” آئیں بچوں کو سنواریں”

آمنہ جبیں ( بہاولنگر)
یہ اکیسویں صدی کا دور ہے۔ جب ہر چیز ڈیجیٹل ہو گئی ہے۔ تو یہ دنیا اور اس کے حالات و واقعات سب اس نئے کمپیوٹر کے دور نے جکڑ کر بوسید کر دیے ہیں۔اس اثناء میں جو سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والی چیز ہے۔ وہ یہ ہے کہ آج کل کے بچے بھی اس دور نے ڈیجیٹل کر دیے ہیں۔ بچوں کی تربیت ان میں اخلاقیات کی پختگی یہ سب نئے دور میں ہم بھول چکے ہیں۔والدین بچوں کو پیدا کرنے کے بعد جس طرح معاشرے کے سپرد کر دیتے ہیں۔ اسے دیکھ کر یوں لگتا ہے یہ بچے ماں کی نہیں اس معاشرے کی کوکھ سے جنم دیے گئے ہیں۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ آج کے دور میں اگر ممکن ہوتا تو ماں باپ اپنے بچوں کو ڈیجیٹل دنیا کے ذریعے ہی پیدا کر لیتے یا پھر کسی سوفٹویئر سے ڈانلوڈ کر لیتے۔ کیونکہ آج ماں باپ کر ہی یوں رہے ہیں۔ بچے پیدا کرتے ہیں۔ اور پھر اپنی ز
ذمہ داری ختم سمجھ کر برئ الذمہ ہو جاتے ہیں۔ لیکن میں ایسے ماں باپ سے کہنا چاہتی ہوں۔ کہ آپ اپنے بچے کو دنیا میں لا کر اس پہ کوئی احسان نہیں کرتے ہیں۔ جس کا بدلہ پھر آپ ان سے طلب کر سکتے ہیں۔ سب سے بڑا احسان تو ماں باپ کو بچے جو پیدا کرنے کے بعد اسے مضبوط توانا درخت بنانا ہے۔ ایسا درخت جس کی چھاؤں میں سب بیٹھیں۔ ایسا درخت جو جڑوں سے مضبوط اور پتوں سے ہرا اور سرسبز ہو۔ لیکن افسوس! آج کے بچے پیدا ہونے سے لےکرجوان ہونے تک ایک سوکھا اور کمزور شجر بن جاتے ہیں۔ کیونکہ ماں باپ اپنے اس شجر کو زمین میں اُگا تو دیتے ہیں ؛لیکن پھر اسے سرسبز کرنے کے لیے اصل خوراک جو اخلاقیات اور اچھے رویوں کی ہے وہ دینے سے ہمیشہ قاصر رہتے ہیں ،ماں باپ ان کو وہ کچھ نہیں دیتے جو دینا چاہیے۔ ہم صرف بچوں کو دو وقت کا کھانا دینا ان کو کپڑے پہنانا اور اچھے اسکول میں داخلہ دلوا کر اعلی تعلیم کے ذریعے کرسی پہ بٹھا کر پیسے کمانے کے قابل بنانا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ماں باپ سوچیں !
ماں باپ بچوں کو ٹیوشن دیتے ہیں، پرائیویٹ اسکول میں داخلہ دلواتے ہیں۔ اور اپنی ذمہ داری پیدا کرنے سے کھلانے پلانے تک سمجھتے ہیں۔نہ توجہ نہ تربیت نہ پیار ان سب کے لیے وقت ہی نہیں ہوتا۔ یاد رکھیں دنیا میں وہی بچہ جی سکتا ہے امن اور مضبوطی سے جس کا اندر مکمل ہو، جس کا اندر محبت اور احساس سے مکمل ہو۔ کیونکہ کتابیں پڑھنے والے بچے عہدے تو لے سکتے ہیں۔ لیکن ان کا اندر کبھی فل اور مکمل نہیں ہو سکتا۔ جبکہ اسے بھرنا ضروری ہے۔ اس لیے بچوں کو ٹیوشنیں دلوا کر ان کو پرائیویٹ اسکول میں داخلے دلوا کر یہ نہ سوچیں کہ فرض پورا ہو گیا۔ یہ صرف آپ کی حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ فرض پورا تب ہو گا جب بچہ اندر سے مکمل پختہ اور مضبوط ہو گا اور وہ ماں باپ کی توجہ اورمحبت سے ہی ہو سکتا ہے۔ آج کے بچے خالی کھوکھلے اور کل کے لیے تیار رہنے والے نہیں ہیں۔ آج کے بچے صرف کرسیوں پہ بیٹھ کر پیسے کمانے کے قابل بن رہے ہیں۔ وہ سخت ہوائیں وہ مشکلات جو زندگی میں جھیلنی پڑتی ہیں اپنے بچے کو اس کا سامنا کرنا سکھائیں۔ اپنے بچے کو مشکل زندگی جینا سکھائیں۔ انہیں بانٹنا سکھائیں۔ انہیں اپنی ذات کی نفی کرنا سکھائیں۔ انہیں سکھائیں کہ صبر کیسے کرنا ہے۔ پسندیدہ چیز کے نا ملنے پہ آگے کیسے بڑھنا ہے۔ انہیں دنیا کے اتار چڑھاؤ سکھائیں۔ انہیں آرام کرنا نرم نازک رہنا گھومنا پھرنا نہ سکھائیں۔ انہیں مشکل زندگی جینا سکھائیں۔ کیونکہ آج کے والدین اگر خود جھونپڑی میں رہتے ہیں تو بچے کو بڑا بنگلہ بنانا سکھاتے ہیں۔ یہ دنیا کیا ہے محض چند مسافتوں کا سفر ہے یہ دنیا، اپنے بچے کو اس دنیا کے فانی ہونے کا یقین دلائیں انہیں دنیا کی آسائشوں سے محبت کرنا نہیں بلکہ کم سے کم وسائل میں خوش اور مطمئن رہنے کے ساتھ ساتھ انہیں شکر کرنا سکھائیں۔ انہیں سکھائیں کہ ایک کپڑا دس بار پہنا جا سکتا ہے۔ انہیں سمجھائیں کہ وقت کیسے بدلتا ہے حالات کیسے بدلتے ہیں اور انسان کیسے پلٹا کھاتا ہے۔ انہیں آج پہ راضی ہونا سکھائیں۔ اپنے بچے کو خود سے متاثر ہونا سکھائیں۔ اور یہ تبھی ممکن ہے جب آج آپ اسے سہل زندگی نہیں بلکہ تھوڑی مشکل زندگی دیں گے۔ تب اسے مشکل سے آسانی کا سفر کرنا آئے گا۔ تب اس میں آگے بڑھنے خود کی تلاش کا موقع ملے گاآسان زندگی بچے کو وہ کچھ نہیں دے سکتی جو چیزیں مشکل زندگی نوازتی ہے۔ مشکل زندگی آگے بڑھنے کی چاہ دیتی ہے۔ کچھ کرتے رہنے کی چاہ دیتی ہے۔ اور اچھے سے اچھا تلاش کرنا سکھا دیتی ہے۔ اس لیے بچے کو پھولوں سے نہیں پتھروں سے لڑنا سکھائیں ۔ تا کہ کل کو وہ سہل زندگی جی سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سب سے بڑی چیز اپنے بچوں کو صلح کرنا احترام اور رشتوں سے محبت کرنا سکھائیں۔ اور یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب آپ میاں بیوی آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ خوبصورت تعلق نبھائیں گے۔جب آپ اپنے بچوں کا حق ادا کریں گے۔ انہیں ان کے حصے کا وقت دیں گے۔ تو آپ انہیں رشتوں کے قریب ہونا سکھائیں گے۔اگر آپ ایک دوسرے کو درگزر کریں گے۔ جب آپ اپنی ازدواجی زندگی میں ایک دوسرے کے سامنے تلخ اور برے رویے نہیں اپنائیں گے۔ تو آپ کے بچوں کو رشتوں سے نبھا کرنا اور درگزر کرنا آئے گا۔ اور اپنے بچے کو سکول اور صرف اساتذہ کے سپرد نہ کریں، کیونکہ جب آپ کے بچے آپ کی کوکھ سے جنم لے کر آپ کے لیے اہم نہیں ہیں۔ تو یقین کریں آپ کے بچے کسی کے لیے بھی اہم نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ دنیا میں سب سے سچا اور خوبصورت رشتہ ماں باپ کا ہی تو ہے۔ جب آپ ہی اپنے بچے کو سنوارنے کی فکر نہیں کریں گے۔ تو کوئی کیوں کرے گا۔ ” نہیں، کبھی بھی نہیں” ایسا نہیں ہو سکتا۔ یہ آپ کے باغیچے کے پھول ہیں۔ ان کی حفاظت آپ نے کرنی ہے۔ اور کسی کو یہ پیارے نہیں ہو سکتے ہیں۔اپنے بچے کو اخلاقیات کے پانی میں نہلا دیجیے اپنے گھر کا ماحول پرسکون اور اسلامی طرز کا کر دیجیے۔ کیونکہ جیسے ہمارے ماحول کی آب و ہوا ہمارے جسم پہ اثر انداز کرتی ہے۔ بالکل اسی طرح ہمارے اردگرد موجود رویوں اور اخلاقیات کی فضا بھی ہم پہ برابر اثر انداز ہوتی ہے۔ اگر آپ کے بچے کے گرد منفی ماحول اور آب و ہوا ہے تو آپ کو بچہ پستی کی طرف گامزن ہو جائے گا۔ اگر آپ کا ماحول پاکیزہ اور شفاف ہے تو آپ کا بچہ پھول کی طرح مہکتا رہے گا۔خدارا! اپنے بچوں کی حفاظت کریں ان کے کل کی فکر کریں ان کے مستقبل کی پریشانی لیں۔ آپ جب بچے کو جنم دیتے ہیں تو اس دن آپ آزاد نہیں ہوتے بلکہ جکڑ دیے جاتے ہیں۔اولاد کی تربیت کی زنجیروں میں جکڑ دیے جاتے ہیں۔جو صرف ضروری نہیں بلکہ اشد ضروری ہے۔اپنے بچوں کو سینے سے لگا کر رکھیں۔ ان کی بات سنیں انہیں سمجھیں اور ان سے پیار کریں۔ ان کو اخلاقی اقدار کی پہچان سکھائیں۔کیونکہ آپ کے بچے کل کا مستقبل ہیں۔ اگر آپ کے بچے آپ کی عدم توجہی کی وجہ سے کل کو معاشرے کے برے کارکن بنتے ہیں۔ تو سب سے پہلے جوابدہ اور زمہ دار آپ ہوں گے۔ ایک تو آپ کا بچہ برے رویوں اور اخلاقیات کی کمی کی وجہ سے خود اپنی ذات کو برباد کر دے گا۔اور دوسرا وہ جس معاشرے کا حصہ ہو گا۔ اپنے اردگرد وہ منفی اثر چھوڑ جائے گا۔ اس لیے بچوں کی زمہ داری کو عام نہ سمجھیں۔یہ بہت اہم زمہ داری ہے اسے نبھانے کے لیے سریس ہوں اور اپنے بچوں کو برباد ہونے سے بچا لیجیے۔ان کا کوئی قصور نہیں ہے۔ وہ صرف آپ کی وجہ سے اندھیروں میں جائیں گے۔ اور عمر بھر سفر کرتے رہیں گے۔خدا سب ماں باپ پہ رحم کرے۔( آمین)
Comments are closed.