جب عبادت بھی ریاکاری کا سبب بن جائے!!

 

محمد صابر حسین ندوی

حکمت و دانائی کی باتیں ہوں اور شیخ سعدی کا ذکر نہ کیا جائے؛ بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے، شیخ نے انسان کی بہت سی کمزوریوں، نفسانی بیماریوں اور مَن کی بے جا خواہشوں پر وار کیا ہے، آپ کے اقوال حکیمانہ پڑھنے اور سننے والے جانتے ہیں کہ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں، قصے، کہانیوں اور جامع سطور میں ہو باتیں کہہ جاتے ہیں جس سے انسانی سماج کی اصلاح، نفس کی درستگی اور دماغ کا فساد دور ہوتا ہے، وہ گویا ایک نشتر کی طرح کبھی کبھی چیرا لگاتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں، جو دل کے فاسد خون کو نکال باہر کرتا ہے، روحانی امراض کو دور کرتا ہے، اور انسان کو صاف وشفاف بننے پر آمادہ کرتا ہے، ان کی حکمت اور دانشوری کا شہرہ ہی ہے کہ ان دنوں سوشل میڈیا کے دور میں بہت سے اقوال جن کی سند آپ تک نہیں پہنچتی؛ انہیں بھی مستند کرنے اور لوگوں تک پہنچانے کیلئے منسوب کردیا جاتا ہے، جو بھی ہو اتنا طے ہے کہ اگر ایک شخص ان کی حکمت بھری باتیں اور نصیحتیں پڑھے اور کان دھرے تو ایک بڑا انقلاب اپنے میں لا سکتا ہے، آپ کی باتیں فارسی میں ہیں، چونکہ ایک زمانے میں فارسی کا عروج تھا تو اس کے سمجھنے والے بھی خوب ہوتے تھے؛ لیکن اب فارسی شاذ کے درجے میں رہ گئی، یہی وجہ ہے کہ اب اردو میں ان کی باتیں منتقل کہ جارہی ہیں اور خوب عام کیا جارہا ہے، آپ کی ایک نصیحت یہاں نقل کی جاتی ہے، جو پڑھنے اور غور فکر کرنے پر ابھارتی ہے، شیخ سعدیؒ کی روایات میں ایک قصہ ملتا ہے۔ ایک شخص جو دیکھنے میں بہت پرہیزگار اور عبادت گزار معلوم ہوتا تھا، ایک بادشاہ کا مہمان ہوا۔ جب کھانے کے لیے دسترخوان پر بیٹھا تو اپنی خوراک سے کم کھایا، اور جب نماز کے لیے کھڑا ہوا تو عادت سے زیادہ وقت صرف کیا تاکہ لوگ اس کے متعلق اچھی رائے قائم کریں اور اُن کے دلوں میں اس کی عقیدت بڑھے۔ اے جاہل اور گنوار شخص تُو کعبہ کی زیارت کے لیے جانا چاہتا ہے مگر تُو وہاں نہ پہنچ سکے گا، کیونکہ تُو جس راستے پر جارہا ہے یہ تو ترکستان کا راستہ ہے۔ یعنی تمھارا مقصد تو یہ ہے کہ نیک عمل کرکے خدا کی خوشنودی حاصل کرو، لیکن تم نے ریاکاری کا جو طریقہ اختیار کیا ہے اُس کی وجہ سے اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکو گے۔جب وہ بزرگ نما شخص اپنے مکان پر واپس آیا تو کھانا مانگا۔ اُس کا لڑکا بہت سمجھ دار تھا، باپ سے کہنے لگا ’’ابّا جان! کیا آپ نے بادشاہ کے دسترخوان پرکھانا نہیں کھایا؟‘‘ اس نے کہا ’’میں نے بادشاہ کے یہاں بہت تھوڑا سا کھایا ہے تاکہ اُس پر اور دوسرے لوگوں پر میری بزرگی کا اثر پڑے اور مجھ سے عقیدت بڑھے‘‘۔ لڑکے نے کہا ’’ابّا جان! آپ نماز بھی دوبارہ پڑھ لیجیے کیونکہ بادشاہ کے ساتھ آپ نے جو نماز پڑھی وہ دکھاوے کے لیے تھی، خدا تعالیٰ کے لیے نہ تھی۔ جو شخص اپنی معمولی ہنرمندی دوسروں کو دکھاتا ہے لیکن اپنے بڑے عیبوں کو چھپاتا ہے اسے یاد رکھنا چاہیے کہ جس طرح سے کھوٹے روپیہ سے کوئی چیز نہیں خریدی جا سکتی، اسی طرح برائیوں سے نیک نامی حاصل نہیں ہوسکتی۔‘‘
شیخ سعدی نے انسان کے نفس پر حملہ کیا ہے، ذرا غور کیجئے! اب وہ دور ہے جس میں انسان ہر چیز دکھاوے کیلئے کرتا ہے، خود پسندی باقاعدہ ایک عنوان ہے جو سائیکولاجی میں زیر بحث لایا جاتا ہے، جس کا مرکزی نقطہ انسان کی زندگی کا وہ حصہ ہے جو اسے ظاہریت پر اکساتی ہے، چنانچہ عصر حاضر میں تجارتی منڈیوں میں سب سے بڑا بازار انسان کے اسی نفس کو ٹھہرایا گیا ہے، میک اپ، فیشن، سیلفی، پارٹیاں وغیرہ وغیرہ…… مگر اس ریاکاری میں اگر معراج انسانی بھی شامل ہو جائے تو کیا کہا جائے گا؟ ایک شخص جو نماز پڑھتا ہے، خشوع و خضوع اور تقوی کا حصول اور رضائے الٰہی سے سرشار ہونا چاہتا ہے؛ لیکن اس کے دل میں ریاکاری اور عمل میں ظاہریت نظر آتی ہے، سورہ فاتحہ کی تلاوت سے لیکر آیات کی تلاوت اور رکعتیں ہر ایک سے یہ جھلکتا ہے؛ کہ وہ شخص نماز کو سودا بنا چکا ہے، اللہ تعالی کی بارگاہ میں پیش ہو کر بھی دنیا کی محبت اور مادیت سے چمٹا ہوا ہے، آپ یقین جانئے! یہ کوئی محض قول نہیں بلکہ بہت سوں کا حال ہے، جن کی زندگی اس بات پر شاہد ہے کہ انہوں نے نماز کو اپنی ریاکاری کا ذریعہ بنایا، اپنی برتری اور شہرت، حسن ادائیگی، الحان و قرائت کی سحر میں نماز کی جان نکال دی، بظاہر وہ دیکھنے میں نیکی کا انبار لگتے ہیں، کوئی دفعتاً دیکھے تو ہیبت میں مبتلا ہوجائے، ان کی نمازیں دیکھ لے تو دل میں دینی رعب جاں گزین ہوجائے؛ لیکن جوں جوں ان کی زندگی کی ورق گردانی کریے، بلکہ معمولی حساسیت سے بھی کام لیں تو پتہ چل جائے گا کہ وہ نماز کو عوام کے درمیان مقبولیت، اور اپنی دھاک جمانے کیلئے استعمال کر رہے ہیں، بات درست ہے کہ اگر دین و ایمان کی حلاوت نصیب نہ ہو تو پھر انسان لاکھ عبادت کرے، حج و عمرہ کرے سبھی اعمال ظاہر سے اٹھ کر روحانیت پانے پر قادر نہیں رہتے ہیں، انسان کا امتیاز اس کا دل ہے، اور اس دل کا طرہ خشیت الہی ہے، جس دل میں خشیت نہ ہو اس کے ظاہری اعمال بھی لائق التفات نہیں؛ لیکن اگر خشیت اور رب کی رضا، خوشنودی اور اس کے حکم کی اطاعت بجالانے کی نیت سے کوئی ادنی عمل بھی کرے تو وہ بھی قابل قبول؛ بلکہ باعث نجات بن جاتا ہے، یہ اتم درجہ کی جرأت رندانہ اور خبیثانہ عمل ہے کہ انسان مادی مفاد، چند ظاہری مقاصد اور نام و نمود کیلئے اپنی معراج کو بھی ٹھو کر مار دے، تصنع، بناوٹ اور دکھاوے کے ذریعے ہر شئی مجروح کردے اور اپنے لئے جنت کے کاغذ پر جہنم کا پروانہ لکھ والے.

[email protected]
7987972043

Comments are closed.