کتنے بے بس ہیں ہم !

 

 

عمر فراہی ۔۔۔۔

 

حکومت اور ریاست کے بغیر نہ صرف کسی فساد بدعنوانی برائی اور دشمن ملک کے حملے سے نجات پانا نا ممکن ہے کسی وبا کی شکل میں انسانی اور شیطانی وسوسے اور شر پر قابو پانے کیلئے کس طرح قانون اور ضابطے کی پابندی لازم قرار پاتی ہے کرونا وبا کے بعد کی صورتحال سے ہمیں اس کا بھی اندازہ ہو جانا چاہئے کہ بہت کچھ غلط ہوتے ہوۓ دیکھ کر بھی ہم اسے صحیح کرنے سے عاجز اور بے بس ہیں ۔مثلا اسپتالوں کی دھاندھلی آکسیجن اور دواؤں کی بلیک مارکیٹنگ اور vaccination کے تعلق سے رازداری اور شکوک شبہات کے معاملے کو حل کر لینا ہماری پہنچ سے باہر ہے ۔

اعظم خان صاحب جو مرحوم مولانا ریاض صاحب کے نواسے ہیں ایک مضمون پر ویکسین کے تعلق سے اسی بے بسی کے احساس کا اظہار کرتے ہیں کہ

” عمر بھائی

سارے راز اگر آپ کے سامنے عیاں ہو بھی جائیں تب بھی گلوبل ویلیج کی یہ مجبوری ہے کہ ویکسین لینا ہی لینا ہے۔کبھی ہم خوف و دہشت میں رہ کر یہ کام کیے جائیں گے تو کبھی سفر کبھی شہریت کبھی بزنس کبھی نوکری کے نام پر اسے لینے کیلئے مجبور کر دیا جاۓگا۔اسے سازش کہہ دیا جائے یا نہ کہا جائے ہر حال میں ویکسین لینا آپ کی مجبوری ہے ”

یہاں پر ہمارا مدعا ان اسلام پسند لبرل ذہنیت کے اماموں کو آئینہ دکھانا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ اگر مسلمانوں کو سیکولرزم کے دائرے میں اپنے دین پر عمل کرنے کی آزادی ہے تو وہ اس پر عمل کریں انہیں روکتا کون ہے ۔وہ کیوں بار بار نظام مصطفیٰ اور قرآنی حکومت کی بحث کرتے ہیں ۔

اب انہیں کیسے سمجھایا جاۓ کہ جو بدعنوانی اور مادہ پرستی کی برائی موجودہ سیاست میں داخل ہو چکی ہے وہ نظام خود کتنا اپنے اندھ بھگتوں کیلئے بھی مفید ثابت ہو رہا ہے اس کا خمیازہ وہ خود بھگت رہے ہیں ؟ باقی حرمین شریفین اور دلی کی جامع مسجد سے اٹھنے والی شیخ عبداللہ کی آواز رفتہ رفتہ کیسے خاموش کر دی گئی اس کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ جب اللہ کا دین انسان کے تخلیق کردہ قانون کے دائرے میں محدود ہوکر کسی حکم کا پابند ہو جائے تو اس کی اصل روح کا فنا ہو جانا بھی یقینی ہے۔

جبکہ انبیاء کرام کو کتاب کے ساتھ بھیجا ہی اس لئے گیا تھا کہ وہ تمام جنس دین کو اسلام کے دائرے میں داخل کرکے لوگوں کے اجتماعی مزاج کو تبدیل کرنے کا ماحول پیدا کریں۔

باقی اس نظام کے دائرے میں آزادانہ زندگی بسر کرنے والے مسلم خاندان جس تیزی کے ساتھ مسجد سے میخانے کی طرف بڑھ رہے ہیں تو اس کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ داعی ایک زمانے سے مستقل مکی دور میں ہے وہ اپنے اطراف میں اسلامی ماحول اور معاشرہ تو اسی وقت قائم کر سکتا ہے جب کہ اسے یثرب کی آزاد فضا میسر ہو ۔

یہ بات صحیح ہے کہ اس وقت ہم بے بس ہیں کچھ نہیں کرسکتے لیکن ہمیں اپنی غلطی کا احساس بھی تو نہیں ہے کہ خرابی کہاں ہے اور اس خرابی کو ٹھیک کرنے کی صورت کیا ہو سکتی ہے جبکہ گلوبل ویلیج کو تقویت بخشنے والی غالب طاقتوں نے اقتدار کی طاقت سے رفتہ رفتہ لوگوں کے مزاج کو تبدیل کرنے کی جو کوشش کی ہے اب خود اہل ایمان کی ایک دوسری اور تیسری نسل کو اپنے تبدیل ہو جانے کا بھی احساس نہیں رہا ۔اقبال نے شاید اسی پس منظر میں یہ بات کہی ہے کہ

واۓ ناکامی متاع کارواں جاتا رہا

کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

لوگوں کے مزاجوں میں کیسے تبدیلی لائی گئی اور کس عمل کے بڑھاوے کی کیسے حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور کس عمل کی حوصلہ شکنی پولیس عدلیہ اور پارلیمنٹ تینوں قانونی اداروں کے ذریعے ہوئی ہے اس کا مشاہدہ اگر ہم آزادی کے بعد سے اپنے ملک میں کریں تو ایک طرف لبرل اسلامی اسکالروں کی سرکاری انعامات اور مراعات سے پست پناہی کی گئی دوسری طرف اسلام پسند نوجوانوں کی تحریک پر پابندی سے لیکر اسلامی مبلغین کی گرفتاری اور جلاوطنی بھی کسی فریب اور المیے سے کم نہیں ہے ۔۔اس کے علاوہ حکومت کے خلاف اٹھنے والی سیکولر اور انصاف پسند غیر مسلم آوازوں کو بھی جس طرح ڈرا دھمکا کر خاموش کیا جارہا ہے اس موضوع پر بھی جسٹس شری کرشنا, ویبھوتی نارائن راۓ, رام پنیانی،اپوروا نند, ایم ایم مشرف راعنا ایوب اور ارون دھتی رائے کے تلخ تبصرے بھی ان کی تصنیفات میں موجود ہیں ۔اس موضوع کے ایک دوسرے رخ پر بحث کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ آزادی کے بعد سے ہی کس طرح ہندوتوا کی بات کرنے والے آزاد رہے اور اقامت دین والوں پر ملکی ایجنسیوں کی نظر رہی ۔حالانکہ آج تک ان کے کسی بھی اجتماع کے بعد کسی طرح کی کوئی فساد کی کیفیت نہیں پیدا ہوئی پھر بھی اگر ان کے اجتماعات مسجدوں میں بھی ہوۓ تو بھی مسجد کے باہر پولیس کی گاڑی کھڑی کر دی گئی تاکہ اس تنظیم کو یہ احساس رہے کہ ان کی سرگرمیاں ایجنسیوں کی نگرانی میں ہیں ۔ایک دن ایسا آ بھی گیا جب یہ لوگ بھی گلوبل ویلیج کے دھارے میں ڈھل ہی گئے ۔ اب یہ خود ہی اعتراف کرتے ہیں کہ جمہوریت ایک نعمت ہے اور یہ سازش وازش کا فلسفہ سب نیم خواندہ صحافیوں کا جھوٹا پروپیگنڈہ ہے !

اس طویل تمہید کے بعد آپ ہم سے سوال کر سکتے ہیں کہ پھر کیا آپ جمہوریت پر یقین نہیں رکھتے یا جس ملک میں رہتے ہیں اس کے قانون کو نہیں مانتے تو اس کا جواب یہی ہے کہ کسی ملک کے قانون کی پابندی کرنا الگ بات ہے قانون پر یقین کرنا ایمان لانا یا نعمت قرار دینا ایک الگ بحث ہے ۔

دنیا کے ہر خودساختہ قانون میں ہمیشہ تبدیلی ہوتے رہتی ہے اور یہ تبدیلی اسی وقت ممکن ہے جب لوگوں کو قانون کی خرابیوں اور برائیوں کا احساس ہو ۔آزادی انسان کا بنیادی حق ہے اور آزادی بغیر بحث و مباحثات ،افہام و تفہیم اور دعوت و عزیمت کے ناممکن ہے ۔یہی جرآت اور عزیمت اسے کسی بھی رائج قانون پر سوال اٹھانے پر بھی آمادہ کرتی ہے ۔ باقی یہ جو کچھ مبلغین نے سرمایہ دارانہ نظام کو مسلمان بنانے کیلئے اسلام کے لاحقے کے ساتھ

اسلامی جمہوریہ ,اسلامی بینکنگ اور اسلامی معیشت وغیرہ کی بدعات ایجاد کر لی ہے یہ بھی چور دروازے سے اس نظام کو قبول کرنے کا بہانہ ہے جو ایک طرح کا شرک ہی ہے ۔ ؟سچ تو یہ ہے کہ شرک , جہالت اور سیکولرزم کے ساتھ اسلام کے لاحقے کا استعمال کرکے اسے حلال نہیں کیا جاسکتا ۔

شرک شرک ہے سیکولرزم سیکولرزم ہے کفر کفر ہے جہالت جہالت ہے اور اسلام اسلام ہے ۔

لیکن ہمیں اس بات کا اعتراف بھی ہے کہ صرف اسلام اور اسلامی نظام کی بات کرنے سے کسی صالح نظام کی بنیاد بھی نہیں رکھی جاسکتی ۔ہر نظم کو ناظم کی ضرورت ہوتی ہے ۔جس دن اسلام کو خدا کے صالح بندوں کی جماعت میسر آگئی دین صرف اسلام ہوگا ۔

Comments are closed.