ہے کہ وہ نافرمانی کرے، تنخواہ پایا ہوا شخص، کام کاج سے نوازا گیا انسان شاذ و نادر ہی نافرمان، ناشکرا اور احسان فراموش ہوتا ہے، پس پشت کی بات کیجئے تو ظاہری احوال اس سے الگ نہیں، مگر سچی بات یہ ہے کہ ایسا شخص اعلی اخلاق، عمدہ خصائل اور بہتر طور و طریق والا گرداننا درست نہ ہوگا، انسان عبد الإحسان ہوتا ہے؛ لیکن اعلی کردار کا مالک وہ ہے جو اپنے ماتحتوں کے ساتھ ایسے رہے کہ انہیں کوئی دباؤ محسوس نہ ہو، ان پر ایک عذاب کی طرح مسلط ہونے کے بجائے رحمت و مودت اور انسانیت کا سبق ہو، جب اسے دیکھے تو ایسا لگے کہ واقعی معاشرے میں اچھائی کی بنیادیں انہیں پر ٹکی ہوئی ہیں، ان کے رویے سے لگے کہ وہ اپنے ماتحتوں کیلئے سب کچھ کر جانے اور اسے اپنے حق میں ایک کار ثواب سمجھنے والے ہیں، سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اس دنیا میں ہر کوئی کسی نہ کسی کی ماتحتی میں رہ کر زندگی گزارتا ہے، ایک ادنی عامل سے لے کر اعلی عہدیدار تک ہر کوئی اس طرح جکڑا ہوا ہے کہ اس کے اوپر کوئی دوسرا بیٹھا ہوا، اور اگر کوئی نہ ہو تو پھر وہ قادر مطلق ذات تو بہر حال ہے ہی جس کے دربار میں ہر ایک کو پیش ہونا ہے، جو سب کا مالک، دنیا کا خالق ہے، خود اس کا وجود، عہدہ اور زندگی کی تمام عیش و آسائش اسی کی تو دَین ہے، دراصل خرابی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب انسان اپنے آپ کو قادر مطلق سمجھ لیتا ہے، اسے لگتا ہے کہ اسے کسی کے سامنے حاضری نہیں دینی، وہ کسی کے سامنے جواب دہ نہیں ہے، جب یہ فکر انسان کے دل ودماغ میں سرایت کر جاتی ہے کہ وہ خود ہی اس کارخانہ حیات کو قابو میں کئے ہویے ہے، وہ اپنی ہر خواہش، من مانی اور مرضیات کو پوری کرسکتا ہے تو پھر اس کا دل بگاڑ کا شکار ہوجاتا ہے، وہ اپنے معمولی عہدے کو ایک سلطنت سمجھنے کی بھول کر لیتا ہے، اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ گویا دو جہاں کا مالک ہے، ہر شئی پر اس کی حکمرانی ہے، وہ جو چاہے کر سکتا ہے، پھر اپنی مملکت میں بلاشرکت غیر وہ سب کچھ کر جانے اور ماتحتوں کو کچل ڈالنے کی انتھک کوشش کرتا ہے، جس کسی نے زبان کھولی، جس کسی نے اف تک کی وہ برخواست کردیا جاتا ہے –
حتی کہ اپنی بیوی، بچے اور معاشرے پر ایسے حاوی ہونے کی کوشش کرتا ہے کہ گویا وہ ہے تو ہی سب کچھ ہے ورنہ کچھ نہیں ہے، اس کی انانیت نہ جانے کتنوں کی زندگی حرام کر جاتی ہے، لوگ ترستے ہیں، بلبلاتے ہیں، روتے ہیں اور پھر اللہ تعالی اس کے حق میں بد دعائیں کرنے لگتے ہیں، اسلام کی نظر میں سب اچھا شخص وہ ہے جو اپنے ماتحتوں کے ساتھ حسن سلوک کرے، ان کے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ کرے، انسانیت و محبت کا سلوک روا رکھے، چنانچہ قرآن عظیم میں بیواؤں، یتیموں اور گھر والوں کے ساتھ بہتر سلوک کرنے کا حکم سینکڑوں مقامات پر وارد ہوا ہے، ان احکام کو عموم پر رکھئے اور دیکھئے کہ ایک شخص اپنے گھر اور پڑوس ہی نہیں بلکہ ہر ماتحت کے ساتھ کیسا رویہ کرتا ہے، معاشرے کی مختلف صنفیں اور کام کاج کے مختلف میادین سبھی اس میں شامل ہیں؛ اس کو ہر ایک ذمہ دار اور اس کے ماتحت والوں پر لاگو کیجئے اور دیکھئے کہ کون کتنا اخلاق مند ہے، اس سلسلہ میں ایک حدیث سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے، یہ روایت بارہا پڑھی اور سنی جاتی ہے، ہر حلقہ میں اس کا جوب چرچا رہتا ہے؛ لیکن افسوس اس عمل نا کے برابر ہے، آپ بھی روایت کو پڑھئے جس کو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے؛ کہ آپ نے فرمایا: الا كلكم راع وكلكم مسئول عن رعيته، فالامير الذي على الناس راع عليهم وهو مسئول عنهم، والرجل راع على اهل بيته وهو مسئول عنهم، والمراة راعية على بيت بعلها وولده وهي مسئولة عنهم، والعبد راع على مال سيده وهو مسئول عنه فكلكم راع وكلكم مسئول عن رعيته – -” خبردار سن لو! تم میں سے ہر شخص اپنی رعایا کا نگہبان ہے اور (قیامت کے دن) اس سے اپنی رعایا سے متعلق بازپرس ہو گی؛ لہٰذا امیر جو لوگوں کا حاکم ہو وہ ان کا نگہبان ہے اس سے ان کے متعلق بازپرس ہو گی اور آدمی اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اور اس سے ان کے متعلق پوچھا جائے گا اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے اولاد کی نگہبان ہے، اس سے ان کے متعلق پوچھا جائے گا غلام اپنے آقا و مالک کے مال کا نگہبان ہے اور اس سے اس کے متعلق پوچھا جائے گا، تو (سمجھ لو) تم میں سے ہر ایک راعی (نگہبان) ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے متعلق پوچھ گچھ ہو گی“ – – – (صحیح البخاری/الجمعة:١١/٨٩٣، صحیح مسلم/الإمارة:٥/١٨٢٩، سنن الترمذی/الجھاد:٢٧/١٥٠٧) خوب سمجھ لینا چاہئے کہ ایک شخص اگر اپنے ماتحتوں کا خیال نہیں رکھتا تو وہ عنداللہ جواب دہی کیلئے تیار رہے، اللہ تعالی کا عذاب اور اس کا غضب جھیلنے کیلئے اپنے آپ کو تیار کرلے، اگر خود کو بچانا ہے تو اپنے ماتحتوں کا خوب خیال رکھیں؛ ورنہ تقوی و للہیت کا ظاہری جامعہ کتنا ہی حسین ہوجائے وہ اللہ کے نزدیک ناپسند ہے –
[email protected]
7987972043
Comments are closed.