بھارت تنوع وتکثیریت کا شاندار مرکز و محور ہے

ڈاکٹر ظفردارک قاسمی
شعبہ دینیات سنی
علیگڑھ مسلم یونیورسٹی، علیگڑھ
[email protected]
بھارت ایک عظیم ملک ہے اس کے دامن میں بہت کچھ موجود ہے۔ اس کا اپنا تہذیب وتمدن ہے۔روایات واقدار ہیں، روشن تاریخ ہے سب سے بڑی بات یہ کہ بھارت تنوع وتکثیریت کا شاندار مرکز و محور ہے۔ بھارت کے متعلق اور اس کی تہذیبی قدروں و تنوع ، معاشرتی و سماجی روحانیت کے حوالے سے اگر جاننا ہے تو لاز
می طور پر مسلم سیاح، ابو ریحان البیرونی کی تحقیق ماللہند، ابن بطوطہ کا سفر نامہ ہند، مسعودی کی تاریخ مسعودی اور یعقوبی کی تاریخ یعقوبی کے ساتھ ساتھ تاریخ فرشتہ اور شمس العلماء مولانا ذکاءاللہ کی تاریخ ہند کا مطالعہ ہر اعتبار سے مفید رہے گا۔ کہنے کا مقصد ہے یہ ہیکہ مذکورہ فضلاء نے ہندوستان اور یہاں کی تہذیبی ودینی قدروں، نیز ہندوؤں کی بابت جن روشن و تابناک اور متوازن ومعتدل خیالات کا اظہار کیا ہے ان سے ہم آہنگی اور بقائے باہم کے واضح اشارے ملتے ہیں۔ اسی پر بس نہیں بلکہ کئی غیر مسلم مصنفین نے مثلآ گستاولی بان نے تمدن ہند اور اسی طرح ڈاکٹر تارا چند اور بشمبر ناتھ پانڈے وغیرہ نے بھی اپنی تحقیقات وتصنیفات میں ہندوستان کی تعریف وتوثیق کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے کردار و عمل کی بھی بلا تعصب تصویر کشی کی ہے۔ ان کتابوں کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستانی عوام وخواص کے اندر ہمیشہ توسع اور وسعت فکر ونظر کا جذبہ موجود رہا ہے۔ جہاں تک بات ہے ہندو ازم کی تو ہندو ازم کے متعلق بھی مسلمانوں کے خیالات بہت ہی مناسب رہے ہیں اس سلسلہ میں معروف صوفی مرزا مظہر جان جاناں نے اپنے چودہویں خط میں کسی کے ہندو ازم کے متعلق سوال کئے جانے پر جن باتوں کا ذکر کیا وہ ہمیں منافرت و تنگ نظری سے دور کرتی ہیں۔ اسی طرح اٹھارویں اور انیسویں صدی کے صوفیاء کرام اور مسلمان ہندوؤں کے دیوتاؤں کا بڑا احترام کرتے تھے۔خصوصا رام چندر جی کو انبیاء کا درجہ دیا ہے۔ اسی طرح ادباء اور شعراء بھی اپنی نظموں میں ہندوؤں کی برگزیدہ شخصیات کے تعلق سے نہایت روادار نظر آتے ہیں۔ چنانچہ مرزا عبدالقادر بیدل نے اپنی نظم میں رام چندر جی کو خراج عقیدت پیش کیا ہے ۔ نظیر اکبر آ بادی نے اپنی نظموں میں کرشن بھگوان اور شیوجی کی بھگتی کے گیت گائے ہیں، مثلآ کنھیا جی کی راس، بلدیو جی کا میلہ، جنم کنھیا جی، بالپن بانسری بجیا، بانسری لعب ولہب کنھیا ، کنھیا جی کی شادی ، مہادیو کا بیاہ، درگا جی کے درشن اور رسم کتھا وغیرہ پر نظمیں کہی ہیں ۔ ان حقائق و شواہد کی بنیاد پر یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ مسلمان وہ قوم ہے جس نے ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب اور یہاں کی پر امن و اتحاد روایات کو نہ صرف اپنے کردار و عمل اور علم و فضل سے مستحکم کیا بلکہ انڈو مسلم کلچر کو فروغ بھی دیا اور اس کی نشر واشاعت کے لیے تمام طرح کے طریقے اپنائے۔ اس کے باوجود آج مسلمانوں کے خلاف جو فضاء اور ماحول تیار کیا جارہاہے اس نے نہ صرف مسلم کمیونٹی کا شرمندہ کیا ہے بلکہ ہر انصاف پسند فرد کو چاہے وہ کسی بھی کمیونٹی سے وابستہ ہو پریشان کر دیا ہے۔ ابوریحان بیرونی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں اس نے ہندوستان میں آ کر یہاں کی تہذیب و ثقافت ہی کو نہیں اختیار کیا بلکہ اس دور میں اس نے ہندوؤں کی مذہبی زبان سنسکرت کو بھی سیکھا اور ہندوستان کی اقدار کا بڑی تفصیل سے جائزہ لیا ہے۔ وہ ہندوؤں کے متعلق اپنی کتاب تحقیق ماللہند میں خدا کی بابت ہندوؤں کا عقیدہ اس طرح بیان کرتا ہے۔ ” اللہ پاک کی شان میں ہندوؤں کا اعتقاد یہ ہیکہ وہ واحد ہے، ازلی ہے ، جس کی نہ ابتدا ہے نہ انتھاء ، اپنے فعل میں مختار ہے، قادر ہے، حکیم ہے، زندہ ہے زندہ کرنے والا ہے، صاحب تدبیر ہے،باقی رکھنے والا ہے، اپنی بادشاہت میں یگانہ ہے، جس کا کوئی مقابل اور مماثل نہیں ہے، نہ وہ کسی چیز سے مشابہ ہے اور نہ کوئی چیز اس کے ساتھ مشابہت رکھتی ہے” تصور کیجئے کہ ابو ریحان بیرونی نے ہندوؤں کے متعلق جس نظریہ کو پیش کیا ہے اس کی اہمیت اس دور میں ہی نہیں بلکہ ہر دور میں مسلم ہے ۔ اسی طرح ” امرائے ہنود” کے مصنف نے ہندوؤں کے دیوتاؤں اور ان کی مذہبی شخصیات کے بابت کئی علماء کی آ راء پیش کی ہیں ۔ معروف محدث شاہ عبد العزیز کے بارے میں لکھا ہے کہ جب ان سے کسی نے پوچھا کہ کنھیا جی کے بارے میں آ پ کی کیا رائے ہے تو انہوں نے کہا کہ اولا تو ان کے متعلق ہمیں خاموش رہنا چاہئے البتہ ان کی مذہبی کتاب بھاگوت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اولیاء میں سے تھے۔ مولانا عبد العزیز صاحب لکھنوی مصنف بشارت احمدی کے حوالے سے درج ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب میں کہا ہے کہ رام چندر جی اور کنھیا جی کی قدر کرنی چاہیے۔ ادیان و مذاہب کو سمجھنے کے لئے ایک کتاب” دبستان مذاہب” لکھی گئی ہے اس میں تقریباً تمام مذاہب پر گفتگو کی گئی ہے ۔ اس کتاب کے مطابق ” بشن ” کا مطلب بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ہے۔ ہوسکتاہے ہے ان شواہد سے کسی کو اختلاف ہو البتہ اس ضمن میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہندوؤں کے مذہب کے حوالے سے مسلم علماء اور اسکالر س کی آ راء نہایت روادار اور متوازی ہیں۔ اس لئے یہ بھی کہا جاسکتا ہے ہندوستان میں آ ج ہندو مذہب کا کچھ لوگ غلط استعمال کررہے ہیں ۔ یہاں یہ سمجھنے کی بھی ضرورت ہے کہ ہندو مذہب اور ہندوتوا میں کافی فرق ہے۔ اس امتیاز وفرق کو سمجھنا ہوگا اور ہندو ازم کی درست تعبیر و تشریح کرنے کی ضرورت ہے۔
بھارت کی سر زمین پر آ ج مذہب اور دھرم کے نام پر جو کھیل کھیلا جارہاہے اس کا ہندو دھرم اور اس کی شفاف روایات سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ یاد رکھئے دنیا کا نہ تو کوئی مذہب اور نہ کوئی تہذیب ایسی ہے جو کسی کو شدت وتنگ نظری سکھائے۔ آ ج ضرورت اس بات کی ہے ہم ملک میں ان روایات کو بحال کریں جن سے باہمی رکھ رکھاؤ میں اضافہ ہو۔ ہندو اور مسلمانوں میں جو نفرت کا بیج ڈالا ہے اس میں برطانوی عہد کا بڑا عمل دخل ہے۔ اسی کو پروفیسر خلیق احمد نظامی نے اپنی کتاب ” سلاطین دہلی کے مذہبی رجحانات” میں لکھا ہے۔
” ہندو مسلم تعلقات کی کشیدگی برطانوی عہد سے شروع ہوتی ہے۔ لڑاؤ اور حکومت کرو، برطانوی سامراج کا تقاضا تھا اور اس مقصد کے حصول کے لیے ہندوؤں اور مسلمانوں میں مختلف قسم کے نفاق اور اختلافات عمدا پیدا کیے گئے تھے ۔ سر ہنری ایلیٹ نے اس زہر کو تاریخ کی رگوں میں پہنچا کر اس طرح تاریخی مطمح نظر کو خراب کیا کہ اس کے بر خلاف جو بات کہی جاتی ہے وہ شک آ میز تعجب سے سنی جاتی ہے” اس لئے ضرورت اس بات کی ہے ہندوستان کی عظمت رفتہ اور یہاں کے تشخص کو برقرار رکھنے کے لیے ہر شخص کو باہم مل کو اور اتحاد و اتفاق کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسا نہ کسی مذہب یا خاص کمیونٹی کی نفرت ہمیں ان خطوط پر عمل پیرا نہ کرادے جو کبھی سامراجی قوتوں نے بھارت کی ہم آہنگی کو مٹانے کے لئے اور اپنا تسلط و قبضہ برقرار رکھنے کے لیے کیا تھا۔ انصاف اور بھارت کی قدیم روایات کا تقاضا یہ ہیکہ ہم ان خطوط کو اختیار کریں جنہیں ہندوستان کی صوفیوں اور جوگیوں نے مل کر کیا تھا جس کے نتیجہ میں ایک تیذیب وجود میں آ ئی تھی جسے ہم "انڈو مسلم کلچر” کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
Comments are closed.