ریاکاری کرنے والے نفسیاتی مریض ہیں!!

محمد صابر حسین ندوی
انسان فی نفسہ خود پسند اور انا پرست یوتا ہے، اپنے آپ کو سب سے بہتر اور اعلی جانتا ہے، سماج میں سر اونچا کرنے کے نام پر ظاہریت کا چولا خود پر ڈال لیتا ہے، اور پھر ریاکاری کی دنیا بسا لیتا ہے، اپنے آپ میں وہ کچھ بھی ہو لیکن یہی وہ احساس کمتری ہوتی ہے کہ خود کو برتر ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہے، یہ نفسیاتی بات ہے کہ جب ایک شخص کسی ہدف اور مقصود سے دور ہو، وہ خود کو بہتر سے بہتر بنا لینے میں پیچھے رہ جائے، سماج میں نام. کمانے، علمی و عملی میدان میں پچھڑجانے اور صلاحیت و صالحیت میں کہیں دور پڑ جائے تو پھر وہ دکھانے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ سب کچھ ہے، وہ مؤثر کے بجائے متاثر ہو کر مؤثر کی نقالی کرتا ہے، کہتے ہیں جب گیدڑ اپنی عیاری، مکاری اور دغابازی میں ناکام ہوجائے تو پھر وہ شیر کی کھال اوڑھنے اور اسی طرح چلنے پھرنے اور دھاڑنے کی کوشش کرتا ہے، اگر شباہت نے کچھ ساتھ دے دیا تو پھر وہ اپنے ماتحت کو چیر پھاڑ دینے کی کوشش کرتا ہے، انسان اصل میں اپنے نفس پر قابو نہ پانے اور حقیقت سے دوری برتنے ہی کی وجہ سے ریاکاری کا سہارا لیتا ہے، جو شخص جس قدر رازدار ہو وہ اسی قدر ریاکار ہوتا ہے، یہ کوئی قاعدہ کلیہ نہیں ہے مگر اکثری ضرور ہے، بسااوقات یہ خود پسندی خودغرضی میں بدل جاتی ہے اور وہ ظاہریت کا مجموعہ بن کر رہ جاتا ہے، ایک ایسا جسم جس میں روح کی قوت کم اور مادیت کا زور زیادہ ہے، پھر وہ ریاکاری کو اپنا ہنر، فن، کاریگری اور ہوشیاری سمجھتا ہے، ایک بے ایمان تاجر کی طرح ہر موقع پر کمی و بیشی کرنا شروع کردیتا ہے، ڈنڈی مارنا ناپ تول میں کمی کرنا اور حقوق سے نظریں چرانا اس وطیرہ بن جاتا ہے، نوبت یہاں تک آن پڑتی ہے کہ وہ خالص عبادت، روحانیت اور اسلامیت کو بھی اپنے مفاد کیلئے استعمال کرنے لگتا ہے، جہاں کہیں مفاد ہو وہ عیاری کے ساتھ نمایاں ہوجاتا ہے، وہ اس موقع کی تلاش میں رہتا ہے کہ کب اسے دکھاوے کا سنہرا لمحہ نصیب ہوتا ہے؛ کہ عبادت وریاضت کو بھی سودے بازی اور اپنی اعلی مقامی کا ذریعہ بنالے، یہ بیماری اب عام ہوچکی ہے، فرد، سوسائٹی اور حکومتی طبقہ تک کوئی ایسا شعبہ نہیں جہاں یہ نہ پایا جاتا ہو، اپنے اعمال، معاشرتی اقدار اور حقیقت حال کو ضائع کرنے والے ہر جگہ پائے جاتے ہیں، دوسروں کو کمتر خود کو برتر اور اعلی ثابت کرنے کی ہوڑ میں احکام الہی اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی بھلا دیا گیا ہے، آہ یہ انسان کہاں جا پڑا ہے؟ کیسی انانیت نے اسے جکڑ لیا ہے، ایک عام بیماری اور صحتی عوارض کو برداشت نہ کرپانے والا یوں ظاہر کرتا ہے کہ گویا پہاڑ بھی اسی کے حکم سے منجمد ہے اور دنیا کا نظام بھی اسی کے اشارے پر گامزن ہے۔
حقیقت میں ہر کوئی جانتا ہے کہ ریاکاری شرک ہے، اور شرک گناہِ کبیرہ ہے، ریاکاری اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ کاموں میں سے ایک ہے۔ قرآن مجید میں ایسے لوگوں کا تذکرہ بدترین مثال کے ساتھ کیا گیا ہے، ارشاد ربانی ہے: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِکُمْ بِالْمَنِّ وَ الْاَذٰی ۙ کَالَّذِیْ یُنْفِقُ مَالَہٗ رِئَآءَ النَّاسِ وَ لَا یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِؕ فَمَثَلُہٗ کَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَیْہِ تُرَابٌ فَاَصَابَہٗ وَابِلٌ فَتَرَکَہٗ صَلْدًا ؕ لَا یَقْدِرُوْنَ عَلٰی شَیْءٍ مِّمَّا کَسَبُوْا ؕ وَاللّٰہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَ- (بقرۃ:٢٦٤) ’’اے ایمان والو! احسان جتلاکر اورتکلیف پہنچاکر اپنے صدقہ کو اس شخص کی طرح ضائع نہ کرلو، جو اپنا مال لوگوں کے دیکھاوے کے لئے خرچ کرتا ہے اور اﷲ اور آخرت پر یقین نہیں رکھتا، اس کی مثال اس چٹان کی سی ہے جس پر (تھوڑی سی ) مٹی ہو، پھر زور کی بارش ہو اوراسے بالکل صاف کردے، ان کو اپنی کمائی میں سے بھی کچھ ہاتھ نہ لگے گا اور اﷲ کفر پر بہ ضد رہنے والوں کو ہدایت سے سرفراز نہیں کرتے‘‘۔ ایک اور جگہ ریاکاری کو منافقین کی خصلت قرار دیا گیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ یُخٰدِعُوْنَ اللّٰہَ وَ ہُوَ خَادِعُہُمْ ۚ وَ اِذَا قَامُوْۤا اِلَی الصَّلٰوۃِ قَامُوْا کُسَالٰی ۙ یُرَآءُوْنَ النَّاسَ وَ لَا یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ اِلَّا قَلِیْلًا ’’- (نساء:١٤٢) "بے شک منافق اللہ سے چال بازیاں کررہے ہیں اور وہ انہیں اس چال بازی کا بدلہ دینے والا ہے، اور جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو بڑی کاہلی کی حالت میں کھڑے ہوتے ہیں، صرف لوگوں کو دکھاتے ہیں اور یادِ الٰہی تو یونہی سی برائے نام کرتے ہیں‘‘۔ ایک مقام پر اللہ تعالی نے ان کیلئے ہلاکت و بربادی کی بات کہی ہے، فرمایا گیا: فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ، الَّذِیْنَ ہُمْ عَنْ صَلَاتِہِمْ سَاہُوْنَ، الَّذِیْنَ ہُمْ یُرَآءُوْن- (ماعون: ٤/٦) ’’ہلاکت و بربادی ہے اُن نمازیوں کے لیے جو اپنی نماز سے غافل ہیں، وہ جو ریا کاری کرتے ہیں۔‘‘ احادیث میں بھی ریاکاری کی بہت وعید آئی ہے۔ محمود بن لبیدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’میں تمہارے بارے میں سب سے زیادہ ’’شرکِ اصغر‘‘ سے ڈرتا ہوں‘‘۔ صحابہ کرامؓ نے دریافت کیا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! شرکِ اصغر کیا ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ریا کاری۔‘‘(مسند احمد) ایک اور روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت کے بارے میں شرک کا خوف ظاہر فرمایا۔ آپؐ سے دریافت کیا گیا کہ کیا آپؐ کے بعد آپؐ کی اُمت شرک میں مبتلا ہوجائے گی؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ہاں! پھر یہ وضاحت فرمائی کہ وہ لوگ چاند سورج، پتھر اور بتوں کی پرستش نہیں کریں گے؛ لیکن ریاکاری کریں گے اور لوگوں کو دکھانے کے لیے نیک کام کریں گے۔ (تفسیر ابن کثیر/ دیکھیے: آسان تفسير قرآن)
[email protected]
7987972043
Comments are closed.