جب انسان کے عمل کا رخ خدا کی طرف ہوتا ہے

محمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رح (ولادت ۱۲۸۰ھج وفات ۱۳۶۲ھج) ہندوستان کے عبقری، یکتائے روز گار اور یکتائے زمانہ لوگوں میں سے تھے، آپ نے تنہا وہ علمی و تحقیقی کام کیا ہے، اور وہ کارنامہ انجام دیا ہے، جو یورپ میں پوری پوری اکیڈمی کیا کرتی ہے ۔ آپ اونچے درجے کے عالم ،محقق ،عارف، مصنف اور مصلح و مربی تھے، ہزاروں علمی و تحقیقی کتابوں کے آپ مصنف ومؤلف تھے۔ خانقاہ اور علمی و دینی تصنیفات کے ذریعہ آپ کا علمی اور احسانی فیض خوب جاری ہوا۔ ہزاروں افراد کو آپ کی تربیت سے توبہ اور رجوع الی اللہ کی توفیق ہوئی اور ایک بڑی خلقت نے آپ کے کشکول علم و فضل سے خوب خوب سیرابی حاصل کی۔ حضرت حکیم الامت رح دین و مذھب کے حکیم تھے ۔ آج بھی ان کے ملفوظات و مواعظ دلوں کو گرماتے ہیں ،ذہن و دماغ کو آسودگی و توانائی بخشتے ہیں اور قوت عمل میں تحریک پیدا کرتے ہیں، یقینا وہ اس لحاظ سے غزالی وقت اور اویس زمانہ تھے ۔ اس وقت ہم اپنے قارئین باتمکین کی خدمت میں غزالی وقت حضرت حکیم الامت مولانا تھانوی رح کا ایک واقعہ سناتے ہیں، جو بڑا دلچسپ، نظر افروز اور دل زندہ کے لئے انقلاب آفریں ہے ۔ یہ واقعہ ہمیں مہمیز لگانے کے لئے اور عمل کا رخ خدا کی طرف کرنے اور پھیرنے کے لئے ایک اکسیر ثابت ہوسکتا ہے، شرط یہ ہے کہ ہم خلق کی طرف سے نگاہ ہٹا کر اپنی نگاہ خالق کی طرف کرلیں اور عمل میں اخلاص و یقین پیدا کرلیں ۔ چونکہ یہ واقعہ ایک عارف زمانہ کا ہے اس لئے اس واقعہ کی تفصیل ایک عارف باللہ ہی کی زبانی سنئے ۔ *مولانا شاہ عبد الغنی پھول پوری رح* فرماتے ہیں :
*حضرت تھانوی رح کے یہاں پہلے ضابطہ تھا کہ جب کوئی وارد (نیا آنے والا) آئے تو بغیر سوال کئے خود بتائے کہ میں فلاں ہوں، فلاں جگہ سے آیا ہوں،اور فلاں مقصد کے لئے حاضر ہوا ہوں ،لیکن جب حضرت والا کی نظر مبارک سے یہ حدیث گزری بالداخل وحشة تلقونه بمرحبا* (الدیلمی ) *یعنی نئے آنے والے کو اجنبیت کے سبب ایک قسم کی حیرت زدگی اور بدحواسی ہوتی ہے اس لئے اس سے آو بھگت اور بشاشت کے ساتھ ملا کرو ۔تاکہ اس کی طبیعت کھل کر مانوس ہو جائے اور حواس بجا ہوجائیں اور ہر قول و فعل کا موقع سمجھ کر نہ خود پریشان ہو اور نہ دوسرے کو پریشان کرے* ۔
*حضرت تھانوی رح نے تحریر فرمایا ہے کہ یہ حدیث میری نظر سے اس وقت گزری جبکہ میری عمر اکہتر سال کی ہوچکی تھی ،اللہ تعالی نے حدیث کی برکت سے مجھے توفیق عطا فرمائی کہ اب آنے والے سے میں خود اس کا مقام ،اس کے آنے کی غرض اور اس کا مشغلہ پوچھ لیا کرتا ہوں ۔اس سے ضروری حالات معلوم ہوجاتے ہیں اور وہ مانوس ہوجاتا ہے* ۔ *(معرفت الہیہ ص: ۳۷۱)*
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رح کے اس واقعہ اور طرز عمل سے یہ سبق اور پیغام تو ملتا ہی ہے کہ مہمان اور نئے آنے والے کے ساتھ محبت ،الفت اور اپنائیت کا کس طرح برتاؤ کرنا چاہیے اور مرحبا اور خوش آمدید کہہ کر کس لطف و کرم مہربانی اور خندہ پیشانی کے ساتھ استقبال اور ویل کم کرنا چاہیے کہ آنے والا اپنے سفر کی تکان اور راہ کی صعوبتوں، مشقتوں اور پریشانیوں کو بھول جائے ،اس کے دل سے اجنبیت کا احساس جاتا رہے اور وہ یہ سمجھے کہ میں اپنے کسی رشتہ دار قریبی ساتھی اور کسی خاص عزیز دوست و احباب کے پاس آیا ہوں ۔ جہاں مجھے ہر طرح کا آرام سکون اور راحت میسر ہے ،کسی طرح کا خوف اور اجنبیت کا مجھے یہاں احساس نہیں ہوتا ۔
لیکن اس واقعہ کی تہہ میں اور اس واقعہ کے اندر پنہاں جو اصل پیغام ہے اور جو پیغام ہمارے قلب و نظر ذہن و دماغ اور فکر و خیال کو مہمیز لگانے کے لئے کافی ہے وہ یہ ہے کہ کسی حق کا اعتراف، سچائی کو تسلیم کرنا اور اظہار حق کرنا، انسان کی سب سے بڑی خوبی ، اور کمال ہے، یہی علمی دیانت ،انسانی شرافت اور حق نگری اور حق پرستی کا تقاضا ہے ،اس سے انسان کی شان اور مقام و مرتبہ کم نہیں ہوتا ۔ عزت کم نہیں ہوتی ۔زیادہ ہوتی ہے ،اعتماد مجروح نہیں ہوتا بحال ہوتا ہے ۔
باخبر لوگ بے خبر نہیں ہوں گے کہ مضبوط دلیل سامنے آنے کے بعد اپنے کسی فکر ، قول ،نظریہ، موقف اور مانوس عمل پر جمے رہنا اور مختلف تاویل توجیہات اور دور از کار تاویلات کے ذریعہ اس کو درست اور صحیح ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرنا ،اہل حق کا شیوہ نہیں، اہل باطل کا وطیرہ ہے ،حق پرست تو حق کے سامنے جھک جاتے ہیں ۔ سچائی کا اعتراف کرتے ہیں اور حق کو قبول کرلیتے ہیں ۔ غزالی وقت اور بو حنیفئہ عصر ہونے کے باوجود بشر ہونے کے ناطے کوئی خطا ہو جائے ، انسان ہونے کے ناطے کوئ غلطی اور چوک ہوجائے، تو اس کا اعتراف کرتے ہوئے شرماتے نہیں ہیں اور نہ ہی غلطی پر پردہ ڈالنے کی مذموم سعی و کوشش کرتے ہیں، ایسی کسی بھی غلطی یا چوک کے بعد ۰۰اعتراف ۰۰ ۰۰جہل۰۰ کی علامت نہیں عین ۰۰ علم ۰۰ کی دلیل ہے ۔ عمر کا کوئی حصہ ہو اور نسبی،جاہی ،مالی اور علمی شہرت کی کوئی بھی منزل اور مقام ہو ،قبول حق اور اظہار حق کی راہ میں کسی بھی چیز کو آڑے نہیں آنی چاہیے، ہر حالت میں، ہر صورت میں حق، حق ہے اور باطل،باطل ہے جس کا برملا اعتراف اور اظہار انسان کو حق پرستوں اور انصاف پسندوں میں لاکھڑا کرتا ہے ۔
لیکن یہ اسی وقت ممکن ہوگا ،انسان اس میں منزل و مقام پر اس وقت پہنچے گا اس کا ذھن و دماغ اور فکر نظر اس سانچے میں اس وقت ڈھلے گا جب کہ انسان کے عمل کا رخ اپنے جیسے انسان کی طرف نہیں، اپنے جیسے شخص کی طرف نہیں، بلکہ خدا کی طرف ہو شریعت کی طرف ہو، اسی کی خوشی اور ناخوشی کو اپنے لئے معیار کسوٹی میزان اور پیمانہ بنایا گیا ہو ،خلق سے نظر ہٹ کر خالق کی طرف متوجہ ہوگئی ہو اور اس پر جم گئی ہو ۔ عمل میں اخلاص عبادتوں میں للہیت اور معاملات و معاشرت میں خلوص ایسی ہی صورت میں پیدا ہوتا ہے اور ایسے ہی مخلصانہ عمل کی خوشبو ہر سو پھیلتی ہے ۔ اور آج دنیا کو اس خوشبو کی سب سے زیادہ ضرورت ہے ۔ *( مستفاد از چراغ راہ مولانا محمد رضوان القاسمی صاحب رح ص: ۲۰۹)*
*حضرت تھانوی رح* کا یہ واقعہ ،ان کا یہ عمل ،ان کا یہ اسوہ،ان کا یہ طریقہ ان کا یہ کردار اور ان کی یہ سیرت ہمارے لئے مثل آئنیہ ہے، ہم سب اس آئنیہ میں اپنی اپنی تصویر پہچان سکتے ہیں ۔ ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہمارے عمل کا رخ خدا کی طرف ہے یا انسان کو راضی اور خوش کرنے کے لئے ؟ اس آئنیہ میں اپنی سیرت اور کردار و عمل کو جانچ سکتے ہیں کہ ہماری نگاہ اس عمل کے پیچھے خالق کی طرف ہے یا مخلوق کی طرف ؟ ہم کسی فکر عقیدہ اور نظریہ پر قائم و دائم اور مصر اپنی انا اور ضد کی وجہ سے ہیں یا سچ مچ اللہ کے کلمہ اور دین کے لئے ہیں ؟ خدا کرے اس آئنیہ میں ہم سب کو اپنی اپنی تصویر اور صورت کو پرکھنے اور اپنے عمل کو جانچنے اور عمل کے رخ کو خدا کی طرف کرنے کی توفیق مل جائے آمین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Comments are closed.