شادی کیلئے مذہب کی تبدیلی ایم ودود ساجد (پہلی قسط)

ایم ودود ساجد
سری نگر میں ایک 19سالہ سکھ خاتون اور ایک 28 سالہ مسلم مرد کی مبینہ شادی کے واقعہ کی کچھ مصدقہ تفصیلات منظر عام پر آئی ہیں۔شاہد نذیر بھٹ کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار تھے اور انہوں نے لڑکی کے اہل خانہ کو بہت پہلے متنبہ کردیا تھا۔کلیرین انڈیا نامی نیوز پورٹل نے تو اس سے بھی زیادہ تفصیلی معلومات عام کی ہیں۔اس کے رپورٹر محمد رافع نے لکھا ہے کہ بارہ مولا کی رہنے والی منمیت کور نے اپنا نیا نام زویا رکھ لیا تھا اور گزشتہ 5 جون کو ہی دونوں نے بغیر شور شغف کے شادی کرلی تھی۔
شاہد نذیر کی بہن رقیہ بھٹ نے بتایا کہ اس کا بھائی گزشتہ 21 جون کی صبح کسی کا فون وصول کرنے کے بعد گھر سے نکل گیا تھا۔ ہم نے سمجھا کہ وہ 9 بجے تک تو واپس آہی جائے گا۔لیکن ہمیں اس وقت تک کچھ بھی علم نہیں ہوا جب تک پولیس نے آکر ہمیں یہ اطلاع نہ دیدی کہ اسے گرفتار کرلیا گیا ہے۔ رقیہ نے بتایا کہ بعد میں علم ہوا کہ 21 جون کو وہ اور منمیت کور مقامی پولیس اسٹیشن پہنچے تھے۔کلیرین کی رپورٹ کے مطابق پولیس نے ان دونوں کو 25 جون کو عدالت میں پیش کیا۔الجزیرہ کے رفعت فرید نے لکھا ہے کہ پولیس نے بالجبر تبدیلی مذہب کے واقعہ سے انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ محبت کی شادی کا معاملہ ہے۔
جس وقت عدالت میں مجسٹریٹ کے سامنے منمیت کور یا زویا کے بیانات قلم بند کئے جارہے تھے عدالت کے باہر بڈگام گرودوارہ کمیٹی کے صدر ست پال سنگھ اورسری نگر گرودوارہ کمیٹی کے صدرجسپال سنگھ کئی درجن مقامی سکھوں کے ساتھ ہنگامہ کر رہے تھے۔کلیرین کے مطابق ایک پولیس افسر نے بتایا کہ مجسٹریٹ کے سامنے زویا نے بیان دیا کہ اس نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا ہے اور اس پر کسی نے دباؤ نہیں ڈالا ہے۔ ایک سکھ لیڈر نے لڑکی کے اس بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ لڑکی کا دماغی توازن ٹھیک نہیں ہے۔کلیرین کے مطابق مجسٹریٹ نے لڑکی کو اس کے شوہر کے حوالہ کردیا تھا لیکن باہر جمع سکھوں نے اسے بالجبر چھڑا کر گاڑی میں ڈالا اور فرار ہوگئے۔
اب یہاں سے کہانی دوسرا رخ لیتی ہے۔ اس سے پہلے کہ مقامی سکھ لیڈر کوئی بیان جاری کرتے دہلی کے سکھ لیڈراور گرودوارہ مینجمنٹ کمیٹی کے صدرمنجندر سنگھ سرسا نے دوسرے شرپسندوں کی طرح اس واقعہ کو ’لوجہاد‘ قرار دے دیا۔سرسا نے یہاں تک کہہ دیا کہ لڑکی کو اغوا کرکے زبردستی اس کا مذہب بدلوایا گیا اوربندوق کی نوک پر اس کی شادی 60 سال کے ایک مسلمان سے کردی گئی۔حالانکہ اس پر کشمیر کے سکھ لیڈروں نے اعتراض کیا اور کہا کہ یہ ہمارا معاملہ ہے‘ کشمیر سے باہر کے لوگ اس واقعہ کا استحصال نہ کریں۔لیکن سرسا نے وہی کردارادا کیا جو ’لوجہاد‘ کے نام پر غنڈہ گردی مچانے والے کر رہے ہیں۔شرپسند میڈیا نے بھی اس واقعہ پر خوب جھوٹ اور شر پھیلایا۔
کلیرین کے مطابق بارہ مولا کی ضلع عدالت میں شاہد اور زویا نے شادی کا جو معاہدہ نامہ جمع کرایا ہے اس میں دونوں نے لکھا ہے کہ ہم ہر حال میں شادی کرنا چاہتے ہیں اور ہمیں اپنے ماں باپ کا کوئی ڈر نہیں ہے جو ہم دونوں کی شادی ہونے دینا نہیں چاہتے۔ ہم بالغ ہیں اور اپنے ماں باپ کی خواہش کے خلاف ہمیں ایک دوسرے سے شادی کرنے کی آزادی ہے۔کلیرین کے مطابق زویا (منمیت کور) نے 22 جون کے ایک حلف نامہ میں لکھا ہے کہ اس نے اپنی مرضی‘ خواہش اور کسی کی بھی طرف سے کسی بھی دباؤ کے بغیرمکمل ہوش وحواس میں مذہب اسلام قبول کرلیا ہے۔
لیکن 25 جون کو منجندر سنگھ سرسا اور ان کے ساتھیوں نے زویا کی شادی ایک سکھ لڑکے سے کردی اور اسی روز ان دونوں کو کچھ سکھوں کے محاصرہ میں دہلی روانہ کردیا۔30 جون کو آل پارٹیز سکھ کو آرڈی نیشن کمیٹی کے صدر جگموہن رینا نے سری نگر پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے اس الزام کو مسترد کردیا کہ سکھ لڑکی کا بالجبر مذہب بدلوایا گیا ہے۔تاہم اس سوال پر وہ خاموش رہے کہ جب عدالت میں لڑکی کی شادی ایک مسلم مرد سے ہوگئی تھی تو اب سکھ لڑکے سے اس کی شادی کی قانونی حیثیت کیا ہے۔ جگموہن رینا نے منجندر سنگھ سرسا پر بھی الزام لگایا کہ انہوں نے اس اشو کو فرقہ وارانہ رنگ دے دیا۔انہوں نے کہا کہ وہ (سرسا) ہم کشمیریوں کے کاندھے پر دہلی اور پنجاب کی سیاست کرنا چاہتے ہیں‘ لیکن ہم یہ نہیں ہونے دیں گے۔شرومنی اکالی دل کے صدر پرم جیت سنگھ سرنا نے بھی ان لوگوں سے فاصلہ کرلیا جو دہلی سے آئے تھے اور جنہوں نے ’تشدد کو ہوا‘دی۔
ادھر میر واعظ عمر فاروق کی قیادت میں متحدہ مجلس علماء کے ممبران نے مقامی سکھ لیڈروں سے ملاقات کی اور بالجبر تبدیلی مذہب کے الزام کو سختی کے ساتھ مسترد کردیا۔جہاں تک شاہد نذیر کی بات ہے تو اس کے گھر کا حال یہ ہے کہ شاہد کے باپ کے علاوہ کوئی اور کمانے والا نہیں ہے۔وہ بھی لوہار کا معمولی کام کرتا ہے اور کسی طرح گھر کا خرچ چلاتا ہے۔ تین بہنیں ہیں جن کی ابھی تک شادی نہیں ہوئی ہے۔خود شاہد کے پاس پہلی شادی سے چھ سال کی ایک بیٹی ہے۔ شادی کے دوسال بعد اس کی بیوی نے خلع لے لیا تھا۔وہ ٹور آپریٹر کے یہاں معمولی کام کرتا ہے۔ایسے میں یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اس خاندان نے کس طرح ایک سکھ لڑکی کا زبردستی مذہب تبدیل کرادیا اور کس لالچ میں لڑکی نے مذہب بدل لیا۔اس نے ایک مسلم مرد سے شادی کے لئے اپنا مذہب چھوڑا۔اس نے کوئی عرفان حق کے نتیجہ میں اسلام قبول نہیں کیا۔۔۔
جاری۔۔۔۔
Comments are closed.