بابری مسجد کا فیصلہ لکھنے والے جسٹس اشوک بھوشن ریٹائر ہوگئے ۔۔۔

ایم ودود ساجد
سپریم کورٹ کے جج’ جسٹس اشوک بھوشن کے ریٹائرمنٹ سے یہ پتہ چل گیا کہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کو دینے کا فیصلہ انہوں نے ہی لکھا تھا۔ لطف یہ ہے کہ اس فیصلہ پر پانچ ججوں میں سے کسی کے بھی دستخط نہیں تھے۔
آن لائن الوداعی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سینئر ایڈووکیٹ وکاس سنگھ نے اس راز سربستہ سے پردہ اٹھایا ۔ جسٹس اشوک بھوشن نے ہی 116 صفحات کا ضمیمہ بھی لکھا تھا جس میں اجودھیا کو "رام کی جائے پیدائش” ثابت کیا گیا تھا ۔
مجھے یاد آیا کہ جس وقت 2019 میں سپریم کورٹ کی پانچ رکنی بنچ کے سامنے اس مقدمہ کی سماعت چل رہی تھی تو مسلم فریق کے وکیل راجیو دھون اور جسٹس اشوک بھوشن کے درمیان کئی بار تلخ کلامی کا تبادلہ ہوا۔۔ ایک بار تو راجیو دھون نے بنچ کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ میرے دلائل سے بنچ مشتعل ہوجاتی ہے اور بعض اوقات وہ اس کا اظہار بھی کردیتی ہے۔۔
یہ جسٹس اشوک بھوشن ہی تھے جو مختلف انداز سے یہ سوال کر رہے تھے کہ پھر رام کہاں پیدا ہوئے ۔۔ میں نے اسی وقت لکھا تھا کہ جب بھی بابری مسجد کا فیصلہ آئے گا کوئی انہونی بھی ہوسکتی ہے۔ اس بنچ کے باقی ججوں کا مجھے علم نہیں لیکن جسٹس چندر چوڑ کے بارے میں یقین ہے کہ انہیں فیصلہ پر بہت مشکل پیش آئی ہوگی۔۔ راجیو دھون نے بحث کے دوران ایک بار کہا بھی تھا کہ اس بنچ میں صرف جسٹس چندر چوڑ ایسے ہیں جنہوں نے اس مقدمہ کی تمام دستاویزات کا بغور مطالعہ کیا ہوگا۔۔
بہر حال سب سے بڑی’ سب سے اونچی اور سب سے آخری عدالت کا بھی ایک فیصلہ آنا باقی ہے۔۔ قرآن کہتا ہے:
ومن اظلم ممن منع مساجد الله ان یذکر فیہا اسمہ وسعی فی خرابہا’ اولئک ما کان لہم ان یدخلوہا الا خائفین’ لہم فی الدنیا خزی ولہم فی الآخرۃ عذاب عظیم۔۔
یعنی: اور اس شخص سے بڑا ظالم کون ہوگا جو ﷲ کی مسجدوں پر اس بات کی بندش لگادے کہ ان میں ﷲ کا نام لیا جائے اوران کو ویران کرنے کی کوشش کرے ۔ ایسے لوگوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ان (مسجدوں ) میں داخل ہوں مگر ڈرتے ہوئے ۔ ایسے لوگوں کیلئے دنیا میں (بھی) رسوائی ہے اور انہی کو آخرت میں زبردست عذاب ہوگا۔۔
ہمیں قرآن کی اس بشارت پر یقین ہے
ہمیں اس فیصلہ کا شدت سے انتظار ہے
Comments are closed.